میت کی طرف سے رمضان کے روزوں کی قضاء

میت کی طرف سے رمضان کے روزوں کی قضاء | ||
میت کی طرف سے رمضان کے روزوں
کی قضاء محمد رفيق طاهر، عفى الله عنہ میت کے فرض روزے رہتے ہوں خواہ وہ رمضان المبارک کے ہوں نذر کے ہوں
یا کفارہ کے میت کے اولیاء اسکی طرف سے روزے ہی رکھیں گے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ
صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ» جو شخص فوت ہو جائے اور اسکے ذمہ روزہ ہو تو اسکا ولی اسکی طرف سے
روزہ رکھے۔ صحیح البخاری: 1952 یہ روایت عام ہے اس میں ہر قسم کے فرض روزے داخل و شامل
ہیں۔ نذر کے روزوں کے بارہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ، فَقَالَ:
«أَرَأَيْتِ لَوْ كَانَ عَلَيْهَا دَيْنٌ أَكُنْتِ تَقْضِينَهُ؟» قَالَتْ: نَعَمْ،
قَالَ: «فَدَيْنُ اللهِ أَحَقُّ بِالْقَضَاءِ» ایک عورت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ میری
والدہ فوت ہوگئی ہے اور اسکے ذمہ ایک ماہ کے روزے تھے ۔ تو نبی صلى اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا تیرا کیا خیال ہے کہ اگر اس پر قرض ہوتا تو کیا تو اسے ادا کرتی؟ کہنے
لگی جی ہاں! آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو اللہ کا قرض ادا کیے جانے کا
زیادہ حقدار ہے۔ صحیح مسلم: 1148 صحیح البخاری میں وضاحت ہے : إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ نَذْرٍ میری والدہ فوت ہوگئی ہے اور اس پر نذر کے روزے ہیں۔ صحیح البخاری: 1953 لیکن اس روایت سے صحیح بخاری کی پہلی عام روایت کو خاص کرنا درست
نہیں کیونکہ اولا: علم اصول کا مسلمہ قاعدہ ہے : العبرة بعموم اللفظ لا
بخصوص السبب اعتبار الفاظ کے عموم کا ہوتا ہے سبب کے خصوص کا نہیں اور دوسرا قاعدہ ہے: عام کے افراد میں سے کسی ایک فرد کا ذکر اس عام کے عموم کو ختم نہیں
کرتا ۔ ثانیا: سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: بَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ، إِذْ أَتَتْهُ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: إِنِّي تَصَدَّقْتُ عَلَى أُمِّي
بِجَارِيَةٍ، وَإِنَّهَا مَاتَتْ، قَالَ: فَقَالَ: «وَجَبَ أَجْرُكِ، وَرَدَّهَا
عَلَيْكِ الْمِيرَاثُ» قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّهُ كَانَ عَلَيْهَا صَوْمُ
شَهْرٍ، أَفَأَصُومُ عَنْهَا؟ قَالَ: «صُومِي عَنْهَا» قَالَتْ: إِنَّهَا لَمْ
تَحُجَّ قَطُّ، أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟ قَالَ: «حُجِّي عَنْهَا» میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک عورت آئی
اور اس نے کہا کہ میں نے اپنی والدہ پر ایک لونڈی صدقہ کی تھی اور میری والدہ اب
فوت ہوگئی ہے تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھے اجر مل گیا اور
وراثت میں وہ لونڈی پھر تجھے مل گئی۔ اس نے کہ اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم
اس کے ذمہ ایک ماہ کے روزے تھے تو کیا میں اسکی طرف سے روزے رکھوں؟ تو آپ صلى
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسکی طرف سے روزے رکھ۔ کہنے لگی کہ اس نے کبھی حج نہیں
