بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ روایت عام نہیں ہے بلکہ نذر کے روزوں کے ساتھ ہے اور اسکے لیے وہ بطور دلیل یہ روایت پیش کرتے ہیں:
نذر کے روزوں کے بارہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ، فَقَالَ: «أَرَأَيْتِ لَوْ كَانَ عَلَيْهَا دَيْنٌ أَكُنْتِ تَقْضِينَهُ؟» قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: «فَدَيْنُ اللهِ أَحَقُّ بِالْقَضَاءِ»
ایک عورت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ میری والدہ فوت ہوگئی ہے اور اسکے ذمہ ایک ماہ کے روزے تھے ۔ تو نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرا کیا خیال ہے کہ اگر اس پر قرض ہوتا تو کیا تو اسے ادا کرتی؟ کہنے لگی جی ہاں! آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو اللہ کا قرض ادا کیے جانے کا زیادہ حقدار ہے۔
صحیح مسلم: 1148
صحیح البخاری میں وضاحت ہے :
إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ نَذْرٍ
میری والدہ فوت ہوگئی ہے اور اس پر نذر کے روزے ہیں۔
صحیح البخاری: 1953
لیکن اس روایت سے صحیح بخاری کی پہلی عام روایت کو خاص کرنا درست نہیں کیونکہ
اولا:
علم اصول کا مسلمہ قاعدہ ہے :
اعتبار الفاظ کے عموم کا ہوتا ہے سبب کے خصوص کا نہیں
اور دوسرا قاعدہ ہے:
عام کے افراد میں سے کسی ایک فرد کا ذکر اس عام کے عموم کو ختم نہیں کرتا ۔
اور حدیث " من مات وعلیہ صیام میں عموم کا ذکر ہے ۔اور نذر والی حدیث میں اس عام کے ایک فرد کا تذکرہ ہے ۔لہذا اسے نذر کے ساتھ خاص کرنا درست نہیں !
ثانیا:
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
بَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ أَتَتْهُ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: إِنِّي تَصَدَّقْتُ عَلَى أُمِّي بِجَارِيَةٍ، وَإِنَّهَا مَاتَتْ، قَالَ: فَقَالَ: «وَجَبَ أَجْرُكِ، وَرَدَّهَا عَلَيْكِ الْمِيرَاثُ» قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّهُ كَانَ عَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ، أَفَأَصُومُ عَنْهَا؟ قَالَ: «صُومِي عَنْهَا» قَالَتْ: إِنَّهَا لَمْ تَحُجَّ قَطُّ، أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟ قَالَ: «حُجِّي عَنْهَا»
میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک عورت آئی اور اس نے کہا کہ میں نے اپنی والدہ پر ایک لونڈی صدقہ کی تھی اور میری والدہ اب فوت ہوگئی ہے تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھے اجر مل گیا اور وراثت میں وہ لونڈی پھر تجھے مل گئی۔ اس نے کہ اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم اس کے ذمہ ایک ماہ کے روزے تھے تو کیا میں اسکی طرف سے روزے رکھوں؟ تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسکی طرف سے روزے رکھ۔ کہنے لگی کہ اس نے کبھی حج نہیں کیا تھا تو کیا میں انکی طرف سے حج کروں؟ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انکی طرف سے حج کر۔
صحیح مسلم: 1149
یہی روایت ابو عوانہ میں وضاحت کے ساتھ ہے:
وَعَلَيْهَا صَوْمٌ مِنْ رَمَضَانَ
انکے ذمہ رمضان کے روزے ہیں۔
مستخرج أبی عوانۃ : 2906
اس روایت سے واضح ہوگیا کہ رمضان کے روزے بھی میت کی طرف رکھے جائیں گے ولی پہ لازم ہے کہ انکی قضائی دے۔
ثالثا:
فدیہ کا حکم شروع اسلام میں تھا لیکن بعد میں اللہ تعالى نے اسے منسوخ فرما دیا۔
ابن ابی لیلى فرماتے ہیں:
حدثنا أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم نزل رمضان فشق عليهم فكان من أطعم كل يوم مسكينا ترك الصوم ممن يطيقه ورخص لهم في ذلك فنسختها وأن تصوموا خير لكم فأمروا بالصوم
کئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ہمیں بتایا کہ جب رمضان کے روزوں کی فرضیت نازل ہوئی تو جس پر روزہ گراں گزرتا , اگر اسکے پاس طاقت ہوتی تو وہ ہر دن ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا اور روزہ چھوڑ دیتا , اور انہیں اس بات کی رخصت تھی , پھر اس رخصت کو وأن تصوموا خير لكم نے منسوخ کر دیا اور انہیں روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا۔
صحیح البخاری: قبل حدیث 1949
نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے (فِدْيَةُ طَعَامِ مَسَاكِينَ) کی تلاوت فرمائی اور فرمایا:
«هِيَ مَنْسُوخَةٌ»
یہ منسوخ ہے۔
صحیح البخاری: 1949
فدیہ کے منسوخ ہونے والا مسئلہ کی تفصیل کے لیے سوال نمبر 247, 248, 249, 250, 251, 252 دیکھ لیں۔