میلنگ لسٹ
موجودہ زائرین
اعداد وشمار
تلاش کریں
مادہ
سلف اور درود کی فرضیت
سوال:
استاد محترم کیا سلف میں کوئی پہلے تشہد میں درود کے وجوب کا قائل ہے ؟
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
اولا:
یہ سوال ہی سلفی منہج کے خلاف ہے!
کیونکہ سلف کا منہج و طریقہ دلیل دینے اور دلیل طلب کرنے کا تھا، اشخاص وافراد پیش کرنے یا طلب کرنے کا نہیں، وہ خود بھی ہر مسئلے پہ کتاب وسنت کی دلیل پیش کرتے اور مخالف سے بھی قرآن وحدیث کی دلیل ہی طلب کیا کرتے تھے۔ حتى کہ اگر مقابل و مخالف کسی ضعیف حدیث سے استدلال کر رہا ہوتا تو یہاں تک کہہ دیتے کہ یہ روایت ضعیف ہے، اگر صحیح ثابت ہو جائے تو ہم بھی اسی کے مطابق عمل کریں اور فتوى دیں گے۔ اس قسم کی بہت سی عبارتیں آپ کو کلام سلف میں إذا صح الحديث فهو مذهبي سے لیکر
وَلَيْسَ بِالْقَوِيِّ - وَلَوْ صَحَّ لَقُلْنَا بِهِ.
اور وَلَوْ صَحَّ لَقُلْنَا بِهِ، فَإِذْ لَمْ يَصِحَّ فَلَا يَجُوزُ الْأَخْذُ بِهِ
اوراسی طرح وَلَوْ صَحَّ لَقُلْنَا بِهِ، وَمَا تَعَدَّيْنَا.
اور لَكِنَّا بِلَا شَكٍّ عِنْدَ اللَّهِ أَعْذَرُ وَأَسْلَمُ وَأَخْلَصُ، إذْ لَمْ نَقْتَحِمْ مَا لَمْ نَدْرِ وَلَمْ نَقِفْ مَا لَيْسَ لَنَا بِهِ عِلْمٌ مِمَّا لَوْ عَلِمْنَاهُ لَقُلْنَا بِهِ.
اور وَاللَّهُ يَشْهَدُ - وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا - أَنَّا لَوْ تَيَقَّنَّا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - هُوَ الَّذِي حَسَبَهَا عَلَيْهِ، لَمْ نَتَعَدَّ ذَلِكَ، وَلَمْ نَذْهَبْ إِلَى سِوَاهُ.
تک رخ قرطاس پہ بکھری نظر آئیں گی۔ کیونکہ انہوں نے سلف صحابہ سے یہی طریقہ سیکھا تھا کہ وہ دلیل کے مقابل کسی بھی امتی کو ترجیح نہیں دیتے تھے خوا ہ وہ افضل الخلق بعد رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ہو۔ انہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی
وَاللهِ ما أراكم منتهين، حَتَّى يعذبكم الله، نحدثكم عن رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وتحدثونا عن أبي بكر، وعمر
مصنف عبد الرزاق: 9959
اور أَفَكِتَابُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ أَحَقُّ أَنْ يُتَّبَعَ أَمْ عُمَرُ؟
الأمالي في آثار الصحابة لعبد الرزاق: 142
اور أَأَمْرَ أَبِي نَتَّبِعُ؟ أَمْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟
جامع الترمذي: 824
اور الْأَذَانُ الْأَوَّلُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِدْعَةٌ
مصنف ابن أبي شيبة: 5437
تک بہت سا کلام منقول نظر آتا ہے۔ اور وہ دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جنبی کے تیمم سے متعلق سیدنا عمر بن الخطاب اور سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی عنہما جیسے افقہ الناس صحابہ کا قول چھوڑ کر ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کے قول پہ عمل کیا کہ انکے پاس دلیل تھی۔ اسی طرح انگلی کی دیت کے بارے میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قول چھوڑ کر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے قول پہ عمل کیا کہ وہ حدیث رسول صلى اللہ علیہ وسلم سے دلیل رکھتے تھے۔ضحاک بن سفیان رضی اللہ عنہ کے حدیث بتانے پہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خاوند کی دیت میں عورت کو وارث مان کر اپنے سابقہ موقف سے رجوع کر لیا، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حدیث سنانے پہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے دوبارہ زندگی بھر میراث فدک کا مطالبہ نہیں کیا، ایسی بیسیوں مثالیں صحابہ میں موجود ہیں۔ کہ وہ دلیل کی اتباع کرتے، دلیل دیکھ سن کر اپنے موقف سے رجوع کر لیتے، اور دلیل کے سامنے اپنی رائے اور قیاس کبھی پیش نہ کرتے، اور نہ ہی افضل ومفضول کی بحث چھیڑتے کہ افضل کی بات ماننا مفضول پہ واجب ہے، بلکہ وہ مفضول کی بات ماننا واجب سمجھتے تھے جب مفضول کے پاس دلیل ہوتی۔کیونکہ وہ جانتے تھے کہ علم کسی کی جاگیر نہیں ہے، بعض باتوں کا علم افضل و اعلم کو نہیں ہوتا مفضول کو ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ گھر میں آنے کی تین دفعہ اجازت مانگنے کے بعدنہ ملنے پہ واپس پلٹ جانے والی حدیث کا سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو علم تھا، لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ معلوم نہ تھی۔ جنبی کے تیمم سے متعلق فرمان رسول صلى اللہ علیہ وسلم عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو یاد رہا جبکہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھول گئے، مثل مؤمن درخت کونسا ہے، سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا، کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے علم میں نہ تھا۔ اور ایسی کتنی ہی مثالیں ہیں کہ علم میں افضل و اعلى پہ ایک مسئلہ مخفی رہ گیا جبکہ ادنی کو اسکا پورا درک تھا۔ اس لیے وہ شرعی مسائل میں شخصیات کو اہمیت نہیں دیتے تھے بلکہ دلیل کو اہمیت دیتے تھے، جس کے موقف پہ وحی الہی سے دلیل موجود ہوئی ، اسے اپنا لیا۔ یہی انکا منہج ومسلک تھا۔
اور کیوں نہ ہوں کہ اللہ تعالى نے انہیں یہی طریقہ سکھایا تھا:
اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ
جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے نازل گیا ہے اس کی پیروی کرو، اور اسکے سوا دیگر اولیاء کی پیروی نہ کرو، تم کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو۔
سورۃ الاعراف: 3
فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
پھر اگر تمہارا کسی چیز میں تنازعہ ہو جائے تو اسے اللہ اور اسکے رسول صلى اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹاؤ اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے سب سے اچھا ہے۔
سورة النساء: 59
یہی وہ محجہ بیضاء ہے اور یہی وہ منہج سلیم ہے جسے اللہ نے سبیل المؤمنین سے تعبیر کرتے ہوئے اسکی مخالفت سے منع کیا ہے:
وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
اور جو رسول کی مخالفت کرے اسکے بعد بھی کہ اس کے لیے ہدایت واضح ہوگئی اور مؤمنوں کے راستے کے سوا (کسی اور راستے ) کی پیروی کرے تو ہم اسے اسی جانب موڑ دیں گے جس طرف وہ مڑا اور اسے جہنم میں جھونک دیں گے اور وہ بہت بری لوٹنے کی جگہ ہے۔
سورۃ النساء: 115
مزید فرمایا:
وَمَنْ يُشَاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
اور جو اللہ اور اسکے رسول صلى اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے ، تو یقینا اللہ تعالى سخت سزا والا ہے۔
سورۃ الأنفال: 13
نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالى نے یہی منہج دے کر بھیجا تھا:
قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
کہہ دیجئے اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل پیش کرو۔
سورۃ البقرۃ: 111، سورۃ النمل: 64
ائْتُونِي بِكِتَابٍ مِنْ قَبْلِ هَذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
اگر تم سچے ہو تو میرے پاس اس سے پہلے کی کوئی کتاب لاؤ یا علم کی کوئی نقل شدہ بات۔
سورۃ الاحقاف: 4
الغرض نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا منہج، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا منہج اور تابعین وتبع تابعین اور اسلاف امت کا منہج دلیل کی اتباع ، دلیل کا مطالبہ، دلیل پہ عمل ہے۔