کیا تھا تو کیا میں انکی طرف سے حج کروں؟ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انکی
طرف سے حج کر۔ صحیح مسلم: 1149 یہی روایت ابو عوانہ میں وضاحت کے ساتھ ہے: وَعَلَيْهَا صَوْمٌ مِنْ رَمَضَانَ انکے ذمہ رمضان کے روزے ہیں۔ مستخرج أبی عوانۃ : 2906 محمد بن یوسف الفریابی رحمہ اللہ نے امام سفیان ثوری رحمہ اللہ
سے جو جزء حدیثی نقل کیا ہے اس میں امام سفیان ثوری فرماتے ہیں: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ
بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ فَقَالَتْ: إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرِ
رَمَضَانَ فَقَالَ: " صُومِي مَكَانَهَا " سیدنا بریدہ بن الحصیب اسلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے عرض کیا میری
والدہ فوت ہوگئی ہے اور اسکے ذمہ رمضان کے مہینہ کے روزے تھے۔ تو آپ صلى
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسکی جگہ تو روزے رکھ۔ [من حديث الإمام سفيان بن سعيد الثوري ، ط دار البشائر الإسلامیۃ
2004ء، ص 153، حـ276، رقم الحدیث من مخطوط الظاھریۃ (65)] امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے انکی یہ کتاب محمد بن یوسف
الفریابی نے اور فریابی سے عبد اللہ بن محمد بن سعید بن أبی مریم نے روایت
کی۔ مرکز الملک فیصل کی طرف سے شائع کردہ ''خزانۃ التراث- فہر س المخطوطات'' کے مطابق کویت کے مکتبۃ المخطوطات میں یہ مخطوط 1602 عن الظاهرية 90/3826 موجود ہے۔ اور خزانۃ التراث میں اسکی رقم تسلسلی 74700 ہے۔ اور مخطوط
میں اسکا نام ''مما أسند سفیان بن سعید الثوری'' درج ہے۔ تنبیہ ثانی: محمد بن یوسف بن واقد ‘ أبو عبد اللہ الفریابی رحمہ اللہ
امام بخاری رحمہ اللہ سمیت بہت سے کبار محدثین کے استاذ ہیں۔ اور یہ کوفہ
اور مکہ میں سفیان ثوری رحمہ اللہ کے ساتھ رہے اور ان سے حدیث سنتے رہے۔ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لَهُ عَنِ الثَّوْريّ إِفْرَادَاتٌ وَلَهُ حَدِيثٌ كَثِيرٌ عَنِ
الثَّوْريّ وَقَدْ قَدِمَ الْفِرْيَابِيُّ فِي سُفْيَانَ الثَّوْريّ عَلَى
جَمَاعَةٍ مِثْلَ عَبد الرَّزَّاق وَنُظَرَائِهِ وَقَالُوا الْفِرْيَابِيُّ
أَعْلَمُ بِالثَّوْرِيِّ مِنْهُمْ فریابی بہت سی روایات ثوری سے نقل کرنے میں منفرد ہیں اور ثوری سے وہ
بہت سی ا حادیث نقل فرماتے ہیں۔اور سفیان ثوری سے روایت میں فریابی کو امام عبد
الرزاق صنعانی اور ان جیسوں پر مقدم کیا جاتا ہے۔ اور محدثین کا کہنا ہے کہ فریابی
انکی نسبت ثوری کی مرویات کو زیادہ جانتے تھے۔ الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی، ط العلمیۃ، جـ7 صـ469 اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس انفراد کا سبب یہ بیان فرمایا ہے: لأنه لازمه مدة ، فلا ينكر له أن ينفردعن ذلك البحر. کیونکہ فریابی اک طویل عرصہ تک ثوری کے ساتھ رہے ہیں ، لہذا یہ کوئی
انوکھی بات نہیں کہ فریابی امام سفیان ثوری جیسے علم کے سمندر سے روایت کرنے میں
منفرد بھی ہو۔ ميزان الاعتدال للذهبي، جـ4 صـ71 (8340) فائده: اس روایت کو امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے روایت کرنے میں
فریابی متفرد نہیں ہیں بلکہ ابو عبد الرحمن عبید اللہ الاشجعی نے بھی انکی
