میلنگ لسٹ

بريديك

موجودہ زائرین

باقاعدہ وزٹرز : 169008
موجود زائرین : 48

اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
278
فتاوى
56
مقالات
188
خطبات

تلاش کریں

البحث

مادہ

حالت حیض میں طلاق

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میں بیرون ملک مقیم ہوں ، میری شادی23 دسمبر کو ہوئی شوہر ابھی پاکستان میں ہیں جبکہ میں 20 جنوری کو بیرون ملک واپس چلی گئی تھی۔ خاندان والوں کی وجہ سے ہم میاں بیوی کے درمیان کافی جھگڑا ہوا تو یکم فروری کو فون پر شوہر نے غصے سے کہا کہ میں تمہیں طلاق دے دوں گا تو میں نے بھی غصے میں کہا کہ پھر آپ دے دیں اور ساتھ میں نے فون بند کر دیا کہ میں کچھ سنوں ہی نہ اب شوہر کا کہنا ہے کہ میں نے تمہیں طلاق دے دی تھی ۔ اگلے ہی دن یعنی 2 فروری کو پھر فون پر بات ہوئی اور اسی طرح جھگڑا بڑھ گیا تو شوہر نے کہا کہ میں تمہیں نہیں رکھنا چاہتا لہذا میں نے تمہیں طلاق دی، اس وقت میں ایام مخصوصہ میں تھی۔ پھر میں پاکستان گئی اور ہماری صلح ہوئی رجوع ہوگیااور ہم نے حقوق ادا کیے۔ اس کے بعد میں 20مارچ کو واپس آگئی، پھر پہلے کی طرح لڑائی جھگڑا شروع ہو گیا اور 26 مارچ کو انہوں نے مجھے پھر طلاق دے دی اب میں طہر کی حالت میں تھی۔ اس پر قرآن اور سنت کی روشنی میں رہنمائی فرما دیجئےکہ کتنی طلاقیں ہوئی ہیں۔

الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب

صورت مسئولہ میں صرف ایک رجعی واقع ہوئی ہے، جس کے بعد رجوع کیا جا چکا ہے۔

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُمْسِكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضَ ثُمَّ تَطْهُرَ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ بَعْدُ، وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ، فَتِلْكَ العِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ»

انہوں نے  دونبوی میں اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی ، توسیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں دریافت کیا۔ تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے حکم دے کہ وہ اس سے رجوع کرے، پھر اسے روکے رکھے حتى کہ وہ (حیض سے) پاک ہو جائے، پھر اسے حیض آئے، پھر پاک ہو، پھر اگر وہ چاہے تو اس کے بعد روکے رکھے اور اگر چاہے تو اسے مباشرت سے قبل طلاق دے دے۔ یہ وہ مقررہ وقت ہے کہ اللہ نے جس وقت میں عورتوں کو طلاق دینے کی اجازت دی ہے۔

صحیح البخاری: 5251

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ:

  • حالت حیض میں طلاق دینا منع ہے! البتہ اگر کوئی اس حالت میں طلاق دے دے تو واقع ہو جاتی ہے کیونکہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اس طلاق کو شمار فرمایا تھا۔ ( سنن الدارقطنی 3912)
  • عورتوں کو طلاق دینے کے لیے اللہ تعالى نے ایک وقت مقرر کیا ہے، سو اسی وقت میں طلاق دی جائے(سورۃ الطلاق: 1)۔ اس وقت کے علاوہ دی گئی طلاق واقع نہیں ہوگی ما سوا طلاق حیض کہ اس کے استثناء کی دلیل موجود ہے (کما تقدم) اور ایک مجلس میں ایک سے زائد طلاق  کہ ان میں سے ایک کے واقع ہونے پہ بھی دلیل موجود ہے۔ ( صحيح مسلم: 1472)
  • ایک طلاق دینے کے بعد دوسری طلاق دینے کے لیے رجوع ضروری ہے، کیونکہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کو بھی سنت کے مطابق طلاق دینے کے لیے رجوع کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
  • ایک طلاق سے رجوع کرنے کے بعد بھی دوسری طلاق تب دے سکتے ہیں جب رجوع کے بعد عورت کو ایک حیض آئے اور پھر اسکے بعد طہر آئے تو اس اگلےطہر میں طلاق دی جا سکتی ہے۔
  • طلاق دینے کےلیے ضروری ہے کہ جس طہر میں طلاق دی جا رہی ہے اس طہر میں مباشرت نہ کی گئی ہو، کیونکہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو یہی طریقہ بتا کر نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے اسے اللہ کا مقرر کردہ طریقہ قرار دیا ہے۔

تنبیہ:

 جس  طہر میں جماع کیا گیا ہو، اگر اس میں حمل ٹھہر جائے تو حالت حمل میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ 

( سورۃ الطلاق: 4)

تنبیہ ثانی:

الگ الگ مجالس میں دی گئی طلاقوں کو الگ الگ شمار کرنے کے لیے عموما حدیث رکانہ رضی اللہ عنہ پیش کی جاتی ہے۔ لیکن وہ داود بن الحصین عن عکرمہ کی وجہ سے مضطرب ضعیف ہے۔

تنبیہ ثالث:

وقوع طلاق کے لیے زوجہ کا اس طلاق پہ مطلع ہونا، یا طلاق کے الفاظ سننا ضروری نہیں۔ مرد اگر لکھ کر یا بول کر طلاق دے دے اور شریعت کے مقرر کردہ طریقے کے مطابق دی گئی ہو تو طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

تنبیہ رابع:

طلاق پہ دو گواہ ہونا ضروری ہیں، اللہ تعالى کا فرمان ہے:

فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ ذَلِكُمْ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ

ان (بیویوں) کو یا تو اچھے طریقے سے روک رکھو یا اچھے طریقے سے چھوڑ دو، اور اپنے میں سے دو عادل (مرد) گواہ بنا لو، اور اللہ کی خاطر گواہی قائم کرو۔ اس حکم کے ساتھ اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ اور یوم آخرت پہ ایمان رکھتا ہے۔

سورۃ الطلاق:2

یاد رہے کہ یہ گواہی یا تو طلاق کے موقع پہ موجود دو صاحب عدل مردوں کی طرف سے ہوگی، یا پھر طلاق دینے والا طلاق کا اقرار لوگوں کے سامنے کرے تو اس کے اقرار پہ گواہ بھی طلاق کے گواہ بن جائیں گے۔ اور اگر طلاق پہ کوئی گواہ نہ ہو تو شرعی طور پہ طلاق واقع نہیں ہوگی۔

لہذا صورت مسئولہ میں  صرف ایک طلاق واقع ہوئی ہے، پہلی طلاق جو یکم فروری کو دی گئی وہ شرعی طور پہ واقع ہوئی ہے ۔جبکہ 2 فروری والی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ وہ طلاق بلا رجوع ہے۔ اور اور دوسری جو 26 جون کو دی گئی وہ بھی واقع نہیں ہوئی کیونکہ وہ طلاق جس طہر میں دی گئی ہے اس طہر میں مباشرت کی گئی تھی، اور اس حالت میں بھی طلاق واقع نہیں ہوتی۔لہذا آپ کا نکاح قائم و درست ہے۔ کیونکہ جو طلاق واقع ہوئی تھی اس سے رجوع ہو چکا اور بعد والی طلاق شرعی طور پہ طلاق ہی نہیں ہے!

هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم

  • الخميس AM 10:46
    2023-06-22
  • 1394

تعلیقات

    = 2 + 4

    /500
    Powered by: GateGold