جبکہ
جن کے پاس دلیل نہیں ہوتی وہ افراد و شخصیات کی اتباع کرتے، اور موافقت میں شخصیات ہی طلب کرتے ہیں۔ جیسا کہ فرعون نے کیا جب اسے موسى علیہ السلام کے دلائل کا کوئی جواب نہ سوجھا، کہنے لگا:
فَمَا بَالُ الْقُرُونِ الْأُولَى
پہلے زمانے کے لوگوں کا کیا معاملہ ہے؟
موسی علیہ السلام نے اس کے اس سوال کا جواب نہ دیا بلکہ فرمایا :
عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي فِي كِتَابٍ لَا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنْسَى
ان کا علم میرے رب کے پاس ایک کتاب میں، میرا رب نہ تو غلطی کرتا ہے نہ بھولتا ہے۔
سورۃ طہ: 52
موسى علیہ السلام نے قرون اولى کے لوگوں کو نہ تو ہدایت پہ قرار دیا نہ ہی گمراہ بتایا، کہ اس مجلس میں اگر وہ انہیں گمراہ کہتے تو فرعون کہتا دیکھو یہ تمہارے آباء واجداد کو گمراہ کہہ رہا ہےاور دعوت موسوی کا اثر قوم کو بھڑکا کر زائل کر دیتا۔ اور اگر وہ انہیں ہدایت یافتہ قرار دیتے تو فرعون کہتا کہ ہم تو اپنے آباء کے دین پہ ہی ہیں۔ اس لیے موسى علیہ السلام نے فرعونی سوال کا یہ جواب دیا کہ انکا معاملہ اللہ کے سپرد ہے،اب دلیل کے میدان میں دلیل ہے تو پیش کرو، اور ساتھ ہی رب تعالى کا مزید تعارف کروا کر اپنی دعوت کو آگے بڑھایا ۔
اس سے پہلے ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی اور بت پرستی چھوڑنے کا کہا تو وہ کہنے لگے:
وَجَدْنَا آبَاءَنَا لَهَا عَابِدِينَ
ہم نے اپنے آباء کو انکی عبادت کرنے والے پایا ہے۔
سورۃ الانبیاء: 54
یعنی انہوں نے معیار حق دلیل کے بجائے اپنے آباء و اسلاف کو سمجھا۔تو یہ اہل ایمان کا وتیرہ نہیں ہے۔ اہل ایمان تو دلیل کے طالب ہوتے ہیں اور دلیل ہی کی اتباع کرتے ہیں۔یہی انکا منہاج ہے جو انہیں انکے دین نے دیا ہے۔ اور حق و دلیل کی اتباع میں فرد واحد بھی جماعت ہوتا ہے جیسا کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا تھا:
الجماعةُ ما وافق الحق وإن كنت وحدك
جماعت وہ ہے جو حق کے موافق ہو، خواہ تو اکیلا ہی ہو۔
المدخل إلى علم السنن للبيهقي: 1/419
اور اللہ سبحانہ وتعالى نے ابراہیم علیہ السلام کو اکیلے کو ہی امت قرار دیا :
إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
یقینا ابراہیم علیہ السلام ایک امت تھے، ا للہ کے مطیع اور یک سو، اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔
سورۃ النحل: 120
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فَالْحَذَرَ الْحَذَرَ أَيُّهَا الرَّجُلُ مِنْ أَنْ تَكْرَهَ شَيْئًا مِمَّا جَاءَ بِهِ الرَّسُولُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ تَرُدَّهُ لِأَجْلِ هَوَاك أَوْ انْتِصَارًا لِمَذْهَبِك أَوْ لِشَيْخِك أَوْ لِأَجْلِ اشْتِغَالِك بِالشَّهَوَاتِ أَوْ بِالدُّنْيَا فَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يُوجِبْ عَلَى أَحَدٍ طَاعَةَ أَحَدٍ إلَّا طَاعَةَ رَسُولِهِ وَالْأَخْذَ بِمَا جَاءَ بِهِ بِحَيْثُ لَوْ خَالَفَ الْعَبْدُ جَمِيعَ الْخَلْقِ وَاتَّبَعَ الرَّسُولَ مَا سَأَلَهُ اللَّهُ عَنْ مُخَالَفَةِ أَحَدٍ فَإِنَّ مَنْ يُطِيعُ أَوْ يُطَاعُ إنَّمَا يُطَاعُ تَبَعًا لِلرَّسُولِ وَإِلَّا لَوْ أَمَرَ بِخِلَافِ مَا أَمَرَ بِهِ الرَّسُولُ مَا أُطِيعَ. فَاعْلَمْ ذَلِكَ وَاسْمَعْ وَأَطِعْ وَاتَّبِعْ وَلَا تَبْتَدِعْ. تَكُنْ أَبْتَرَ مَرْدُودًا عَلَيْك عَمَلُك بَلْ لَا خَيْرَ فِي عَمَلٍ أَبْتَرَ مِنْ الِاتِّبَاعِ وَلَا خَيْرَ فِي عَامِلِهِ وَاَللَّهُ أَعْلَمُ.