متابعت کی ہے ۔ امام ابو عوانہ فرماتے ہیں: وَرَوَى الْأَشْجَعِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ فَقَالَ: وَعَلَيْهَا
صَوْمٌ مِنْ رَمَضَانَ اشجعی نے سفیان ثوری سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ اس کے ذمہ رمضان کے
روزے تھے۔ صحیح أبي عوانہ: 2906 اسکی تفصیل درج ذیل ہے: سفيان ثوري طبقہ ثانیہ اور انکے شیخ عبد اللہ بن عطاء الطائفی مدلس ہی نہیں ہیں نہ ان سے تدلیس ثابت ہے‘ بلکہ وہ تو خطأ اور تدلیس
دونوں سے بری ہیں۔ البتہ بعض اہل علم کے ہاں وہ طبقہ اولی کے مدلس ہیں۔ اور
ثوری و عبد اللہ دونوں ہی قلیل التدلیس ہیں۔ الاولى : من لم
يوصف بذلك الا نادرا كيحيى بن سعيد الانصاري پہلا طبقہ ان مدلسین کا ہے جو تدلیس سے متصف نہیں ‘ مگر شاذ ونادر وہ
بھی تدلیس کرلیتے ہیں یحیى بن سعید الانصاری کی طرح۔ طبقات المدلسین:صـ 13 الثانية : من احتمل
الائمة تدليسه وأخرجوا له في الصحيح لامامته وقلة تدليسه في جنب ما روى كالثوري أو
كان لا يدلس الا عن ثقة كإبن عيينة دوسرا طبقہ: ان مدلسین کا ہے جنکی تدلیس کو ائمہ نے قبول کیا ہے اور
انکی امامت اور انکی مرویات کے مقابل انکی تدلیس کم ہونے کیوجہ سے ائمہ نے انکے
عنعنہ کو قبول کیا ہے اور صحیح میں انکی روایات درج کی ہیں ‘ جیسا کہ سفیان ثوری
ہیں۔ یا اس طبقہ میں وہ مدلسین شامل ہیں جو صرف ثقہ سے ہی تدلیس کرتے تھے جیسا کہ
ابن عیینہ ہیں۔ طبقات المدلسین: صـ 13 (16) م 4 عبد الله بن عطاء
الطائفي نزيل مكة من صغار التابعين قضيته في التدليس مشهورة رواها شعبة عن أبي
إسحاق السبيعي عبد اللہ بن عطاء طائفی نزیل مکہ، صغار تابعین میں سے ہیں اور تدلیس
کے بارہ انکا واقعہ مشہور ہے اسے شعبہ نے ابو اسحاق سبیعی سے روایت کیا ہے۔ طبقات المدلسین: صـ22 (( اس واقعہ کی تفصیل اور انکے تدلیس سے بری ہونے کی بحث آگے آرہی ہے)) (51) ع سفيان بن سعيد
الثوري الامام المشهور الفقيه العابد الحافظ الكبير وصفه النسائي وغيره بالتدليس
وقال البخاري ما أقل تدليسه سفیان بن سعید ثوری، امام، مشہور، فقیہ، عابد، بہت بڑے حافظ ہیں ،
نسائی وغیرہ نے انہیں تدلیس سے موصوف کیا ہے، اور امام بخاری نے فرمایا کہ انکی
تدلیس کتنی ہی تھوڑی ہے۔ طبقات المدلسین: صـ 32 جیسا کہ قلیل الخطأ کی روایت دلیل کے بغیر رد نہیں کی جاتی اور کثیر
الخطأ کی روایت دلیل کے بغیر قبول نہیں کی جاتی ۔ لہذا یہاں سفیان ثوری اور انکے شیخ عبد اللہ بن
عطاء کا (اگر انہیں مدلس مان بھی لیا جائے تب بھی) عنعنہ تو ہے
لیکن تدلیس نہیں۔ اس عنعنہ کو تدلیس ثابت کرنے کے لیے دلیل چاہیے جو کہ موجود
نہیں۔ لہذا یہ روایت صحیح ہے اس پر کوئی غبار نہیں۔ قضيته في التدليس
مشهورة رواها شعبة عن أبي إسحاق السبيعي تدلیس کے بارہ انکا واقعہ مشہور ہے اسے شعبہ نے ابو اسحاق
سبیعی سے روایت کیا ہے۔ طبقات المدلسین: صـ22 اس بات کی دلیل ہے کہ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس قضیہ کی وجہ سے انہیں
مدلس گردانا ہے۔ اور یہ سہو ہے۔ کیونکہ شعبہ رحمہ اللہ نے جس واقعہ کو ابو اسحاق
سبیعی سے روایت کیا ہے اس میں عبد اللہ بن عطاء الطائفی پر تدلیس کا الزام ہرگز
نہیں ہے۔ بلکہ اس میں تو صرف یہ صراحت ہے کہ عبد اللہ بن عطاء نے عقبہ بن
