میلنگ لسٹ
موجودہ زائرین
اعداد وشمار
تلاش کریں
مادہ
مفاہیم عشق
مفاہیمِ ’’عشق‘‘
ابھی گزشتہ روز ہم نے منہج سلف کے پشتیباں اور تراث خلف کے پاسباں اپنے محبوب و یارِ دوستاں مولانا شاہد رفیق صاحب جو کہ شاہد عدل بھی ہیں اور ہیں ہمارے رفیق کارواں، انھیں ’’معشوقِ کل‘‘ لکھا تو کئی عقلیں مقام تحیر پہ مست ہوئیں اور کئی نظریں انگشت بدنداں ہوئیں کہ لفظ ’’عشق‘‘ کا استعمال انھیں اچنبھا لگا، کہ عشق تو ’’شہوانی محبت‘‘ کے معنى میں مستعمل ہے۔ خیر انھیں تو واضح کیا کہ بزبان اردو ’عشق‘ پاکیزہ محبت کا معنى بھی دیتا ہے اور جنون و جیالہ پن کا بھی، کبھی والہانہ عقیدت پہ بھی وارد ہوتا ہے اور کبھی جوش وجذبے کا اظہار بھی کرتا ہے۔ سو ہماری اردو میں یہ لفظ صرف عربی زبان والا خاص معنى ’’الحب مع الشہوۃ‘‘ ہی نہیں رکھتا بلکہ یہ وسیع تر مفاہیم کا حامل ہے، جسے سیاق کلام، متکلم، اور متکلم فیہ دیکھ کر متعین کیا جاتا ہے۔ سو ’’معشوق کل‘‘ سے ہماری مراد ’’ہر دل عزیز‘‘ شخصیت ہے۔
ویسے اگر اردو زبان کی بات کریں تو اہل زباں اس لفظ کو کیسے کیسے مفاہیم پہناتے ہیں ملاحظہ فرمائیں کہ اقبال اپنے بیٹے کو نصیحت فرما رہے ہیں:
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
اور فیض کو دیکھیے کہ نعرہ حق لگانے کو وہ عشق کہتے ہیں:
نہ رہا جنون رخ وفا یہ رسن یہ دار کرو گے کیا
جنہیں جرم عشق پہ ناز تھا وہ گناہ گار چلے گئے
اور اقبال تو عشق کے ساتھ حسن کو بھی استعارے کی بھینٹ چڑھاتے ہیں:
عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر
گوکہ فراز عشق کو بظاہر محبت کے معنى میں استعمال کر رہے ہیں لیکن ہے یہ بھی استعارہ ہی:
عشق آغاز میں ہلکی سی خلش رکھتا ہے
بعد میں سیکڑوں آزار سے لگ جاتے ہیں
اور اختر شیرانی نے بھی یہی انداز اپناتے ہوئے کہا:
اے عشق نہ چھیڑ آ آ کے ہمیں ہم بھولے ہوؤں کو یاد نہ کر
پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم تو اور ہمیں ناشاد نہ کر
جگر مراد آبادی کی سنیے وہ تو کمال کرتے ہیں:
عشق جب تک نہ کر چکے رسوا
آدمی کام کا نہیں ہوتا
اسرار الحق مجاز سے ملیے وہ والہانہ عقیدت کا معنى عشق کو پہناتے ہوئے کہتے ہیں:
یہ میرے عشق کی مجبوریاں معاذ اللہ
تمہارا راز تمہیں سے چھپا رہا ہوں میں
اور جگر کے استعارے بھی کوئی باذوق سمجھے کہ:
اب عشق اس مقام پہ ہے جستجو نورد
سایہ نہیں جہاں کوئی نقش قدم نہیں
استعاروں کی اردو شاعری میں اقبال کا اپنا ہی مقام ہے کہ وہ کبھی عقل کو عشق کہتے ہیں:
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
تو کبھی ما ورائے خرد اعتقادات کو:
عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے
عشق پہ اعمال کی بنیاد رکھ
اور
بے خطر آتش نمرود میں کود پڑا عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
