اپنی زندگی میں اگر کوئی شخص اپنا مال اپنی اولاد میں تقسیم
کرے تو اس پر لازم ہے کہ وہ بیٹوں اور بیٹیوں کو برابر دے۔ بیٹوں اور بیٹیوں میں
سے کسی کو دوسرے سے زیادہ نہیں دے سکتا ۔
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے والد مجھے نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم
کے پاس لے کر آئے اور کہا:
إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي هَذَا غُلاَمًا،
فَقَالَ: «أَكُلَّ وَلَدِكَ نَحَلْتَ مِثْلَهُ»، قَالَ: لاَ، قَالَ: «فَارْجِعْهُ»
میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہبہ کیا ہے ۔ تو آپ صلى
اللہ علیہ وسلم نے پوچھا "کیا تو نے اپنی ساری اولاد کو اسی طرح دیا
ہے؟" تو انہوں نے عرض کیا "نہیں!" تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا "پھر اس سے بھی واپس لے لے"
صحیح البخاری : 2586
ایک دوسری روایت میں ہے کہ ا نہیں نبی مکرم صلى اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا :
«فَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْدِلُوا بَيْنَ
أَوْلاَدِكُمْ»
اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد میں انصاف کرو۔
صحیح البخاری : 2587
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«لاَ تُشْهِدْنِي عَلَى جَوْرٍ» , «لاَ
أَشْهَدُ عَلَى جَوْرٍ»
مجھے ظلم پر گواہ نہ بنا , میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا!
صحیح البخاری : 2650
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد کو ہبہ کرنے یا تحفہ
دینے میں سب کو برابر رکھنا چاہیے , کسی کو دوسرے پر فوقیت نہیں دینی ۔
یاد رہے کہ انسان جو کچھ اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو دیتا
ہے وہ ہبہ یا عطیہ ہوتا ہے , ترکہ یا وراثت نہیں !
مال ترکہ یا وراثت تب بنتا ہے جب مالک فوت ہو جائے , مال
چھوڑ جائے ۔
ترکہ کا اصول ہے کہ بیٹوں کو بیٹیوں کی نسبت دوگنا ملتا ہے
۔ جبکہ ہبہ یا تحفہ کا اصول ہے کہ ساری اولاد کو برابر رکھا جاتا ہے۔
اور بیوی کو جس حساب سے چاہیں دے دیں اسکا اولاد کے ساتھ
کوئی موزانہ نہیں ہے۔ بلکہ قرآن مجید میں تو انہیں بہت زیادہ مال دینے کی بات بھی
مذکور ہے (سورۃ النساء: 20)
البتہ یہ بات ملحوظ رہے کہ اپنی زندگی میں ایک تہائی سے
زیادہ تقسیم کرنا منع ہے۔
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
مَرِضْتُ، فَعَادَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ لاَ يَرُدَّنِي عَلَى عَقِبِي،
قَالَ: «لَعَلَّ اللَّهَ يَرْفَعُكَ وَيَنْفَعُ بِكَ نَاسًا»، قُلْتُ: أُرِيدُ
أَنْ أُوصِيَ، وَإِنَّمَا لِي ابْنَةٌ، قُلْتُ: أُوصِي بِالنِّصْفِ؟ قَالَ:
«النِّصْفُ كَثِيرٌ»، قُلْتُ: فَالثُّلُثِ؟ قَالَ: «الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ
كَثِيرٌ أَوْ كَبِيرٌ»، قَالَ: فَأَوْصَى النَّاسُ بِالثُّلُثِ، وَجَازَ ذَلِكَ
لَهُمْ
میں بیمار ہوا تو نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے میری عیادت کی
۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم ! اللہ سے دعاء فرمائیے کہ
اللہ مجھے ایڑی کے بل لوٹا نہ دے (یعنی جس
شہر مکہ سے میں نے ہجرت کی تھی اسی شہر میں موت نہ دے) تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا " شاید کہ اللہ تعالى تجھے اٹھائے گا اور تجھ سے لوگ فائدہ حاصل
کریں گے " میں نے کہا میں چاہتا ہوں کہ وصیت کروں اور میری صرف ایک ہی بیٹی
ہے ۔ تو کیا میں اپنے آدھے مال کی وصیت کر دوں ؟ تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا "آدھا تو بہت زیادہ ہے" تو میں نے کہا پھر ایک تہائی مال کی وصیت
کردوں؟ تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "ہاں ایک تہائی کی , اور
ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے" تو لوگوں نے ایک تہائی کی وصیت کی اور نبی مکرم
صلى اللہ علیہ وسلم نے اسے جائز قرار دیا ۔
صحیح البخاری : 2744
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
«أَنَّ رَجُلًا أَعْتَقَ سِتَّةَ مَمْلُوكِينَ لَهُ عِنْدَ
مَوْتِهِ، لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ غَيْرَهُمْ، فَدَعَا بِهِمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى
اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَزَّأَهُمْ أَثْلَاثًا، ثُمَّ أَقْرَعَ بَيْنَهُمْ،
فَأَعْتَقَ اثْنَيْنِ، وَأَرَقَّ أَرْبَعَةً، وَقَالَ لَهُ قَوْلًا شَدِيدًا»
ایک آدمی نے اپنی موت سے پہلے چھ غلام آزاد کیے , جبکہ اسکے
پاس انکے سوا اور کوئی مال نہیں تھا۔ تو نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا
اور انہیں تین حصوں (دو دو کے گروہ) میں تقسیم کیا ۔ پھر انکے درمیان قرعہ اندازی
کی, اور ان میں سے دو کو آزاد کر دیا اور باقی چار کو غلام ہی رکھا ۔ اور اس (آزاد
کرنے والے ) کے بارہ میں بہت سخت بات کہی۔
صحیح مسلم : 1668
ان مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں آپ اپنی زندگی میں اپنے
کل مال میں سے ایک تہائی مال تقسیم کرسکتے
ہیں ۔ جس میں سے اولاد کو برابر دینا ہوگا , اور کو اپنی صوابدید کے مطابق جتنا
جتنا چاہیں دے سکتے ہیں ۔
|