مجموع الفتاوى: 16/528،529
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَكن فِي الْجَانِب الَّذِي يكون فِيهِ الله وَرَسُوله وان كَانَ النَّاس كلهم فِي الْجَانِب الآخر
الفوائد: 115
الغرض احکام شرعیہ ثابت کرنے کے لیے دلیل ہی مانگنی چاہیے، یہ سوال نہیں کرنا چاہیے کہ پہلے بھی کسی نے یہ حکم ثابت کیا ہے؟، کیونکہ دلیل مانگنے کا طریقہ اللہ کا سکھایا ہوا ہے اور یہ انبیاء و رسل اور صحابہ وسلف کا طریقہ ہے۔ اور اسی راستے پہ چلنے والا سبیل مؤمنین کا پیرو ہے، خواہ وہ تنہا ہو۔ اور ہم نے پہلے تشہد میں درود کا وجوب حجج قاطعہ سے ثابت کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دلائل پر یا ان دلائل سے استدلال پہ کوئی نقدسامنے نہیں آیا۔
ثانیا:
اس سوال سے تسلسل لازم آتا ہے، والتسلسل باطل!
کیونکہ آپ نے مجھے سے اس موقف پہ کسی سلف کا سوال کیا تو مثلا میں امام شوکانی کا نام لیتا ہوں تو یہ سوال امام شوکانی سے بھی بنتا ہے، اما م شوکانی مثلا امام ابن تیمیہ کا نام لے دیں تو یہ سوال امام ابن تیمیہ سے بھی بنے گا، ابن تیمیہ مثلا امام احمد کا نام لے دیں تو یہ سوال امام احمد سے بھی بنے گا، اور امام صاحب مثلا فقہائے سبعہ میں سے کسی کا نام لے دیں تو یہ سوال ان سے بھی ہوگا کہ آپ سے پہلے کسی سلف نے کہا ہے؟ اور وہ صحابہ کا نام لے دیں تو سوال صحابہ سے بھی ہوگا، بالآخر یہ تسلسل رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم پہ ختم ہوگا۔ کیونکہ آپ نے اصول یہ بنایا ہے کہ قائل سے سلف مانگنے ہیں،اور شرعی مسئلہ کے ہر قائل پہ یہ اصول لاگو کرنا پڑے گا ، اور نتیجتًا بات شارع پہ ختم ہوگی۔اور اگر آپ اس اصول سے متقدمین کے کسی طبقے کو مستثنى قرار دیں تو اس پہ سوال ہوگا کہ انہیں استثناء دینے کی کیا دلیل ہے، پھر جو دلیل انکے لیے ہوگی وہی متأخر کے لیے بھی بن جائے گی۔ سو یہ اصول ہی باطل ہے!