اسرار الحق مجاز نے تو آدمی کو ہی عشق کا نام دے دیا:
عشق کا ذوق نظارہ مفت میں بدنام ہے
حسن خود بے تاب ہے جلوہ دکھانے کے لیے
ہاں عشق معشوقی کے لیے بھی اردو میں لفظ عشق بکثرت مستعمل ہے جیسا کہ شیخ ابراہیم ذوق کہتے ہیں:
مرض عشق جسے ہو اسے کیا یاد رہے
نہ دوا یاد رہے اور نہ دعا یاد رہے
اور شکیل اعظمی کہتے ہیں:
کنیز ہو کوئی یا کوئی شاہزادی ہو
جو عشق کرتا ہے کب خاندان دیکھتا ہے
اور میر تقی جلے بھنے انداز میں کہتے ہیں:
کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق
جان کا روگ ہے بلا ہے عشق
اور کہتے ہیں:
کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق
جان کا روگ ہے بلا ہے عشق
اقبال بھی کبھی اسی ناؤ پہ سوار ہوتے ہیں:
لطف کلام کیا جو نہ ہو دل میں درد عشق
بسمل نہیں ہے تو تو تڑپنا بھی چھوڑ دے
اور کبھی چونچال پہ اترتے ہیں تو کہتے ہیں:
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں
اور فیض کی عاشقی کے کیا کہنے:
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں
اور کہتے ہیں:
میدان وفا دربار نہیں یاں نام و نسب کی پوچھ کہاں
عاشق تو کسی کا نام نہیں کچھ عشق کسی کی ذات نہیں
اور مزا غالب کا بے رخ معاشقہ تو ضرب المثل ہے:
عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالبؔ
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے
اور:
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی درد بے دوا پایا
کبھی وہ بھی استعارے پہ اترتے ہیں تو کہتے ہیں:
پھر پرسش جراحت دل کو چلا ہے عشق
سامان صدہزار نمکداں کیے ہوئے
خیر سے غالب اسی مرض میں نکمے بھی ہوئے:
عشق نے غالبؔ نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
میر طاہر علی رضوی کا یہ شعر تو ضرب المثل بن چکا ہے:
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملے جس کو سبق یاد رہے
اقبال تو جرأت بسالت کو بھی عشق سے تعبیر کرتے ہیں:
عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا
آسماں چیر گیا نالۂ بیباک مرا
اور شاید اسی معنى میں فراق گورکھپوری نے بھی استعمال کیا ہے:
کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں
عشق توفیق ہے گناہ نہیں
عشق میں در اصل کسی حد تک جنون و بے خودی کا معنى پایا جاتا ہے کبھی کم کبھی زیادہ جیسا کہ اکبر الہ آبادی نے کہا:
عشق نازک مزاج ہے بے حد
عقل کا بوجھ اٹھا نہیں سکتا
اور اکبر کا عشق ایسا بد مست ہوتا ہے کہ کہہ اٹھتے ہیں:
عشق کے اظہار میں ہر چند رسوائی تو ہے
پر کروں کیا اب طبیعت آپ پر آئی تو ہے
اسی لیے راحت اندروی عشق میں محتاط رہنے کا بھاشن دیتے ہیں:
مرے بیٹے کسی سے عشق کر
مگر حد سے گزر جانے کا نئیں
کیونکہ حفیظ جالندھری نے سمجھایا تھا کہ:
کیوں ہجر کے شکوے کرتا ہے کیوں درد کے رونے روتا ہے
