دین میں اصل اباحت نہیں حرمت ہے۔ جب دین اللہ سبحانہ وتعالى نے مکمل فرما دیا تو تکمیل دین کے بعد جو چیز بھی دین میں شامل کی جائے گی وہ حرام اور ناجائز ہی ہوگی۔ اللہ سبحانہ وتعالى کا فرمان ہے: أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ کیا انکے شرکاء ہیں جنہوں نے انکے لیے دین میں وہ باتیں مشروع کر رکھی ہیں جنکی اللہ نے اجازت نہیں دی۔ اور اگر فیصلہ کن بات نہ ہوتی تو انکے درمیان فیصلہ کر دیا جاتا اور یقینا ظالموں ہی کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ سورۃ الشورى:21 یعنی اپنی طرف سے کوئی چیز دین میں شامل کرنے والوں کی اللہ تعالى سرزنش فرما رہے ہیں اور انہیں ظالم قرار دے کر عذاب الیم سے ڈرا رہے ہیں۔ اسی طرح نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: «مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ» جس نے بھی کوئی بھی ایسا کام کیا جس پر ہمارا امر نہ ہو تو وہ کام رد ہے۔ صحیح مسلم: 1718 اور بدعت کے حرام ہونے کے بارہ میں تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا واضح حکم موجود ہے: وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ اور تم کاموں میں سے نو ایجاد شدہ کاموں سے بچو‘ یقینا ہر نو ایجاد شدہ کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ سنن ابی داود: 4607 نیز فرمایا: إِنَّ أَصْدَقَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ، وَأَحْسَنَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ، وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ، وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ یقینا سب سے سچی بات کتاب اللہ ہے, اور سب سے اچھا طریقہ محمد صلى اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے, اور کاموں میں سے برے ترین کام اس (دین الہی) میں نئے ایجاد کردہ کام ہیں, اور ہر نو ایجاد شدہ کام بدعت ہے, اور ہر بدعت گمراہی ہے, اور ہر گمراہی آگ (جہنم) میں (لیجانے والی) ہے۔ سنن النسائی:1578
|