اولا: طلاق کو کھیل بنانا اور اسکا مذاق کرنا جائز نہیں ہے۔
سیدنا محمود بن لبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
أُخْبِرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ، طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثَ تَطْلِيقَاتٍ جَمِيعًا، فَقَامَ غَضْبَانًا، ثُمَّ قَالَ: «أَيُلْعَبُ بِكِتَابِ اللهِ، وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ» حَتَّى قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ أَلَا أَقْتُلُهُ؟
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو خبر دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکٹھی دے دی ہیں تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم غصہ سے کھڑے ہوئے پھر فرمایا کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے جبکہ میں ابھی تمہارے درمیان موجود ہوں۔ حتى کہ ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم کیا میں اسے قتل نہ کر دوں ؟
سنن نسائی: 5564
ثانیا: مذاق میں دی گئی طلاق بھی واقع ہو جاتی ہے:
امام ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنِ ابْنِ مَاهَكَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " ثَلَاثٌ جَدُّهُنَّ جَدٌّ، وَهَزْلُهُنَّ جَدٌّ: النِّكَاحُ، وَالطَّلَاقُ، وَالرَّجْعَةُ "
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین کام ایسے ہیں کہ جنکا ارداہ بھی ارادہ اور مذاق بھی ارادہ ہے: نکاح ‘ طلاق‘ اور رجوع۔
سنن ابي داود: 2194
یہ روایت حسن ہے۔
امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے :
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ
یہ حدیث حسن غریب ہے۔
جامع الترمذی: 1184
امام حاکم رحمہ اللہ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حَبِيبٍ هَذَا هُوَ ابْنُ أَرْدَكَ مِنْ ثِقَاتِ الْمَدَنِيِّينَ
یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اور عبد الرحمن بن حبیب ‘ ابن اردک ہے جو کہ مدینہ کے ثقہ راویوں میں سے ہے۔
عبد الرحمن بن حبیب پر کچھ جرح بھی ہے جسکی وجہ سے اس روایت کی صحت مشکوک ہوجاتی ہے لیکن اسکی تائید میں درج ذیل روایات بھی موجود ہیں جو اسکی صحت سے شک دور کر دیتی ہیں:
سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«ثَلَاثٌ لَا يُلْعَبُ بِهِنَّ النِّكَاحُ، وَالْعَتَاقُ، وَالطَّلَاقُ»
تین کاموں کا مذاق نہ بنایا جائے نکاح طلاق اور غلام کو آزاد کرنا۔
مصنف ابن ابی شیبۃ: 18402
امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كَانَ الرَّجُلُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ يُطَلِّقُ ثُمَّ يَرْجِعُ، يَقُولُ: كُنْتُ لَاعِبًا، وَيُعْتِقُ، ثُمَّ يَرْجِعُ يَقُولُ: كُنْتُ لَاعِبًا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ " {وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا} [البقرة: 231]، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ طَلَّقَ، أَوْ حَرَّرَ، أَوْ أَنْكَحَ، أَوْ نَكَحَ فَقَالَ: إِنِّي كُنْتُ لَاعِبًا فَهُوَ جَائِزٌ "
آدمی جاہلیت میں طلاق دیتا پھر رجوع کرتا اور کہتا کہ میں تو مذاق کر رہا تھا‘ اور غلام کو آزاد کرکے مکر جاتا اور کہتا کہ میں نے تو مذاق کیا تھا۔ تو اللہ تعالى نے یہ آیت نازل فرمائی۔
{وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا} [البقرة: 231]
اور اللہ تعالى کی آیات کو مذاق نہ بناؤ۔
تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے طلاق دی یا غلام کو آزاد کیا یا نکاح کرایا یا نکاح کیا پھر کہا کہ میں تو کھیل مذاق کرنے والا تھا تو وہ نافذ ہو جائے گا۔
مصنف ابن ابی شیبہ : 18406
ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ثَلَاثٌ لَا يُلْعَبُ بِهِنَّ الطَّلَاقُ، وَالنِّكَاحُ، وَالنَّذْرُ»
تین کاموں کو کھیل نہ بنایا جائے نکاح طلاق اور نذر
مصنف ابن ابی شبیہ : 18404
ان مذکورہ بالا مرویات سے واضح ہوتا ہے کہ حدیث ثلاث جدهن جد وهزلهن جد کی اصل موجود ہے۔ اور انہی شواہد کی بناء پر شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔
(ارواء الغليل: جـ6 صـ224)
اور شعیب ارناؤوط نے بھی اسے حسن لغیرہ قرار دیا ہے
