میلنگ لسٹ

بريديك

موجودہ زائرین

باقاعدہ وزٹرز : 148233
موجود زائرین : 22

اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
278
فتاوى
56
مقالات
188
خطبات

تلاش کریں

البحث

مادہ

کھیرا بکرا قربان کرنے کا حکم

سوال

بکری کے جذعہ (کھیرے) کی قربانی کا کیا حکم ہے ؟

الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب

 

براء بن عازب   فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 «إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ بِهِ فِي يَوْمِنَا هَذَا أَنْ نُصَلِّيَ، ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ، مَنْ فَعَلَهُ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا، وَمَنْ ذَبَحَ قَبْلُ، فَإِنَّمَا هُوَ لَحْمٌ قَدَّمَهُ لِأَهْلِهِ، لَيْسَ مِنَ النُّسُكِ فِي شَيْءٍ» فَقَامَ أَبُو بُرْدَةَ بْنُ نِيَارٍ، وَقَدْ ذَبَحَ، فَقَالَ: إِنَّ عِنْدِي جَذَعَةً، فَقَالَ: «اذْبَحْهَا وَلَنْ تَجْزِيَ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ» قَالَ مُطَرِّفٌ: عَنْ عَامِرٍ، عَنِ البَرَاءِ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلاَةِ تَمَّ نُسُكُهُ، وَأَصَابَ سُنَّةَ المُسْلِمِينَ»

ہم اس دن نماز پڑھنے سے ابتداء کرتے ہیں پھر واپس لوٹتے ہیں اور قربانی کرتے ہیں جس نے اسی طرح کیا تو اس نے درست کیا اور جس نے نماز سے قبل ہی قربانی کا جانور ذبح کر لیا تو وہ قربانی نہیں ہے بلکہ عام گوشت ہے جو کہ اس نے اپنے گھر والوں کے لیے تیار کیا ہے۔ تو ابو برده بن نیار رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے ،انہوں نے نماز عید سے قبل ہی قربانی کا جانور ذبح کرلیا تھا ۔ کہنے لگے کہ میرے پاس (بکری کا ) جذعہ ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تو ذبح کرلے اور تیرے بعد کسی سے یہ کفایت نہیں کرے گا۔

 [صحيح البخاري، كتاب الأضاحي، باب سنة الأضحية، (5545)]

یہ حدیث صحیح بخاری میں مختلف الفاظ کے ساتھ دس جگہوں پر آئی ہے ۔ اس حدیث سے بعض لوگ یہ مسئلہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بکری کا جذعہ بھی بوقت دشواری کفایت کرجاتا ہے ، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے حالت عسر میں  اس کو قربانی دینے کی اجازت دی۔

لیکن یہ حدیث ان کے لیے دلیل نہیں بنتی کیونکہ خود رسول اکرمﷺ ہی فرمارہے ہیں:

«وَلَنْ تَجْزِيَ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ»

 کہ تیرے بعد بکری کا جذعہ کسی کو بھی کفایت نہ کرے گا۔‘‘

 حالت عسر و عدم عسر کی کوئی قید نہیں لگائی۔

کچھ دوسرے ایسے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ صرف بکری کا جذعہ کفایت نہیں کرتا باقی سب جانوروں کا جذعہ کفایت کرجاتا ہے۔ کیونکہ یہاں تذکرہ بکری کا ہورہاہے اور اس کے جذعہ کی کفایت نہ کرنے کا حکم دیا جارہاہے۔

مگر ان کی یہ بات بھی درست نہیں کیونکہ میں یہ روایت ان الفاظ سے بھی مروی ہے 

«وَلَنْ تَجْزِيَ جَذْعَةٌ  عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ»

تیرے بعد کوئی بھی جذعہ کسی سے بھی کفایت نہ کرے گا۔

صحیح بخاری، کتاب الجمعة، باب التبکیر إلی العید، (968)

یہاں لفظ ’’جذعہ‘‘ نکرہ ہے اور اہل علم جانتے ہیں کہ جب نکرہ نفی کے تحت آئے تو عموم کا فائدہ دیتا ہے۔ جس سے ثابت  ہوتا ہے کہ کوئی بھی کھیرا جانور کسی کی طرف سے بھی کفایت نہیں کرتا۔ البتہ حالت عسر میں بھیڑ کا کھیرا مستثنى ہے۔

هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم

  • الخميس AM 08:36
    2024-06-06
  • 670

تعلیقات

    = 9 + 7

    /500
    Powered by: GateGold