میلنگ لسٹ
موجودہ زائرین
اعداد وشمار
تلاش کریں
مادہ
تین رکعت وتر پڑھنے کا طریقہ
تین رکعت وتر پڑھنے کا طریقہ
رات کی ساری نماز کو تہجد، قیام اللیل، یا صلاۃ وتر کہتے ہیں۔ یہ نماز دو دو رکعت کرکے بھی پڑھی جا سکتی ہے ، چار چار کرکے بھی کہ آخر میں طاق رکعت شامل کر کے وتر بنا لی جائے، پا پھر تین ، پانچ، سات، نو رکعت ایک سلام سے بھی ادا کی جاسکتی ہے، اس سے زائد رکعتیں ایک سلام سے پڑھنا ثابت نہیں ہے۔ اگر صرف قنوت وتر والی رکعت کا اعتبار کرکے لفظ وتر بولا جائے تو ایک سلام سے جتنی رکعتیں قنوت وتر والی رکعت سمیت پڑھی جائیں انہیں وتر اور باقی کو نفل کہتے ہیں، خواہ وہ ایک ہی رکعت ہو۔ فی الحال ہم صرف تین رکعت وتر کے طریقہ پر بات کریں گے۔
تین وتر اکٹھے بھی پڑھے جاسکتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
«الْوِتْرُ حَقٌّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ، فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُوتِرَ بِخَمْسٍ فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُوتِرَ بِثَلَاثٍ فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُوتِرَ بِوَاحِدَةٍ فَلْيَفْعَلْ»
وتر ہر مسلمان پہ حق ہے۔ سو جو پانچ وتر پڑھنا چاہے تو وہ پڑھ لے، اور جو تین وتر پڑھنا چاہے تو وہ پڑھ لے، اور جو ایک وتر پڑھنا چاہے تو وہ بھی پڑھ لے۔
سنن أبي داود: 1422
رسول اللہ ﷺ بھی تین وتر پڑھا کرتے تھے:
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ رَقَدَ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَيْقَظَ فَتَسَوَّكَ وَتَوَضَّأَ وَهُوَ يَقُولُ: {إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ} [آل عمران: 190] فَقَرَأَ هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ حَتَّى خَتَمَ السُّورَةَ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَأَطَالَ فِيهِمَا الْقِيَامَ وَالرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَنَامَ حَتَّى نَفَخَ، ثُمَّ فَعَلَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ سِتَّ رَكَعَاتٍ، كُلَّ ذَلِكَ يَسْتَاكُ وَيَتَوَضَّأُ وَيَقْرَأُ هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ، ثُمَّ أَوْتَرَ بِثَلَاثٍ
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سوئے، تو نبی مکرم ﷺ بیدار ہوئے آپ ﷺ نے مسواک فرمائی اور وضوء کیا اور آپ ﷺ یہ آیت پڑھ رہے تھے {إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ} [آل عمران: 190] آپ ﷺ نے یہ آیات پڑھیں حتى کہ سورۃ مکمل کی پھر کھڑے ہوئے اور دو رکعتیں ادا کیں ان میں قیام ، رکوع اور سجدہ لمبا لمبا کیا۔ پھر سلام پھیرا اور سو گئے حتى کہ خراٹے لینے لگے پھر آپ ﷺ نے تین مرتبہ اسی طرح کیا اور کل چھ رکعات پڑھیں ۔ ہر مرتبہ مسواک کرتے اور ضوء فرماتے تھے اور یہ آیات پڑھتے تھے۔ پھر آپ ﷺ نے تین وتر پڑھے۔
صحيح مسلم : 763
ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا:
كَيْفَ كَانَتْ صَلاَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: «مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلاَثًا»
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی رمضان المبارک میں نماز کیسے تھی؟ تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ چار رکعتیں پڑھتے ، ان کا حسن اور انکی طوالت نہ پوچھیے، پھر چار رکعت پڑھتے ، انکا حسن اور انکی طوالت نہ پوچھیے، پھر تین رکعت پڑھتے۔
صحیح البخاری: 1147