( سنن ابی داود: 2194)
لہذا اس حسن حدیث کی وجہ سے مذاق کی حالت میں دی گئی طلاق بھی واقع ہو جائے گی۔
اور جو لوگ اللہ تعالى کے اس فرمان سے استدلال کرتے ہیں:
وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (البقرة: 227)
اور اگر وہ طلاق کا عزم کر لیں تو یقینا اللہ تعالى خوب سننے والا اور خوب جاننے والا ہے۔
اور کہتے ہیں کہ جب تک عزم نہ کیا جائے طلاق واقع نہیں ہوتی۔
انکا یہ استدلال باطل ہے۔ کیونکہ یہ آیت ایلاء کرنے والے کے بارہ میں نازل ہوئی ہے جو اپنی بیوی کے پاس نہ جانے کی قسم اٹھا لیتا ہے تو اللہ تعالى نے اسکے لیے چار ماہ کی مدت متعین کی ہے کہ چار ماہ تک انتظار کریں اسکے بعد اگر وہ لوٹ آئیں یعنی اپنی بیویوں کے پاس آ جائے تو بہتر اور اگر وہ طلاق کا ارادہ کر لیں تو بھی اللہ تعالى سبھی جانتا ہے۔ یعنی اس آیت میں مذاق سے طلاق دینے کے بارہ میں کوئی بات ہی نہیں کہ پختہ ارادہ سے طلاق دے تو طلاق ہوتی ہے وگرنہ نہیں ہوتی بلکہ اس آیت میں تو مولی (ایلاء کرنے والے) کے عزم وارادہ کی بات کی گئی ہے۔ اور پھر اسکے صرف عزم کر لینے سے بھی طلاق نہیں ہوگی جب تک وہ طلاق نہ دے دے۔
یہی بات امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی نیل الاوطار میں سمجھانے کی کوشش کی ہے:
واستدلوا بقوله تعالى: {وإن عزموا الطلاق} [البقرة: 227] فدلت على اعتبار العزم والهازل لا عزم منه. وأجاب صاحب البحر بالجمع بين الآية والحديث فقال: يعتبر العزم في غير الصريح لا في الصريح فلا يعتبر. والاستدلال بالآية على تلك الدعوى غير صحيح من أصله فلا يحتاج إلى الجمع فإنها نزلت في حق المولى
جو لوگ کہتے ہیں کہ طلاق کے صریح لفظ میں بھی نیت طلاق ہونا ضروری ہے وہ اللہ تعالى کے اس فرمان سے استدلال کرتے ہیں:
{وإن عزموا الطلاق} [البقرة: 227]
اور اگر وہ طلاق کا عزم کر لیں۔
اور کہتے ہیں کہ یہ آیت ارادہ کا اعتبار کرنے پر دلالت کرتی ہےا ور مذاق میں طلاق دینے والا کا تو کوئی ارادہ ہی نہیں ہوتا۔ اور صاحب بحر نے آیت اور حدیث میں تطبیق دیتے ہوئے اسکا جواب دیا ہے کہ عزم کا اعتبار غیر صریح الفاظ میں کیا جائے گا اور جو طلاق کے صریح الفاظ ہیں ان میں عزم وارادہ کا اعتبار نہیں کیا جائے گا(بلکہ صرف الفاظ کا ہی اعتبار ہوگا) ۔ (امام شوکانی فرماتے ہیں ) اس آیت سے اس دعوى پر استدلال اصلا درست ہی نہیں لہذا اس میں تطبیق کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ یہ آیت تو ایلاء کرنے والے کے بارہ میں نازل ہوئی ہے۔
نيل الأوطار: جـ6 صـ 287
رہی حدیث انما الاعمال بالنیات (اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے) کی بات تو حدیث ثلاث جدھن جد کی وجہ سے طلاق کا مسئلہ اس سے عمومی اصول سے مستثنى ہے۔
اسی طرح شریعت نے طلاق کے موقع پر گواہ بنانے کا حکم تو دیا ہے۔ لیکن گواہوں کی عدم موجودگی میں دی گئی طلاق کو باطل قرار نہیں دیا۔ یعنی کوئی شخص اگر گواہوں کی غیر موجودگی میں طلاق دے تو اسکا یہ عمل درست نہیں البتہ طلاق واقع ہو جائے گی۔ اور پھر جب طلاق دینے والا خود مان رہا ہے کہ میں نے طلاق دی ہے, تو اس کے لیے گواہوں کی ضرورت ہی کیا ہے؟۔ اقرار پر تو حد بھی جاری ہو جاتی ہے۔ اور یہاں طلاق دینے والا بھی اقرار کر رہا ہے کہ میں نے طلاق دی تھی اور جسے طلاق دی گئی وہ بھی مان رہی کہ طلاق دی گئی تھی۔ اور دونوں نے اسے طلاق شمار بھی کیا پھر مفتی صاحب کو نہ جانے کیا سمجھ آئی ہے؟
اسی طرح جو طلاق نشہ کی حالت میں دی گئی اسے ایک تو انہوں نے طلاق شمار کیا اور پھر رجوع بھی کیا ۔ یعنی ا س وقت اسے طلاق سمجھا گیا اور نشہ کی حالت کا خیال نہ آیا۔ یہ عمل انکے دعوى نشہ کی حالت میں طلاق کو مشکوک قرار دیتا ہے۔ اور پھر نشہ بھی ایسا کہ وہ اپنی بیوی کو پہچان رہا ہے اور اسکا نمبر ڈائل کرتا ہے اور بات چیت کرتا ہے تو ایسے نشہ کا شریعت میں کوئی اعتبار نہیں جس میں انسان کے ہوش و ہواس قائم رہیں۔
لہذا صورت مسئولہ میں تینوں طلاق واقع ہو چکی ہیں۔
پہلی طلاق جو اس نے مذاق میں دی۔
دوسری طلاق جسکے بارہ میں اس نے اب دعوى کیا کہ نشہ کی حالت میں تھی۔
اور تیسری طلاق جو اس نے اب دی ہے۔
مختلف اوقات میں دو طلاقوں سے رجوع کے بعد تیسری طلاق دینے کی وجہ سے اب یہ دونوں ایک دوسرے پر حرام ہیں اور انکا میاں بیوی بن کے رہنا شرعا ناجائز ہے۔