عامر رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا۔ یعنی وہ قصہ تدلیس کے بارہ میں ہے ہی نہیں
بلکہ ارسال کے بارہ میں ہے۔ تدلیس کے بارہ میں تب ہوتا جب اس میں یہ بیان
کیا جاتا کہ یہ روایت عبد اللہ بن عطاء نے عقبہ بن عامر سے نہیں سنی
اسکے علاوہ باقی مرویات سن رکھی ہیں۔ کیونکہ تدلیس کہتے ہی اسے ہیں کہ کوئی راوی اپنے ایسے استاذ سے
جس سے اس نے احادیث سن رکھی ہوں کوئی ایسی روایت نقل کرے جو اس راوی نے اس استاذ
سے خود نہیں سنی بلکہ کسی اور نے اس استاذ سے سن کر اس راوی کو سنائی ہو۔
لیکن جب کسی راوی کا کسی محدث سے سماع ہی نہ ہو ‘ ملاقات ہی نہ ہو‘
لیکن پھر بھی وہ راوی اس محدث سے روایت کرتے ہوئے کہے کہ اس محدث نے یہ حدیث روایت
کی ہے تو اسے تدلیس نہیں ارسال کہتے ہیں۔ ١ ـ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "لم ير عقبة بن عامر'' عبد اللہ بن عطاء نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو نہیں دیکھا۔ الثقات : جـ5 صـ 33 (3710) ٢ ـ امام مزی رحمہ
اللہ فرماتے ہیں : روى عن .... وعقبة بن عامر الجهني (ق) - ولم يدركه - انہوں نے عقبہ بن عامر الجہنی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کی ہے(ابن
ماجہ میں) لیکن انہیں پایا نہیں۔ تهذيب الكمال : جـ15 صـ312 (3429) ٣ ـ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : روى عن .... عقبة بن عامر مرسلا انہوں نے عقبہ بن عامر سے مرسلا روایت کی ہے۔ تہذیب التہذیب : جـ5 صـ322 (551) ٤ ـ امام سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : يروي عن: عقبة بن عامر ولم يدركه یہ عقبہ بن عامر سے روایت کرتے ہیں جبکہ انہیں پایا نہیں۔ التحفة اللطيفة في تاريخ المدينة الشريفة :جـ2 صـ 61 (2153) یہ واقعہ خطیب نے کفایہ میں اپنی سند سے نقل کیا ہے ۔ خطیب بغدادی
فرماتے ہیں: أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ
اللَّهِ بْنِ حَسْنَوَيْهِ الْكَاتِبُ ، بِأَصْبَهَانَ، ثنا أَبُو جَعْفَرٍ
أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ مَعْبَدٍ السِّمْسَارُ، ثنا عُمَرُ
بْنُ أَحْمَدَ بْنِ السُّنِّيِّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ غَالِبٍ أَبُو يَحْيَى
الْعَطَّارُ ، ح وَأَخْبَرَنِي الْقَاضِي أَبُو الْعَلَاءِ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ
الْوَاسِطِيُّ، ثنا أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَتَّابِ بْنِ مُحَمَّدِ
بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ عَتَّابٍ الْعَبْدِيُّ، أنا عَلِيُّ بْنُ
عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُبَشِّرٍ، ثنا أَبُو يَحْيَى مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ
الْعَطَّارُ ـ وَاللَّفْظُ لِابْنِ السُّنِّيِّ ـ عَنْ أَبِي يَحْيَى، عَنْ نَصْرُ
بْنُ حَمَّادٍ الْوَرَّاقُ ، قَالَ: كُنَّا قُعُودًا عَلَى بَابِ شُعْبَةَ
نَتَذَاكَرُ ، قَالَ: فَقُلْتُ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عَبْدِ
اللَّهِ بْنِ عَطَاءٍ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ: كُنَّا نَتَنَاوَبُ رِعَاةَ الْإِبِلِ عَلَى
عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَجِئْتُ ذَاتَ يَوْمٍ
وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ وَحَوْلَهُ أَصْحَابُهُ ،
فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ ، ثُمَّ دَخَلَ
مَسْجِدًا فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ فَاسْتَغْفَرَ اللَّهَ ، غَفَرَ اللَّهُ لَهُ»
قَالَ: فَقُلْتُ: بَخٍ بَخٍ ، قَالَ: فَجَذَبَنِي رَجُلٌ مِنْ خَلْفِي ،
فَالْتَفَتُّ فَإِذَا هُوَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، فَقَالَ: الَّذِي قَالَ
قَبْلُ أَحْسَنُ ، قَالَ: " مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ،
وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ ، قِيلَ لَهُ: ادْخُلْ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ
شِئْتَ " قَالَ: فَخَرَجَ إِلَيَّ شُعْبَةُ فَلَطَمَنِي ، ثُمَّ دَخَلَ ثُمَّ
خَرَجَ ، فَقَالَ: مَا لَهُ بَعْدُ يَبْكِي؟ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ
إِدْرِيسَ: إِنَّكَ أَسَأْتَ إِلَيْهِ ، فَقَالَ: أَمَا تَنْظُرُ مَا يُحَدِّثُ
عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَطَاءٍ عَنْ
عُقْبَةَ؟ أَنَا قُلْتُ لِأَبِي إِسْحَاقَ: مَنْ حَدَّثَكَ؟ قَالَ: حَدَّثَنِي
عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَطَاءٍ عَنْ عُقْبَةَ ، قُلْتُ: سَمِعَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَطَاءٍ مِنْ
عُقْبَةَ؟ قَالَ:
فَغَضِبَ وَمِسْعَرُ بْنُ كِدَامٍ حَاضِرٌ فَقَالَ: أَغْضَبْتَ الشَّيْخَ ،
فَقَالَ مِسْعَرٌ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَطَاءٍ بِمَكَّةَ ، فَرَحَلْتُ إِلَى
مَكَّةَ لَمْ أُرِدِ الْحَجَّ ، أَرَدْتُ الْحَدِيثَ ، فَلَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَطَاءٍ
فَسَأَلْتُهُ ، فَقَالَ سَعْدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنِي فَقَالَ لِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: سَعْدٌ
بِالْمَدِينَةِ لَمْ يَحُجَّ الْعَامَ ، فَرَحَلْتُ إِلَى الْمَدِينَةِ ،
فَلَقِيتُ سَعْدًا فَقَالَ: الْحَدِيثُ مِنْ عِنْدِكُمْ زِيَادُ بْنُ
مِخْرَاقٍ حَدَّثَنِي ، قَالَ شُعْبَةُ: فَقُلْتُ: إِيشْ هَذَا؟ الْحَدِيثُ
بَيْنَا ، هُوَ كُوفِيُّ إِذْ صَارَ مَدَنِيًّا ، إِذْ رَجَعَ إِلَى الْبَصْرَةِ ،
قَالَ أَبُو يَحْيَى: هَذَا الْكَلَامَ أَوْ نَحْوَهُ ، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى
الْبَصْرَةِ فَلَقِيتُ زِيَادَ بْنَ مِخْرَاقٍ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: لَيْسَ هُوَ
مِنْ بَابَتِكَ ، قُلْتُ: حَدِّثْنِي بِهِ ، قَالَ: لَا تُرِدْهُ ، قُلْتُ: حَدَّثَنِي بِهِ قَالَ: حَدَّثَنِي شَهْرُ بْنُ
حَوْشَبٍ عَنْ أَبِي رَيْحَانَةَ عَنْ عُقْبَةَ ، قَالَ شُعْبَةُ: فَلَمَّا ذَكَرَ شَهْرًا
قُلْتُ: دَمِّرْ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ ، لَوْ صَحَّ لِي مِثْلُ هَذَا الْحَدِيثِ
كَانَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَهْلِي وَمَالِي وَمِنَ النَّاسِ أَجْمَعِينَ " الکفایہ فی علم الروایۃ : صـ 400 خلاصہ یہ کہ نصر بن حماد الواراق کہتے ہیں کہ ہم امام شعبہ رحمہ اللہ