ثالثا:
سلف محدثین کا منہج اور طریقہ عمومی، فقہی حیثیت بیان کیے بغیر دلائل نقل کرنے اور عمل کرنے کا تھا۔ ہاں سلف فقہاء نے کوشش کرکے اکثر کی فقہی حیثیت بیان کی ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں آپ جانتے ہی ہیں کہ وہ سنت پہ عمل کو واجب سمجھا کرتے تھے۔ یعنی اس دور میں جنہیں فقہاء کے ہاں سنن ومستحبات کہا جاتا ہے ان کو بھی ترک کرنے کا تصور نہ تھا۔ اور یہ بھی آپ بخوبی جانتے ہیں کہ فقہی اصطلاحات کے منضبط ہونے سے قبل اور اسکے بعد قریب دور کے اہل الحدیث الفاظ کے استعمال میں نہایت احتیاط برتتے تھے حتى کہ فرض و واجب کے لیے سنت و مستحب اور حرام کے لیے مکروہ کا لفظ استعمال کیا کرتے تھے، لیکن اس مکروہ سے انکی مراد مکروہ تحریمی یعنی حرام ہی ہوا کرتا تھا۔اس لیے آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کلام میں اس باب میں واجب یا حرام کا لفظ نہ ہونے کے برابر پائیں گے۔
رابعا:
سلف نے فقہی حیثیت معلوم کرنے کا اپنا منہج واضح فرما دیا ہے، جسے انہوں نے اصول استنباط یا اصول الفقہ کا نام دیا ہے۔ اس کے مطابق کسی بھی حکم کی فقہی حیثیت واضح ہوتی ہے۔ لہذا اسی منہج کو اپنا کر آپ بھی کسی بھی حکم کی فقہی حیثیت معلوم کرسکتے ہیں۔ دلائل تک رسائی، استحضار، اور قوت استنباط کے تفاوت کی وجہ سے نتائج میں اختلاف ممکن ہے۔
خامسا:
درود پڑھنے کا حکم قرآن مجید میں ہے۔ اور فہم صحابہ کے مطابق جسے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے برقرار رکھا یہ حکم نماز میں تشہد کے بعد درود پڑھنے کو بھی شامل ہے۔ اور یہ بات واضح ہے کہ امر وجوب کا تقاضا کرتا ہے۔ جب تک کوئی صارف نہ ہو۔ اور یہاں بھی درود پڑھنا تو نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اسے پہلے تشہد میں چھوڑ دینا ثابت نہیں۔ جس سے جہاں تشہد کا وجوب معلوم ہوتا ہے وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم اسے واجب سمجھا کرتے تھے۔
پھر نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے بھی تشہد میں درود پڑھنے کا حکم دیا ہے اور پہلے اور دوسرے تشہد میں کوئی فرق نہیں کیا، وتاخیر البیان عند الحاجة لا یجوز!
سادسا:
فتح الباری میں(تحت حديث: 6382) حافظ صاحب فرماتے ہیں:
قَالَ شَيْخُنَا فِي شَرْحِ التِّرْمِذِيِّ وَلَمْ أَرَ مَنْ قَالَ بِوُجُوبِ الِاسْتِخَارَةِ لِوُرُودِ الْأَمْرِ بِهَا وَلِتَشْبِيهِهَا بِتَعْلِيمِ السُّورَةِ مِنَ الْقُرْآنِ كَمَا اسْتَدَلَّ بِمِثْلِ ذَلِكَ فِي وُجُوبِ التَّشَهُّدِ فِي الصَّلَاةِ لِوُرُودِ الْأَمْرِ بِهِ فِي قَوْلِهِ فَلْيَقُلْ وَلِتَشْبِيهِهِ بِتَعْلِيمِ السُّورَةِ مِنَ الْقُرْآنِ فَإِنْ قِيلَ الْأَمْرُ تَعَلَّقَ بِالشَّرْطِ وَهُوَ قَوْلُهُ إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالْأَمْرِ قُلْنَا وَكَذَلِكَ فِي التَّشَهُّدِ إِنَّمَا يُؤْمَرُ بِهِ مَنْ صَلَّى وَيُمْكِنُ الْفَرْقُ وَإِنِ اشْتَرَكَا فِيمَا ذُكِرَ أَنَّ التَّشَهُّدَ جُزْءٌ مِنَ الصَّلَاةِ فَيُؤْخَذُ الْوُجُوبُ مِنْ قَوْلِهِ صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي
اسی طرح ابن عبد البر کی تمہید میں (16/193) اس عبارت کو ملاحظہ کریں:
وَقَالُوا قَدْ عَلِمْنَا السَّلَامَ عَلَيْكَ فَكَيْفَ الصَّلَاةُ فَقَالَ لَهُمْ قُولُوا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَّمَهُمْ ذَلِكَ وَقَالَ لَهُمْ السَّلَامُ كَمَا قَدْ عَلِمْتُمْ فَدَلَّ ذَلِكَ عَلَى أَنَّ الصَّلَاةَ عَلَيْهِ فِي الصَّلَاةِ قَرِينُ التَّشَهُّدِ قَالُوا وَوَجَدْنَا الْأُمَّةَ بِأَجْمَعِهَا تَفْعَلُ الْأَمْرَيْنِ جَمِيعًا فِي صَلَاتِهَا فَعَلِمْنَا أَنَّهُمَا فِي الْأَمْرِ بِهِمَا سَوَاءٌ فَلَا يَجُوزُ أَنْ يُفَرَّقَ بَيْنَهُمَا وَلَا تَتِمُّ الصَّلَاةُ إِلَّا بِهِمَا لِأَنَّهُمَا وِرَاثَةٌ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ وَسَائِرِ الْمُسْلِمِينَ قَوْلًا وَعَمَلًا
