میلنگ لسٹ
موجودہ زائرین
اعداد وشمار
تلاش کریں
مادہ
بدعی طلاق
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ مسمى اللہ رکھا ولد حاجی بشیر نے آج سے تقریبا 5 سال قبل اپنی اہلیہ کو حالت حمل میں طلاق دی، اور اس کے بعد اسی دن رجوع کر لیا۔پھر اس سے چار سال بعدجھگڑا ہوا اور وہ اپنی اہلیہ کو میکے چھوڑ آیا اور طلاق دے دی، جس دن جھگڑا ہوا اس سے گزشتہ رات مباشرت کی تھی۔ پھر اب حالت حیض میں اس نے تیسری مرتبہ اپنی اہلیہ کو طلاق دی جبکہ وہ میکے تھی۔ وہ میکے سے واپس آئی اور صلح جوئی کی کوشش کی تو اس دوران اس نے پھر چوتھی مرتبہ طلاق دے دی۔
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
صورت مسئولہ میں دو رجعی طلاقیں واقع ہوئی ہیں، ایک پہلی طلاق جو اس نے حالت حمل میں دی اور دوسری وہ طلاق جو اس نے حالت حیض میں دی۔ اور جو طلاق اس نے طہر کی حالت میں جماع کے بعد دی وہ واقع نہیں ہوئی اور نہ ہی وہ طلاق جو اس نے سب سے آخر میں دی ہے کیونکہ اس نے سابقہ طلاق سے رجوع نہیں کیا تھا۔ لہذا اللہ رکھا اپنی اہلیہ سے دوران عدت رجوع کرنے کا حق رکھتا ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُمْسِكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضَ ثُمَّ تَطْهُرَ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ بَعْدُ، وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ، فَتِلْكَ العِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ»
’’انہوں نے دورنبوی میں اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی ، توسیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے بارے میں دریافت کیا۔ تو آپ ﷺنے فرمایا: اسے حکم دے کہ وہ اس سے رجوع کرے، پھر اسے روکے رکھے حتى کہ وہ (حیض سے) پاک ہو جائے، پھر اسے حیض آئے، پھر پاک ہو، پھر اگر وہ چاہے تو اس کے بعد روکے رکھے اور اگر چاہے تو اسے مباشرت سے قبل طلاق دے دے۔ یہ وہ مقررہ وقت ہے کہ اللہ نے جس وقت میں عورتوں کو طلاق دینے کی اجازت دی ہے۔‘‘
[صحیح البخاری: 5251]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ:
حالت حیض میں طلاق دینا منع ہے! البتہ اگر کوئی اس حالت میں طلاق دے دے تو واقع ہو جاتی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس طلاق کو شمار فرمایا تھا۔
[سنن الدارقطنی :3912]
عورتوں کو طلاق دینے کے لیے اللہ تعالىٰ نے ایک وقت مقرر کیا ہے، سو اسی وقت میں طلاق دی جائے۔
[سورة الطلاق: 1]
اس وقت کے علاوہ دی گئی طلاق واقع نہیں ہوگی ما سوا طلاق حیض کہ اس کے استثناء کی دلیل موجود ہے (کما تقدم) اور بلا رجوع ایک سے زائد طلاق، کہ ان میں سے ایک کے واقع ہونے پہ بھی دلیل موجود ہے۔
[صحيح مسلم: 1472]
امام طاوس رحمہ اللہ خلاف سنت دی گئی طلاق کو طلاق شمار نہیں فرماتے تھے!
[مصنف عبد الرزاق: 1092]
اسی طرح خلاس بن عمرو رحمہ اللہ بھی طلاق بدعی کو طلاق نہیں مانتے تھے۔
[ محلى ابن حزم : 9/377]
اسی طرح امام ابوبکر جصاص بھی طلاق بدعی کے وقوع کے قائل نہ تھے۔
[ أحکام القرآن للجصاص: 2/75،76]
اور امام ابن حزم ظاہری بھی طلاق محرم کو طلاق شمار نہیں کرتے تھے۔
[المحلى بالآثار: 1959]
اسی طرح امام ابن تیمیہ، امام ابن القیم رحمہما اللہ اور انکے بعدبہت سے اہل علم طلاق بدعی / محرم کے عدم وقوع کے قائل ہیں۔
اور سعودی عرب کی دائمی فتوى کمیٹی کا بھی یہی فتوى ہے۔
[فتاوى اللجنة الدائمة 20/58]
شیخ صالح المنجد کا بھی یہی فتوى ہے۔
[اسلام سوال و جواب (121358)، (209403)، (175516)]
ایک طلاق دینے کے بعد دوسری طلاق دینے کے لیے رجوع ضروری ہے، کیونکہ سیدنا ابن عمر tکو بھی سنت کے مطابق طلاق دینے کے لیے رجوع کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
ایک طلاق سے رجوع کرنے کے بعد بھی دوسری طلاق تب دے سکتے ہیں جب رجوع کے بعد عورت کو ایک حیض آئے اور پھر اسکے بعد طہر آئے تو اس اگلےطہر میں طلاق دی جا سکتی ہے۔
طلاق دینے کےلیے ضروری ہے کہ جس طہر میں طلاق دی جا رہی ہے اس طہر میں مباشرت نہ کی گئی ہو، کیونکہ سیدنا عبد اللہ بن عمر tکو یہی طریقہ بتا کر نبی مکرم ﷺنے اسے اللہ کا مقرر کردہ طریقہ قرار دیا ہے۔ البتہ جس طہر میں جماع کیا گیا ہو، اگر اس میں حمل ٹھہر جائے تو حالت حمل میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
[سورة الطلاق: 4]
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-
الجمعة PM 02:51
2023-09-15 - 1547