کے دروزے پہ بیٹھے مذاکرہ کررہے تھے تو میں نے کہا: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ
بْنِ عَطَاءٍ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ اور اس سند سے حدیث بیان کی تو امام شعبہ رحمہ اللہ نکلے اور انہوں
نے مجھے تھپڑ رسید کر دیا پھر اندر داخل ہوگئے‘ پھر نکلے تو کہا کہ اسے کیا
ہے ابھی تک رو رہا ہے؟ تو عبد اللہ بن ادریس نے کہا کہ آپ نے اس کے ساتھ اچھا نہیں
کیا۔ تو فرمانے لگے کیا تو دیکھتا نہیں کہ وہ بطریق اسرائیل از ابو اسحاق از عبد
اللہ بن عطاء از عقبہ بن عامر کیا بیان کر رہا ہے؟ میں نے ابو اسحاق سے پوچھا تھا
کہ آپکو کس نے یہ حدیث بیان کی ہے تو انہوں نے کہا مجھے عبد اللہ بن عطاء نے عقبہ
بن عامر سے روایت بیان کی ہے۔ میں نے پوچھا کہ عبد اللہ بن عطاء نے عقبہ بن عامر سے سنا ہے؟ تو وہ غصے ہوگئے! اس
وقت مسعر بن کدام بھی موجود تھے ۔ تو مسعر کہتے ہیں کہ میں مکہ میں عبد اللہ بن
عطاء کے پاس گیا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مجھے یہ حدیث سعد بن ابراہیم
نے بیان کی ہے۔ میں نے سعد سے پوچھا تو انہوں نے کہ مجھے زیاد بن مخراق نے یہ حدیث
بیان کی ہے۔ اور جب زیاد بن مخراق سے پوچھا تو انہوں نے کہ مجھے شہر بن حوشب نے یہ
حدیث بیان کی ہے انہوں نے ابو ریحانہ سے سنی اور ابو ریحانہ نے عقبہ بن عامر
سے۔ (انتہی ملخصا) یعنی سند اصل میں یوں تھی: إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَطَاءٍ حَدَّثَنِي سَعْدُ بْنُ
إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنِي زِيَادُ بْنُ مِخْرَاقٍ حَدَّثَنِي شَهْرُ بْنُ
حَوْشَبٍ عَنْ أَبِي رَيْحَانَةَ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ یعنی عبد اللہ بن عطاء اور عقبہ بن عامر کے درمیان چار واسطے تھے
جنہیں حذف کر دیا گیا تھا۔ اسی وجہ سے امام شعبہ رحمہ اللہ نے نصر بن حماد
کو مارا اور غصے ہوئے۔ اور جب امام شعبہ رحمہ اللہ نے ابو اسحاق السبیعی سے یہ سند
(عن عبد اللہ بن عطاء عن عقبۃ بن عامر) سنی تو اعتراض کیا کہ کیا عبد اللہ بن عطاء نے عقبہ
بن عامر سے سنا ہے؟
یہ نہیں کہا کہ کیا
یہ روایت عبد اللہ بن عطاء نے عقبہ بن عامر سے سنی ہے؟ یعنی امام شعبہ رحمہ اللہ واضح کرنا چاہ رہے
تھے کہ عبد اللہ بن عطاء کا تو عقبہ بن عامر سے سماع ہی نہیں ہے پھر عبد اللہ بن
عطاء از عقبہ بن عامر کیسے بن گیا؟ اور چونکہ ابو اسحاق السبیعی الہمدانی رحمہ
اللہ مدلس تھے اور تدلیس الاسناد کرتے تھے تو امام شعبہ کے سوال پر غصے ہوگئے کہ
شاید تدلیس تسویہ کا بھی شک کیا جا رہا ہے کیونکہ امام شعبہ رحمہ اللہ تدلیس کے
بارہ میں بہت سخت تھے۔ اس پر مسعر بن کدام نے اس سند کی تحقیق کا بیڑا
اٹھایا اور سارے واسطے معلوم کیے۔ اس واقعہ سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ عبد اللہ بن
عطاء رحمہ اللہ تدلیس نہیں بلکہ ارسال کرتے تھے۔ اور پھر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ
نے بھی یہی بات تہذیب التہذیب میں تسلیم کرتے ہوئے فرمایا ہے: روى عن .... عقبة بن عامر مرسلا انہوں نے عقبہ بن عامر سے مرسلا روایت کی ہے۔ تہذیب التہذیب : جـ5 صـ322 (551) لیکن پھر اسی واقعہ کی بناء پر تقریب میں کہا: صدوق يخطىء ويدلس یہ صدوق ہے اور خطأ کرتا ہے اور تدلیس کرتا ہے۔ تقریب التہذیب: 3479 اور پھر طبقات میں فرمایا: (16) م 4 عبد الله بن
عطاء الطائفي نزيل مكة من صغار التابعين قضيته في التدليس مشهورة رواها شعبة عن
أبي إسحاق السبيعي عبد اللہ بن عطاء طائفی نزیل مکہ، صغار تابعین میں سے ہیں اور تدلیس
کے بارہ انکا واقعہ مشہور ہے اسے شعبہ نے ابو اسحاق سبیعی سے روایت کیا ہے۔ طبقات المدلسین: صـ22 اور پھر اسی واقعہ کو ہی بنیاد بنا کر ابن العراقی نے انہیں
مدلسین میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: فهذا يدل على أن عبد الله بن عطاء كان مدلسا. تو یہ واقعہ دلالت کرتاہے کہ عبد اللہ بن عطاء مدلس تھے! المدلسین:34 الغرض عبد اللہ بن عطاء کو مدلس قرار دینے کی بنیاد اس واقعہ پر ہے
جس سے انکی تدلیس ثابت ہی نہیں ہوتی۔ لہذا حق اور انصاف یہی ہے کہ عبد اللہ بن
عطاء الطائفی ابو عطاء رحمہ اللہ مدلس نہیں تھے۔خوب سمجھ لیں! تنبیہ بلیغ! اس واقعہ میں عبد اللہ بن عطاء رحمہ اللہ کے عقبہ بن عامر رضی اللہ
عنہ سے سماع و ملاقات پر بحث ہے۔ اور اس میں حق یہی ہے کہ انہوں نے نہ تو عقبہ رضی
اللہ عنہ کو پایا نہ ان سے حدیث سنی‘ لہذا عبد اللہ بن عطاء عن عقبہ بن عامر منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ جبکہ جو روایت
ہم نے میت کی طرف رمضان کے روزوں کی قضاء دینے سے متعلق نقل کی ہے اس میں عبد اللہ
بن عطاء رحمہ اللہ عبد اللہ بن بریدۃ سے روایت کر رہے ہیں اور عبد اللہ بن عطاء عن عبد اللہ بن بریدۃ صحیح ہے‘ کیونکہ عبد
اللہ بن بریدہ سے عبد اللہ بن عطاء رحمہ اللہ نے ملاقات کی اور سنا ہے۔ اور
عبد اللہ بن عطاء پر تدلیس کا الزام بھی ثابت نہیں۔ لہذا یہ سند (عبد اللہ بن عطاء عن عبد اللہ بن بریدۃ) متصل ہے۔ امام مسلم نے بھی من وعن اسی سند سے یہی روایت صحیح مسلم میں بھی نقل
کی ہے۔ گوکہ وہاں ’’صوم رمضان‘‘ کی وضاحت
نہیں ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: امام مسلم فرماتے ہیں: حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا الثَّوْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَطَاءٍ، عَنِ
ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى
النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ بِمِثْلِهِ، وَقَالَ: صَوْمُ
شَهْرٍ. وحَدَّثَنِيهِ إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ
مُوسَى، عَنْ سُفْيَانَ،
بِهَذَا الْإِسْنَادِ،
وَقَالَ: صَوْمُ شَهْرَيْنِ. صحیح مسلم:1149 لہذا یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی
یہ روایت مسلم کی شرط پر
صحیح ہے! تنبیہ بلیغ: ایک ہی روایت مختلف جگہوں پر مختلف الفاظ سے مروی ہوتی ہے۔ کبھی
ایک جگہ الفاظ کم ہوتے ہیں تو دوسری جگہ زیادہ‘ اور کبھی ایک جگہ بات مجمل
ہوتی ہے دوسری جگہ مفصل۔ روایت ایک ہی ہوتی ہے رواۃ اسے بیان کرتے ہوئے اختصار یا
تفصیل سے کام لیتے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا بالخصوص اس وقت جب سند بھی
ایک ہی ہو۔ اس ساری بحث سے یہ نتیجہ نکلا کہ میت کی طرف سے رمضان کے روزوں کی