ان دونوں عبارتوں پہ غور فرمائیں اور وجوب کو ثابت کرنے کے لیے انکا طریقہ کار سمجھیں اور پھر اس طریقے کو درود پہ منطبق کرکے دیکھیں۔ اور یہ ذہن میں رکھیں کہ پہلے اور دوسرے قعدے میں فرق کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
سابعا:
یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ جن اسلاف نے قعدہ اولى میں درود کو واجب کے بجائے مستحب قرار دیا ہے، انہوں نے مسند احمد والی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت اور مسند أبی یعلى والی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ والی روایت کو صحیح سمجھ کر یہ موقف اپنایا ہے۔ جبکہ ان روایتوں کا معلول ہونا ہم اپنے مضمون میں واضح کر چکے ہیں۔ اگر یہ روایات معلول نہ ہوتیں تو ہم بھی استحباب کے قائل ہوتے، کیونکہ خاص کر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ والی روایت واضح قرینہ صارفہ ہے، لیکن چونکہ وہ ثابت نہیں، سو قرینہ نہیں بن سکتی۔
ثامنا:
کسی مسئلے پہ سلف کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ آپ سے پہلے کے تمام لوگ آپ کے لیے سلف ہیں، حتى کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم اس امت کے اولین سلف ہیں۔خود نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو سلف قرار دیتے ہوئے فرمایا:
فَإِنِّي نِعْمَ السَّلَفُ أَنَا لَكِ
میں تیرے لیے بہترین سلف ہوں۔
صحیح البخاری:6285
اور اس مسئلہ میں نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا ’’صلوا عليه وسلموا‘‘ نازل ہونے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے استفسار پہ نماز میں تشہد کے بعد درود ابراہیمی پڑھنے کا حکم دینا، اور خود بھی بلا تفریق ہر تشہد میں درود پڑھنا، اور کبھی تشہد اول میں درود نہ چھوڑنا اس بات کا ثبوت ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم بھی اسے اللہ کے حکم پہ واجب و فرض سمجھا کرتے تھے۔
اور اپنے قریب دور کے اسلاف درکار ہیں تو حافظ صلاح الدین یوسف اورحافظ عبد المنان نورپوری رحمہما اللہ سے گننا شروع ہو جائیں اور اوپر کو جاتے جائیں،آپ کو پیر محب اللہ راشدی، اور ان سے قبل عبد القادر حصاروی رحمہما اللہ اسی سلک میں ملیں گے۔ اور یہ عجمی علماء کا ہی موقف نہیں، عرب میں نظر ڈالیں گے تو محدث البانی رحمہ اللہ سمیت کئی نام آپ کو تشہد اول میں درود کی فرضیت کے قائلین کے ملیں گے۔
تاسعا:
امام ابو محمد، علی ،ابن حزم رحمہ اللہ تشہد میں درود کو مستحب کہتے ہیں، فرضیت کے قائل نہیں۔ وہ کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ والی روایت نقل کرکے اسے ضعیف قرار دینے کے بعد فرماتے ہیں:
وَلَوْ صَحَّ لَكَانَ فِيهِ إيجَابُ الصَّلَاةِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - نَصًّا مَتَى ذُكِرَ فِي صَلَاةٍ أَوْ غَيْرِهَا، وَلَمْ يَكُنْ فِيهِ تَخْصِيصُ مَا بَعْدَ التَّشَهُّدِ فِي الصَّلَاةِ بِذَلِكَ
اور اگر یہ روایت صحیح ہوتی تو اس میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا جب بھی ذکر ہو درود پڑھنے کی فرضیت پہ نص ہے، نماز میں یا علاوہ از نماز، اور اس میں نماز کے اندر تشہد کے بعد کی بھی تخصیص نہیں۔ (یعنی جب بھی ذکر ہو درود پڑھنا واجب ہے۔)
