میلنگ لسٹ
موجودہ زائرین
اعداد وشمار
تلاش کریں
مادہ
طلاق کی عدت
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ 4 جون کو مجھےمیرے خاوند نے میرے میکے چھوڑ دیا اور پھر اس نے 13 جون کو طلاق نامہ تحریر کیا جو کہ مجھے 16 جون کو موصول ہوا، جب مجھے یہ طلاق نامہ موصول ہوا اسی دن میرے پریڈز شروع ہوچکے تھے، اور اسی دن ہی صوتی پیغام کے ذریعے بھی اس نے مجھے طلاق بھیج دی۔ میرا سوال یہ ہے کہ میری عدت کا آغاز کب سے ہوگا؟ اور اس یہ کتنی طلاقیں شمار ہونگی؟
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
صورت مسئولہ میں صرف ایک طلاق رجعی واقع ہوئی ہے جس کے بعد خاوند کو دوران عدت رجوع کا حق حاصل ہے، اور اس طلاق کی عدت تین حیض ہے۔ 13 جون کو بحالت طہر طلاق دی گئی، اس کے بعد 16 جون کو پہلا حیض آیا، اور پھر 16 جولائی کو دوسری مرتبہ، اب 16ا گست کو جو حیض شروع ہوگا اس کے اختتام تک عدت باقی رہے گی اور اس کے اختتام کے ساتھ ہی عدت ختم ہو جائے گی۔ کیونکہ
- عدت کا تعلق تاریخ کے ساتھ نہیں بلکہ ماہواری کے ساتھ ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالى کا ارشاد گرامی ہے:
وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ
اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں۔
سورۃ البقرۃ: 228
البتہ جن عورتوں کو حیض آنا شروع نہ ہوا ہو، یا بانجھ پن کی وجہ سے انکی ماہواری ختم ہو گئی ہو تو انکی عدت تین ما ہ ہے، جبکہ حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔
ارشاد ربانی ہے:
وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ
اور تمہاری عورتوں میں سے وہ عورتیں جو حیض سے مایوس ہو چکی ہیں ، اگر تمھیں شک ہو، تو ان کی عدت تین ما ہ ہے، اور انکی بھی جنھیں ابھی حیض نہیں آیا، اور حمل والیوں کی عدت وضع حمل ہے۔
سورۃ الطلاق: 4
تنبیہ بلیغ:
جن خواتین کی عدت تین ماہ ہے، انکے یہ تین ماہ قمری تاریخ کے حساب سے شمار کیے جائیں گے، انگریزی کلینڈر کے مطابق نہیں!
کیونکہ ارشاد باری تعالى ہے:
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ
وہ آپ سے ہلال (نئے چاند) کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دیجئے یہ لوگوں کے لیے وقت مقرر کرنے کا ذریعہ ہے اور حج کے لیے بھی۔
سورۃ البقرۃ: 189
لہذا مسائل شرعیہ میں ماہ وسال کا حساب چاند کی تاریخوں کے مطابق ہوگا خواہ وہ طلاق کی عدت ہو، یاکفارے میں دو ماہ کے مسلسل روزے ہوں، یا مدت رضاعت ہو، یا دیگر معاملات ، سب کا حساب قمری تقویم کے مطابق کیا جائے گا تو درست ہوگا، وگرنہ نہیں!
- جب ایک مرتبہ طلاق دے دی جائے تو اسکے بعد جب تک رجوع نہ کیا جائے دوسری طلاق واقع نہیں ہوتی ۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُمْسِكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضَ ثُمَّ تَطْهُرَ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ بَعْدُ، وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ، فَتِلْكَ العِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ»
انہوں نے دورنبوی میں اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی ، توسیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں دریافت کیا۔ تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے حکم دے کہ وہ اس سے رجوع کرے، پھر اسے روکے رکھے حتى کہ وہ (حیض سے) پاک ہو جائے، پھر اسے حیض آئے، پھر پاک ہو، پھر اگر وہ چاہے تو اس کے بعد روکے رکھے اور اگر چاہے تو اسے مباشرت سے قبل طلاق دے دے۔ یہ وہ مقررہ وقت ہے کہ اللہ نے جس وقت میں عورتوں کو طلاق دینے کی اجازت دی ہے۔
صحیح البخاری: 5251
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ:
- حالت حیض میں طلاق دینا منع ہے! البتہ اگر کوئی اس حالت میں طلاق دے دے تو واقع ہو جاتی ہے کیونکہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اس طلاق کو شمار فرمایا تھا۔
- ( سنن الدارقطنی 3912)
- عورتوں کو طلاق دینے کے لیے اللہ تعالى نے ایک وقت مقرر کیا ہے، سو اسی وقت میں طلاق دی جائے۔
(سورۃ الطلاق: 1)
- اس وقت کے علاوہ دی گئی طلاق واقع نہیں ہوگی ما سوا طلاق حیض کہ اس کے استثناء کی دلیل موجود ہے (کما تقدم) اور ایک مجلس میں ایک سے زائد طلاق، کہ ان میں سے ایک کے واقع ہونے پہ بھی دلیل موجود ہے۔
( صحيح مسلم: 1472)
- ایک طلاق دینے کے بعد دوسری طلاق دینے کے لیے رجوع ضروری ہے، کیونکہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کو بھی سنت کے مطابق طلاق دینے کے لیے رجوع کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
- ایک طلاق سے رجوع کرنے کے بعد بھی دوسری طلاق تب دے سکتے ہیں جب رجوع کے بعد عورت کو ایک حیض آئے اور پھر اسکے بعد طہر آئے تو اس اگلےطہر میں طلاق دی جا سکتی ہے۔
- طلاق دینے کےلیے ضروری ہے کہ جس طہر میں طلاق دی جا رہی ہے اس طہر میں مباشرت نہ کی گئی ہو، کیونکہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو یہی طریقہ بتا کر نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے اسے اللہ کا مقرر کردہ طریقہ قرار دیا ہے۔
تنبیہ:
جس طہر میں جماع کیا گیا ہو، اگر اس میں حمل ٹھہر جائے تو حالت حمل میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
( سورۃ الطلاق: 4)
تنبیہ ثانی:
الگ الگ مجالس میں دی گئی طلاقوں کو الگ الگ شمار کرنے کے لیے عموما حدیث رکانہ رضی اللہ عنہ پیش کی جاتی ہے۔ لیکن وہ داود بن الحصین عن عکرمہ کی وجہ سے مضطرب ضعیف ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں بہر دو صورت ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہے، جس کی عدت تین حیض ہے، طلاق کے بعد جب تیسرا حیض ختم ہو جائے گا تو عدت بھی ختم ہو جائے گی۔
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-
الجمعة PM 02:28
2023-07-21 - 1280