جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے | ||
جن پہ
تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
محمد رفیق طاہر، عفا اللہ عنہ کورونا کی وباء پھیلنے
اور لاک ڈاؤن ہونے کے بعد بات چلی نماز جمعہ کی ادائیگی کی، تو ہم نے کہا جس طرح
گھروں میں باجماعت نماز پڑھنے کا جواز ہے، بعینہ گھر میں جمعہ پڑھنے کا جواز
بھی موجود ہے۔ جس پہ کچھ’’ضفادع حیاض‘‘نے
زبان طعن دراز کی تو ہم نے انہیں آئینہ دکھانے کے لیے انکی تلبیسات ومغالطات کو طشت از
بام کیا۔ اور اس بات کی صراحت کی کہ جس اتفاق اور اجماع کو لے کر آپ نماز ظہر
کو ہی واجب کرنے پہ مصر ہیں، اس میں بھی ’’نماز جمعہ فوت‘‘ ہو جانے کی بات ہے، کہ
جس کی نماز جمعہ فوت ہو جائے وہ ظہر ادا کرے۔ا ور بر سبیل تنزل ہم نے کہ یہ بات
زیادہ سے زیادہ اس بندے کے حق میں ہوسکتی ہے جو مسجد میں جمعہ کے دن پہنچے اور امام
دوسری رکعت کا رکوع کر چکا ہو ، یا اسکے بعد آنے والے شخص کے بارے میں، کہ اسکا
جمعہ فوت ہوگیا اور اب وہ صرف دو رکعتوں پہ اکتفاء نہیں کرے گا، بلکہ ظہر کی چار
رکعات ادا کرے گا۔ اور یہ بھی اس صورت میں ہے کہ وہ اسی مسجد میں ہی نماز ادا کرنا
چاہے، وگرنہ آجکل جس طرح مساجد میں نمازوں کے اوقات مختلف ہوتے ہیں ایک مسجد میں
نماز جمعہ نہ پا سکنے والا اگر کسی دوسری
مسجد میں پہنچ جاتا ہے جہاں اسے نماز جمعہ مل جائے تو بھی یہ جمعہ کو پانے والا ہی
ہے۔ کیونکہ کوئی بھی نماز اس وقت تک فوت نہیں ہوتی جب تک اسکا وقت ختم نہ ہو جائے!
۔ ایک جگہ جماعت کے فوت ہونے سے دوسری جماعت میں شامل ہو جانا، خواہ اسی مسجد میں
، خواہ دوسری جگہ ، بالکل جائز ہے، اور اس میں اہل الحدیث کے مابین کوئی اختلاف بھی
نہیں، گوکہ آلِ تقلید کے یہاں یہ مسئلہ بھی مختلف فیہ ہے۔ پھر انہی کی طرف سے ’’ہفواتِ
عالیہ‘‘ کا ایک اور دور شروع ہوا، اور
ہمارے ممدوح کی چیخیں سن کر: سننے
والے رو دئیے سن کر مریض غم کا حال دیکھنے
والے ترس کھا کر دعا دینے لگے سو ہم نے بھی موصوف کے
’’چاکِ سینہ‘‘ کو رفو کرنے کے لیے ایک انکے منہجی عالم دین سمیت
کچھ عرب وعجم کے علماء کے حوالے پیش کیے کہ یہ بھی سبھی ہمارے ہمنوا ہیں، لہذا
آئینہ دیکھ کر برا نہ منائیے بلکہ اپنوں کو ہی دیکھ کر کچھ اپنی اصلاح کر لیجئے کہ تو
اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن..! لیکن صاحب اپنی رائے پہ
’’استقامت کا پہاڑ‘‘ بنے بیٹھے ہیں، اور اپنے سے مخالف رائے رکھنے والوں کے منہج
کو ’’آوراہ‘‘ قرار دے کر تقلید جامد کا درس دینے میں مصروف ہیں۔ اسی کاوش میں انہوں
نے بغیر سوچے سمجھے کہیں سے ایک تصویر حاصل کرکے اپنے فیسبک صفحہ پہ لگا دی۔ کاش
انہوں نے اسے بغور پڑھ ہی لیا ہوتا...!۔ اب تو وہ اقتباس جو انہوں نے نشر کیا ہے
بزبان حال پکار رہا ہے: ذرا تو سوچ کہ اتنا ہی
کر لیا ہوتا مجھے کتاب سمجھ کر ہی
پڑھ لیا ہوتا جو تحریر موصوف نے نشر
فرمائی ہے اس میں ایک تو وہی بات ہے کہ ’’اس پر اجماع ہے کہ جس کا جمعہ فوت ہو
جائے، وہ ظہر ادا کرے‘‘۔ اور اس بات سے جیسا کہ پہلے واضح کیا ہمیں کوئی اختلاف نہیں۔
محل اختلاف یہ ہے کہ ’’جمعہ کے وقت مسجد کے علاوہ
جمعہ قائم کرنا جائز ہے یا نہیں‘‘۔ اور یہ کہ ’’جمعہ فوت کب ہوتا ہے‘‘۔ جس پہ موصوف