المحلى لابن حزم: 458
اور حدیث کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ میں ہے کہ جبریل امن نے دعاء کی :
بَعُدَ مَنْ ذُكِرْتَ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْكَ
جس کے پاس آپ کا تذکرہ کیا گیا تو اس نے آپ درود نہ پڑھا ، وہ ہلاک ہو جائے۔
تو اس پہ نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے آمین کہی۔
بر الوالدین للبخاری: 25
اور یہ روایت ضعیف نہیں ہے جیسا کہ امام ابن حزم ظاہری رحمہ اللہ نے سمجھا ہے، بلکہ یہ روایت صحیح ہے۔
کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہی روایت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بسند حسن ، الادب المفرد میں ذکر فرمائی ہے۔
الأدب المفرد: 646، نیز دیکھیے : ابن حبان: 907، المعجم الاوسط: 8131، 8994
اسی سند سے اس روایت کو اسماعیل القاضی نے (18) اور بزار نے کشف الاستار میں (3169)، ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں(1888) نقل کیا ہے۔ اور پھر ایک دوسری حسن لذاتہ سند سے ابو یعلى (5922) اور ابن حبان نے(907) بھی روایت کیا ہے۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ اگر اس سند پہ مطلع ہو جاتے تو یقینا دونوں تشہدوں میں درود کی فرضیت کے قائل ہو جاتے ، جیسا کہ انہوں نےخود فرمایا ہے۔
پھر یہ روایت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے جیسا کہ امام بخاری نے الادب المفرد میں (644) ، اسے روایت کیا ہے۔
اسی طرح یہ روایت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ ، جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ ، عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ ، عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ ، مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ ، عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سمیت متعدد صحابہ کرام سے مروی ہے۔
اور اس روایت کو صحیح قرار دینے والوں میں عصام موسى ہادی، علامہ البانی،احمد شاکر، شعیب ارناؤوط ، امام وادعی وغیرہ سمیت ابن القیم،شوکانی،ابن حجر، امام ذہبی،امام ہیثمی، ابن حبان، حافظ عراقی، امام سخاوی، ہیتمی المکی جیسے جہابذہ شامل ہیں۔
پھر اسی معنى کی دوسری سیدنا ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی صحیح روایت جسے میں نے اپنے مضمون میں ذکر کیا ہے بھی موجود ہے جو کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے ذکر پہ ہر مرتبہ درود پڑھنے کے فرض ہونے کو ثابت کرتی ہے۔
اما م ابن حزم رحمہ اللہ کے قول کے مطابق وہ روایت بھی نماز کے ہر تشہد میں درود کی فرضیت ثابت کرنے کو کافی ہے۔ شاید ان سے وہ روایت بھی اوجھل رہ گئی، واللہ اعلم۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ اور ابو اسید رضی اللہ عنہ بھی امام ابن حزم نے تذکرہ کیا ہے کہ وہ درود کی فرضیت کے قائل تھے، لیکن یہ کہہ کر رد کر دیا :
هَذَا لَازِمٌ لِمَنْ رَأَى تَقْلِيدَ الصَّاحِبِ، لَا لَنَا
یہ (ان اصحاب کا عمل) اس شخص پہ (درود کی فرضیت ماننے کو) لازم (کرتا ہے) جو صحابی کی تقلید کا قائل ہو، ہم پہ لازم نہیں کرتا۔
المحلى لابن حزم: 458
جس سے اشارہ ملتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بھی یہ موقف موجود تھا۔
عاشرا:
مذکورہ بالا نکات سمجھنے کے بعد یہ بھی جان لیجیے کہ
1- وحی الہی کےواضح دلائل سامنے آجا نے کے با وجود صرف اس لیے تسلیم نہ کرنا کہ اکابر کی طرف سے اس پہ کوئی موافقت نہیں ہے، یہ عمل تقلید کہلاتا ہے۔ خواہ کسی ایک امام کی ہو یا ہر مسئلے میں من پسند اکابر کی!