جب مطلق طور پر رکعتوں کی تعداد ذکر کی جاتی ہے تو اس سے مراد ہوتا ہے کہ ایک ہی سلام سے یہ رکعات پڑھی گئی ہیں۔ ان روایات میں تین اور چار رکعات کا ذکر دلالت کرتا ہے کہ یہ چار رکعات ایک سلام سے اور تین رکعات ایک سلام سے ادا کی گئیں۔اسکی صراحت نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بھی ملتی ہے:
سیدنا اُبیّ بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْوِتْرِ بِـ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى، وَفِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ بِـ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ، وَفِي الثَّالِثَةِ بِـ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، وَلَا يُسَلِّمُ إِلَّا فِي آخِرِهِنَّ، وَيَقُولُ ـ يَعْنِي بَعْدَ التَّسْلِيمِ ـ: «سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ»، ثَلَاثًا
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم وتر میں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى، اور دوسری رکعت میں قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ، اور تیسر رکعت میں قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ کی تلاوت فرماتے اور صرف آخر میں ہی سلام پھیرتے، اور سلام کے بعد تین مرتبہ سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ کہتے۔
سنن النسائی: 1701
نوٹ: یہ روایت صحیح ہے، بعض الناس کا اسےقتادۃ کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف قرار دینا درست نہیں!
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل سے بھی تین رکعت وتر کا یہی مفہوم واضح ہوتا ہے۔
سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
دَفَنَّا أَبَا بَكْرٍ لَيْلًا، فَقَالَ عُمَرُ: «إِنِّي لَمْ أُوتِرْ، فَقَامَ وَصَفَفْنَا وَرَاءَهُ، فَصَلَّى بِنَا ثَلَاثَ رَكَعَاتٍ، لَمْ يُسَلِّمْ إِلَّا فِي آخِرِهِنَّ»
ہم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو رات کے وقت دفن کیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ میں نے وتر نہیں ادا کیے، تو وہ کھڑے ہوئے اور ہم نے انکے پیچھے صفیں بنائیں، توانہو ں نے ہمیں تین رکعتیں پڑھائیں ، انکے صرف آخر میں ہی سلام پھیرا۔
شرح معانی الآثار: 1742
ثابت بُنانی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں:
«أَنَّهُ أَوْتَرَ بِثَلَاثٍ لَمْ يُسَلِّمْ إِلَّا فِي آخِرِهِنَّ»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے تین وتر پڑھے اور انکے صرف آخر میں سلام پھیرا۔
مصنف ابن ابی شیبة: 6740
تین اور پانچ رکعت وتر پڑھیں تو تشہد صرف آخری رکعت میں ہی بیٹھا جائے گا۔ درمیان میں نہیں۔
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُوتِرُ مِنْ ذَلِكَ بِخَمْسٍ، لَا يَجْلِسُ فِي شَيْءٍ إِلَّا فِي آخِرِهَا».
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے اور ان میں سے پانچ وتر پڑھتے تھے اس دوران وہ کسی رکعت میں (تشہد)نہیں بیٹھتے تھے سوائے آخری رکعت کے۔
صحيح مسلم: 737 ، سنن أبي داود: 1338
اس روایت سے تین رکعت وتر میں درمیانی تشہد نہ بیٹھنے پر استدلال بالاَوْلَوِیہ ہے ۔ کہ جب پانچ رکعت وتر میں درمیانی تشہد نہیں تو تین رکعت وتر میں بطریق اولى صرف ایک ہی تشہد ہوگا۔ یاد رہے کہ کچھ روایات میں اس بات کی صراحت بھی ہے کہ تین رکعت وتر میں صرف ایک ہی تشہد ہے لیکن انکی سندوں میں کچھ کلام ہے۔
-
الثلاثاء AM 12:02
2023-01-10 - 4481