کی رائے تقلیدی مذاہب کے موافق ہے کہ جمعہ کے لیے مسجد کی شرط ہے، جبکہ ہم ہر اس
جگہ جمعہ قائم کرنے کے قائل ہیں جہاں دو یا زائد مسلمان موجود ہوں۔ اور جمعہ فوت
ہونے کے حوالے سے موصوف مسلسل یہ دہائی دے رہے ہیں کہ جنہیں مسجد میں جانے سے روک
دیا گیا، انکا بھی جمعہ فوت ہوگیا، اور جو امام کے ساتھ جمعہ کی نماز کی ایک رکعت بھی
نہ پا سکا ، اسکا بھی جمعہ فوت ہوگیا۔ جبکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک جمعہ یعنی
ظہر کا وقت باقی ہے، جمعہ فوت نہیں ہوتا۔ہاں ’’بر سبیل تنزل‘‘ ہم نے یہ ضرور کہا
کہ ’’مسجد میں دوسری رکعت کے رکوع کے بعد پہنچنے والا شخص بھی ظہر کی چار رکعات ہی
ادا کرے گا‘‘ ، اور اسکی صراحت بھی سطور بالا میں کر دی ہے کہ یہ اس وقت ہے جب وہ دوسری
جگہ جمعہ پانے کے لیے نہیں جاتا۔ رہا سیدنا عبد اللہ بن
مسعود رضی اللہ عنہ کا قول جو سب سے پہلے انہوں نے ذکر فرمایا ہے، کہ جس کی دونوں
رکعتیں فوت ہو جائیں تو وہ ظہر کی چار رکعتیں ادا کرے گا، یہ اس شخص کے لیے ہے جو نماز
جمعہ ہو جانے کے بعد اکیلا ہی ادا کرنا چاہتا ہے، کہ اب وہ جمعہ کی دو رکعتیں نہیں
بلکہ ظہر کی چار رکعات ادا کرے گا۔کیونکہ اسکی نماز جمعہ فوت ہو گئی ہے۔البتہ وہ اگر یہ دیکھ کر کہ اس جگہ نماز جمعہ ہوچکی ،
کسی دوسری جگہ چلا جائے اور وہاں اسے جماعت مل جائے تو وہ جماعت کے ساتھ جمعہ کی
دو رکعات ہی ادا کرے گا۔ خیر سے موصوف کی نشر کردہ
اس تحریر میں فتح الباری کے حوالہ سے ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ کا قول بھی شامل ہے
جو ہمارے موقف کی تائید کرتا ہےکہ جب تک ظہر کا وقت باقی ہے، جمعہ فوت نہیں ہوتا،
اور اس پہ اتفاق ہے: واتفقوا: على أنه متى خرج وقت الظهر، ولم يصل الجمعة فقد فاتت ويصلي
الظهر. اور اس بات
پر اتفاق ہے کہ جب ظہر کا وقت نکل (یعنی ختم ہو) جائے ، اور جمعہ نہ پڑھا ہو، تو
وہ (جمعہ) فوت ہوگیا، اور وہ ظہر کی نماز
ادا کرے گا۔ فتح
الباري لابن رجب: 8/179، ط. الغرباء
الأثرية گویا موصوف نے جس عبارت
کی تصویر اپنے حق میں بطور تائید نقل فرمائی تھی، وہی عبارت انکے موقف کے خلاف نکل
آئی!، گویا باغباں نے آگ دی جب آشیانے
کو مرے جن پہ تکیہ تھا وہی پتے
ہوا دینے لگے کی عملی تصویر بن گئی! اس سے یہ تو ثابت ہوا کہ جمعہ فوت ہونے کا کیا معنى ہے۔ اور اب اگر موصوف کے نقل کردہ اجماع کو ابن رجب رحمہ اللہ کی یہ عبارت سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ ’’اس بات پر اجماع ہے کہ جب ظہر کا وقت ختم ہو جائے اور کسی نے جمعہ ادا نہ کیا ہو تو وہ ظہر کی نماز ہی پڑھے گا‘‘۔ لیجئے جناب یہ ہمارے ممدوح کی بھاگ دوڑ کا نتیجہ ہے۔ اور ہمیں اس سے کوئی اختلاف نہیں کہ جب جمعہ فوت ہو جائے، یعنی وقت ظہر ختم ہو جائے تو ظہر کی نماز ہی بطور قضاء پڑھی جائے۔ بلکہ بر سبیل تنزل ہم تو وہ بھی کہہ چکے جو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ ہم تو ان سے اختلاف صرف اس بات پہ رکھتے ہیں کہ ’’موجودہ حالات میں گھروں میں جمعہ جائز ہے یا نہیں‘‘۔ | ||
|
اضافی لنکس | ||||
لنک کا عنوان | سماعت/مشاہدہ فرمائیں | ڈاؤنلوڈ |


مقالہ گزشتہ | مقالات متشابہہ | مقالہ آئندہ |