2- صحیح حدیث پر عمل کیا جائے گا خواہ اس پرکسی کا بھی عمل منقول نہ ہو۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«أن يقبل الخبر في الوقت الذي يثبت فيه، وإن لم يمضي عمل من الأئمة بمثل الخبر »
”حدیث جوں ثابت ہوجائے فورا اس پرعمل کرنا ضروری ہے گرچہ پہلے کے ائمہ میں سے کسی نے اس کے مطابق عمل نہ کیا ہو“
[الرسالة للشافعي 1/ 423]
امام نووي رحمه الله فرماتے ہیں:
« وإذا ثبتت السنة لا تترك لترك بعض الناس أو أكثرهم أو كلهم لها »
”جب سنت ثابت ہوجائے تو اسے بعض لوگوں یا اکثر یا سب کے چھوڑنے کی وجہ سے نہیں چھوڑا جائے گا“
[شرح النووي على مسلم 8/ 56]
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ولو تركت السنن للعمل لتعطَّلت سنن رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم ودرست رسومها وعَفَت آثارها، وكم من عمل قد اطّرد بخلاف السنة الصريحة على تقادم الزمان وإلى الآن، وكل وقت تُترك سنة ويُعمل بخلافها ويستمر عليها العمل»
”اگر عمل کو دیکھ کر سنتوں کو ترک کیا جانے لگے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کتنی سنتیں معطل ہوجائیں ، ان کے آثار اور ان کے نام ونشان مٹ جائیں ، اور کتنے ہی ایسے عمل ہیں جو سنت کےخلاف رواج پاگئے اور قدیم زمانے سے لیکر اب تک ایسا ہوتا آرہا ہے، ہر وقت کوئی سنت ترک کی جاتی ہے اور اس کے خلاف عمل شروع ہوجاتا ہے اور یہ عمل جاری رہتا ہے“
[إعلام الموقعين عن رب العالمين (4/ 272)]
لہذا جب حدیث صحیح ثابت ہوجائے تو اس پر عمل کیا جائے گا خواہ اس پرکسی کا بھی عمل ثابت نہ ہو، یا کسی صحیح حدیث کے مطابق عاملین یا قائلین کے نام محفوظ نہ ہوں. عمل حدیث دیکھ کر کیا جائے گا نہ کہ اشخاص یا انکا عمل دیکھ کر...، یہی سلف کا منھج ہے!
3- کتاب وسنت کے دلائل سامنے ہونے کے باوجود اگر یہ انتظار رہے کہ اکابرین کی طرف سے موافقت ہوئی تو مانیں گے ، یہ عمل :
- انہیں رب بنانا ہے!۔ کیونکہ حرف آخر وحی الہی کو نہیں اکابر کو سمجھا گیا ہے۔
- کتاب وسنت کو حجت نہ ماننا ہے! ۔ کیونکہ قرآن وحدیث کی دلیل معلوم ہونے پہ سر تسلیم خم نہیں کیا گیا، کسی اور کے کہنے پہ کیا گیا ہے۔
- اخیرا.... :
- آپ کی توجہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم طرف مبذول کرواؤں گا جس میں دونوں قعدوں میں تشہد اور دعاء کا حکم ہے، ملاحظہ فرمائیں:
- إِذَا قَعَدْتُمْ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ فَقُولُوا : التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ، وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ. وَلْيَتَخَيَّرْ أَحَدُكُمْ مِنَ الدُّعَاءِ أَعْجَبَهُ إِلَيْهِ، فَلْيَدْعُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ
- سنن النسائی: 1163
- اس حدیث میں درود کا ذکر اس لیے نہیں کہ اس وقت ابھی درود کا حکم نہیں آیا تھا. جیسا کہ میں نے اپنے مضمون میں اس کی وضاحت کر دی ہے. اور پھر جب دعاء مانگنے کا حکم موجود ہے جو کہ فرضیت پہ دلالت کرتا ہے تو یہ حدیث درمیانی تشہد میں دعا مانگنے کی فرضیت پہ نص ہے، اور درود کی فرضیت پہ بھی دال ہے.
هذا، والله تعالى أعلم،وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم،والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وأصحابه وأتباعه، وبارك وسلم
وکتبہ
ابو عبد الرحمن محمد رفیق طاہر عفا اللہ عنہ
-
الثلاثاء PM 09:10
2022-12-27 - 921