اب عشق کیا تو صبر بھی کر اس میں تو یہی کچھ ہوتا ہے
اسی لیے اکبر الہ آبادی اس مرض بچنے کی دعا کرتے ہیں:
اللہ بچائے مرض عشق سے دل کو
سنتے ہیں کہ یہ عارضہ اچھا نہیں ہوتا
لیکن داغ کو رہ عشق میں عترت سادات کا بھی پاس نہیں:
افشائے راز عشق میں گو ذلتیں ہوئیں
لیکن اسے جتا تو دیا جان تو گیا
اسی لیے اقبال ان عاشقوں کو الگ مخلوق کہتے ہیں:
انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کون سی بستی کے یارب رہنے والے ہیں
ایسے ہی عشق سے تنگ آکر چراغ حسن حسرت کہہ اٹھے:
اک عشق کا غم آفت اور اس پہ یہ دل آفت
یا غم نہ دیا ہوتا یا دل نہ دیا ہوتا
حالی بھی بڑے نبض شناس عشق تھے فرماتے ہیں:
اک عمر چاہیئے کہ گوارا ہو نیش عشق
رکھی ہے آج لذت زخم جگر کہاں
سعید راہی تو عشق کو دیوانہ پن کہتے ہیں:
میرے جیسے بن جاؤ گے جب عشق تمہیں ہو جائے گا
دیواروں سے سر ٹکراؤگے جب عشق تمہیں ہو جائے گا
اسی لیے داغ بھی دعا کرتے ہیں:
خدا کرے نہ پھنسے دام عشق میں کوئی
اٹھائی ہے جو مصیبت کسی کو کیا معلوم
مرزا غالب نے ایسے عشق کی حقیقت سے کیا خوب پردہ اٹھایا اور کہا:
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
میرا خیال ہے ’’عشق‘‘ کی اتنی توصیف ہی کافی ہے کہ آج
مجھ سے لگے ہیں عشق کی عظمت کو چار چاند
خود حسن کو گواہ کئے جا رہا ہوں میں
تنبیہ بلیغ:
یہاں یہ بات ضرور سمجھ لینی چاہیے کہ لفظ ’’عشق‘‘ کا استعمال بعض ہستیوں کے ساتھ نامناسب سا لگتا ہےآپ ہلکے الفاظ میں اسے خلاف اولى کہہ لیجیے ، جیسا کہ ماں ، بہن، بیٹی کے ساتھ اظہار محبت کے لیے ’’عشق‘‘ کا استعمال معیوب ہے جبکہ بیوی کے لیے مرغوب وممدوح۔ ایسے ہی نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم سے اظہار محبت کے لیے بھی ’’عشق‘‘ کو گھسیٹنے سے اجتناب کرنا چاہیے، ہاں جو لوگ ’’عاشق رسول‘‘ کی ترکیب استعمال کرتے ہیں انھیں اردو زبان کی وسعتوں کے پیش نظر کچھ رعایت دینی چاہیے کہ اس میں کچھ گنجائش ہے ، تبھی تو شہسوار خطابت علامہ احسان الہی رحمہ اللہ جیسی نابغہ روزگار شخصیات بھی امام الانبیاء صلى اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ’’عشق‘‘ برملا بولتے تھے۔ اہل ذوق کو یاد ہوگا ان کا پڑھا یہ شعر :
خُونے نہ کَردہ ایم و کَسے را نہ کُشتَہ ایم
جُرمَم ہَمِیں کہ عاشقِ رُوئے تو گَشتہ ایم
اس لیے ہتھ ہولا رکھا کریں۔ اس حوالے سے میں محمد طیب شفیق صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے بقیۃ السلف مولانا حافظ مسعود عالم صاحب حفظہ اللہ کی گفتگو کا ایک اقتباس پیش کرکے تائید کی کہ وہ بھی اردو اور فارسی کے ’’عشق‘‘ کو عربی والے ’’عشق‘‘ سے الگ قرار دیتے اور ’’عشق نبی‘‘ جیسی تراکیب کو گنجائش دیتے ہیں۔
-
السبت PM 03:00
2024-02-03 - 1243