قضاء دینے والی مرفوع روایت مسلم کی شرط پر صحیح‘ اپنے معنی میں صریح‘ اور غیر معارض ہے جس میں تأویل کی کوئی گنجائش نہیں۔ لہذا اگر کوئی فوت ہو
جائے اور اسکے ذمہ رمضان کے روزے ہوں تو اسکی طرف سے اسکے اولیاء روزہ رکھیں۔ یاد رہے کہ امام سفیان بن سعید بن مسروق الثوری رحمہ اللہ سے تدلیس
تسویہ کرنا بھی ثابت ہے۔ لیکن وہ احباب جنہوں نے یہ اصول بنا رکھا ہے کہ مدلس کا
ہر عنعنہ رد کر دیا جائے۔ وہ بھی سفیان ثوری کے عنعنہ کو تو رد کرتے ہیں
لیکن ثوری سے آگے والے عنعنہ کو قبول کر لیتے ہیں۔ حالانکہ تدلیس تسویہ کرنے والے
راوی کے بارہ میں اصول ہے کہ اس سے آگے آخر سند تک تحدیث وسماع کی صراحت ہو تو
قبول وگرنہ روایت رد ہوتی ہے۔ الغرض یہ احباب گرامی قدر اپنے ہی اصول کو ایک
راوی یعنی سفیان ثوری کے بارہ میں توڑ دیتے ہیں۔جس سے انکے اپنے وضع کردہ اصول کی
حیثیت واضح ہو جاتی ہے۔ فائدہ ثانیہ: کچھ لوگ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان: لَا يَصُمْ أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ (جزء ابی الجھم: 24) پیش کرکے میت کی طرف سے رمضان کے روزے رکھنے سے
منع کر تے ہیں۔ لیکن یہ روایت استدلال کے
قابل نہیں اسکی کچھ وجوہ ہیں : نمبر1۔ یہ روایت بھی مبہم ہے! ہم اسکی تأویل کرتے ہیں کہ یہ زندگی میں کسی
کی طرف سے روزے رکھنے کے متعلق ہے۔ اور اسے ’’فرض روزوں‘‘ کے ساتھ خاص کرنے کی
دلیل نہیں ۔ یہ موقوف روایت ہے اور موقوفات دین میں حجت نہیں!۔ اگر مذکورہ روایت مکمل نقل كی جائے تو شاید اسے حجت بنانے کی کوشش نہ ہو کیونکہ اسی
روایت میں کسی کی طرف سے حج کرنے سے بھی منع ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: 24 - حَدَّثَنَا العَلاءُ، ثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ
نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، كَانَ يَقُولُ: «لَا يَصُمْ أَحَدٌ
عَنْ أَحَدٍ، وَلَا يَحُجَّ أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ» (جزء ابی الجھم: 24،وسندہ صحیح) خوب سمجھ لیں۔ فائده ثالثہ: فدیہ کا حکم شروع اسلام میں تھا لیکن بعد میں اللہ تعالى نے اسے
منسوخ فرما دیا۔ ابن ابی لیلى فرماتے ہیں: حدثنا أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم نزل رمضان فشق عليهم فكان من
أطعم كل يوم مسكينا ترك الصوم ممن يطيقه ورخص لهم في ذلك فنسختها وأن تصوموا خير
لكم فأمروا بالصوم کئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ہمیں بتایا کہ جب رمضان
کے روزوں کی فرضیت نازل ہوئی تو جس پر روزہ گراں گزرتا ، اگر اسکے پاس طاقت ہوتی
تو وہ ہر دن ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا اور روزہ چھوڑ دیتا ، اور انہیں اس بات
کی رخصت تھی ، پھر اس رخصت کو وأن تصوموا خير لكم نے منسوخ کر دیا اور انہیں روزہ
رکھنے کا حکم دیا گیا۔ صحیح البخاری: قبل حدیث 1949 نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ
نے (فِدْيَةُ طَعَامِ مَسَاكِينَ) کی تلاوت فرمائی اور فرمایا: «هِيَ مَنْسُوخَةٌ» یہ منسوخ ہے۔ صحیح البخاری: 1949 | ||
|
اضافی لنکس | ||||
لنک کا عنوان | سماعت/مشاہدہ فرمائیں | ڈاؤنلوڈ |


مقالہ گزشتہ | مقالات متشابہہ | مقالہ آئندہ |




