اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
280
فتاوى
58
مقالات
188
خطبات

مادہ

کیا لڑکی اپنی پسند سے شادی کر سکتی ہے؟

سوال

آج کل اگر کوئی لڑکی اپنے والدین کو اپنی پسند کے بارے میں بتاتی ہے کہ مجھے یہ لڑکا پسند ہے تو وہ اس کو اپنی زندگی موت اور ناک کٹ جانے کا مسئلہ سمجھ لیتے حالانکہ ان کی بیٹی نے ان کی عزت بچا کر اسلامی راستہ چنا ہوتا ہے پھر لڑکا بیشک خاندان کا ہو اور شریف ہو مگر لڑکی کی ماں یا باپ کسی بے تکی سی بات پر انکار کر کے اپنی بیٹی کی زندگی خراب کر لیتے ہیں تو اس معاملے میں لڑکا لڑکی کو کیا کرنا چاہیے؟

الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب

سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنے کی ہے کہ لڑکی نے اپنی شادی کے لیے لڑکا پسند کیسے کر لیا؟

کیونکہ دین اسلام تو ایسے تمام تر راستے بند کرتا ہے جس سے لڑکا  لڑکی ایک دوسرے کے عشق میں گرفتار ہوں۔ یاد رہے کہ ایک آدھ مرتبہ صنف مخالف پہ نظر پڑ جانے سے شہوانی جذبات تو ابھرتے ہیں مگر  دانشمند مرد یا عورت محض ایک نظر دیکھ کر ہی اپنے شریک حیات کا انتخاب نہیں کرتے۔ بلکہ اسکے لیے وہ بہت کچھ سوچتے ہیں جن میں سب سے اہم چیز اخلاق وآداب اور مزاج ہوتے ہیں جنہیں پرکھنے کے لیے صرف ایک آدھ نظر نہیں بلکہ "ملاقاتوں" کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور عشق کی بیماری انہیں ملاقاتوں کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔

نظرة فابتسامة فسلام

فكلام فموعد  فلقاء

پہلے نظروں سے نظریں ملتی ہیں ، پھر مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوتا ہے، پھر سلام ہوتا ہے  ، پھر کلام کا آغاز ہوتا  ہے اور پھر وعدے اور ملاقاتیں شروع ہوتی ہیں۔

اور پھر

ع......                     اور کھل جاؤگے  دو چار ملاقاتوں میں۔

جبکہ اللہ سبحانہ وتعالى نے  نظر بازی سے منع کرتے ہوئے  ارشاد فرمایا  ہے:

قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ

مؤمن مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور ا پنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ۔ یہ انکے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ اللہ تعالى یقینا انکے اعمال سے خوب باخبر ہیں۔

[النور : 30]

عورتوں کے لیے حکم دیا:

وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ

اور مؤمنہ عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنی نگاہوں کو پست رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔

 [النور : 31]

سیدنا جریر بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَظْرَةِ الْفَجْأَةِ؟ فَقَالَ: «اصْرِفْ بَصَرَكَ»

میں نے رسول ا للہ صلى اللہ علیہ وسلم سے (غیر محرم پہ) اچانک نظر پڑ جانے کے بارہ میں پوچھا تو آپ ﷑ نے فرمایا: اپنی نگاہ کو پھیر لے۔

سنن أبی داود :2148

اسی طرح رسول اللہ ﷑ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا:

«يَا عَلِيُّ لَا تُتْبِعِ النَّظْرَةَ النَّظْرَةَ، فَإِنَّ لَكَ الْأُولَى وَلَيْسَتْ لَكَ الْآخِرَةُ»

اے علی! نظر کو نظر کے پیچھے نہ لگا (یعنی اگر کبھی کسی غیر محرم پہ اچانک نظر پڑ جائے تو مسلسل نہ دیکھتا رہ) کیونکہ پہلی (بار جو اچانک نظر پڑی ہے) وہ تیرے لیے (معاف ) ہے اور اسکے بعد والی (معاف) نہیں۔

سنن أبی داود:2149

اور پھر اگر کسی کی نظر نا محرم صنف مخالف پہ پڑ ہی جائے تو وہ بار بار اسے اپنے تصورات میں لا کر محظوظ ہو یہ بھی درست نہیں بلکہ جس طرح کسی نا محرم کو کھلی آنکھوں سے دیکھنا حرام ہے اسی طرح کسی نامحرم کو تصور میں لانا بھی حرام ہے۔ رسول اللہ ﷑ کا ارشاد گرامی ہے:

«لَا تُبَاشِرُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، لِتَنْعَتَهَا لِزَوْجِهَا كَأَنَّمَا يَنْظُرُ إِلَيْهَا»

کوئی عورت کسی دوسری عورت سے ملاقات کرنے کےبعد (اسکا حلیہ اور خد وخال) اپنے خاوند کے سامنے اس طرح سے بیان نہ کرے کہ گویا وہ(اس کا خاوند) اس (عورت) کو دیکھ رہا ہے۔

سنن أبی داود:2150

اور نا محرم کی طرف دیکھنا اس سے باتیں کرنا ، اسے چھونا، اور اسکی طرف چل کر جانا,اور اسکے بارہ میں آروزئیں کرنا ان سب کاموں کو  زنا قرار دیتے ہوئے  رسول اللہ ﷑ فرماتے ہیں:

فَالْعَيْنَانِ زِنَاهُمَا النَّظَرُ، وَالْأُذُنَانِ زِنَاهُمَا الِاسْتِمَاعُ، وَاللِّسَانُ زِنَاهُ الْكَلَامُ، وَالْيَدُ زِنَاهَا الْبَطْشُ، وَالرِّجْلُ زِنَاهَا الْخُطَا، وَالْقَلْبُ يَهْوَى وَيَتَمَنَّى، وَيُصَدِّقُ ذَلِكَ الْفَرْجُ وَيُكَذِّبُهُ

 آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے، اور کان کا زنا سننا ہے، اور زبان کا زنا بولنا (باتیں کرنا) ہے، اور ہاتھ کا زنا پکڑنا ہے، اور پاؤں کا زنا چلنا  ہے,اور دل تمنا کرتا اور خواہش کرتا ہے، اور شرمگاہ اسکی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔

صحیح مسلم: 2657

اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ نا محرم کی طرف دیکھنا آنکھوں کا زنا ہے ، اور اس سے باتیں کرنا زبان کا زنا ہے، اور دل میں آرزوئیں اور تمنائیں لانا اور تصورات وخیالات پیدا کرنا نفس کا زنا ہے۔

اور نا محرم سے خلوت نشینی تو بہت ہی خطرنا ک ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

أَلَا لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا كَانَ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ

جب بھی کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں ہوتا ہے تو ان دونوں کے ساتھ تیسرا شیطان ضرور ہوتا ہے۔

جامع الترمذی: 2165

الغرض جب شریعت میں غیر محرم کے لیے نظر بازی بھی حرام، باتیں کرنا  اور سننابھی حرام,ہاتھ سے ہاتھ ملانا اور چھونا بھی حرام,دل میں آزوئیں بٹھانا اور تصورات لانا بھی حرام، اور خلوت وتنہائی بھی حرام ، تو پھر لڑکی کسی خاص لڑکے کو نکاح کے لیے کیسے پسند کرسکتی ہے؟ اور وہ لڑکا شریف کیسے ہوسکتا ہے؟؟جو ان تمام  تر یا اکثر حدود کو پار کر چکا ہو! اور جب لڑکی ان مراحل سے گزر کر کسی لڑکے کو شادی کے لیے پسند کرتی ہے تو والدین  اسے اپنی زندگی موت کا مسئلہ بنانے اور  ناک کٹ جانے کا مسئلہ بنانے میں حق بجانب ہیں!

ہاں ایسا ضرور ہوسکتا ہے کہ لڑکی کی خواہش ہو وہ کہ میرے رفیق حیات میں فلاں فلاں صفات ہوں، تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے۔ اور ایسی  صورت میں اسکے دماغ پہ کوئی خاص لڑکا نہیں چھایا ہوتا بلکہ ان صفات کا حامل کوئی بھی اسے میسر آجائے تو وہ اسکے سپنوں کا شہزادہ ہی ہوتا ہے۔

 اور شریعت نے اس قدر اجازت تو لڑکی کو دی ہے کہ وہ اپنی پسند یا ناپسند اپنے ولی امر کے سامنے ذکر کر دے ۔ اور اگر کوئی بھی لڑکی اس طرح سے اپنی پسند یا ناپسند والدین کے سامنے ذکر کرتی ہے تو کوئی بھی والدین اسکا برا نہیں مناتے۔ اور نہ ہی شریعت اس سے منع کرتی ہے ۔ بلکہ رسول اللہ ﷺ نے شادی سے قبل لڑکی کی رضامندی  معلوم کرنے کا حکم دیا ہے:

«لاَ تُنْكَحُ الأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلاَ تُنْكَحُ البِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ إِذْنُهَا؟ قَالَ: «أَنْ تَسْكُتَ»

شوہر دیدہ عورت کا نکاح اس سے مشورہ کیے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا نکاح اسکی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔ لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ اسکی اجازت کیسے ہوگی؟ تو آپ ﷺ نےفرمایا : اسکے خاموش رہنے سے۔

صحیح البخاری: 5136

یعنی شریعت اسلامیہ نے ولی امر پہ لازم قرار دیا ہے کہ کسی بھی عورت کا نکاح کرنے سے قبل اسکے رفیق حیات کے بارہ میں اس سے رائے یا اجازت لی جائے۔ شوہر دیدہ عورت میں شرم قدرے کم ہوتی ہے سو وہ اپنی پسند یا ناپسند بول کر بتا دے گی اور مشورہ بھی دے گی۔ اور کنواری لڑکی میں چونکہ فطرتاً شرم وحیاء زیادہ ہوتی ہے تو جب اسکے سامنے یہ ذکر کیا جائے گا کہ تمہارا رشتہ فلاں  کے ساتھ کیا جا رہا ہے  تو اگر وہ اسے ناپسند کرتی ہے تو بول کر بتا دے اور اگر وہ خاموش رہتی ہے تو اسکی طرف سے اسکی خاموشی کو ہی رضامندی و اجازت تصور کیا جائے گا۔

اور ا گر اولیاء کسی لڑکی کی رضامندی کے بغیر اسکا نکاح کر دیتے ہیں تو بھی شریعت نے اسے اختیار دیا ہے کہ وہ نکاح کے بعد بھی قاضی سے رجوع کرے اور نکاح کو فسخ کروا لے:

عَنْ خَنْسَاءَ بِنْتِ خِذَامٍ الأَنْصَارِيَّةِ، أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهْيَ ثَيِّبٌ فَكَرِهَتْ ذَلِكَ، فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «فَرَدَّ نِكَاحَهُ»

سیدہ خنساء بنت خِذام انصاریہ ﷞  فرماتی ہیں کہ وہ شوہر دیدہ تھیں ، انکے والد نے انکا نکاح کر دیا جبکہ وہ اس نکاح پہ راضی نہ تھیں ، تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں تو آپ ﷺ نے اس نکاح کو رد فرما دیا۔

صحیح البخاری: 5138

هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم

  • الجمعة PM 07:41
    2022-01-21
  • 2073

تعلیقات

    = 4 + 8

    /500
    Powered by: GateGold