میلنگ لسٹ
موجودہ زائرین
اعداد وشمار
تلاش کریں
مادہ
وسیلے کی جائز اور مشروع صورتیں
درس کا خلاصہ
اللہ کا وسیلہ تلاش کرنے کا حکم اللہ تعالى نے ہی قرآن مجید میں دیا ہے۔ اور وسیلے کا طریقہ خود نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے۔ لہذا اللہ کے حکم پہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق عمل کیا جائے۔
الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على سيد الأنبياء والمرسلين، أما بعد!
وسیلے کی جائز صورتیں
اللہ کے سامنے اپنے مطالبات پیش کرنا ہر انسان کی ضرورت ہے، اور ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالى سے وہ جو بھی دعا مانگے وہ اس کی دعا قبول ہو جائے ۔ کچھ طریقہ کار نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اللہ نے بتائے ہیں اگر بندہ انہیں اپنائےتو اس کی دعا کی قبولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔ان میں سے ایک طریقہ ہےکہ جب بندہ اللہ تعالى سے دعا مانگے تو اللہ کے سامنے وسیلہ پیش کرے ۔اللہ نے قرآن مجید میں اہل ایمان کو حکم دیا ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَابْتَغُواْ إِلَيهِ الْوَسِيلَةَ
اے اہل ایمان اللہ تعالى سے ڈرو اور اللہ کی طرف وسیلہ تلاش کرو ۔
[المائدة : 35]
لوگوں نے وسیلے کے بارے میں بہت زیادہ افراط وتفریط کی ہے کئی لوگ عجیب وغریب طریقے سے اپنی دعا میں وسیلہ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جس کے من میں جو آتا ہے وہ بس اس طریقہ کو سمجھتا ہے کہ یہ وسیلے کا صحیح طریقہ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وسیلہ اللہ تعالى کا حکم ہے ، اور اسکا طریقہ وہی درست ہو گا جو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے اس کے علاوہ اور کوئی بھی طریقہ وسیلے کے لیے اپنایا جائے گا وہ قطعا ًغلط ہوگا کیونکہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرُ الْهُدَى هُدَى مُحَمَّدٍصلى الله علیہ وسلم وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ
باتوں میں سے بہترین بات کتاب اللہ یعنی قرآن مجید فرقان حمید ہے اور طریقوں میں سے بہترین طریقہ محمد صلى اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے اور کامو ں میں سے بد ترین کام وہ ہیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے نام پر نئے ایجاد کر لیے جائیں اور (دین میں) ہر نو ایجاد شدہ کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں داخلے کا باعث بن جاتی ہے ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ جس وسیلے کا اللہ تعالى نے حکم دیا ہے اور رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے یا آپ نے اپنایا ہے وہ کیا ہے؟
نیک اعمال کا وسیلہ:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا:
" بَيْنَمَا ثَلاَثَةُ نَفَرٍ مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ يَمْشُونَ، إِذْ أَصَابَهُمْ مَطَرٌ، فَأَوَوْا إِلَى غَارٍ فَانْطَبَقَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: إِنَّهُ وَاللَّهِ يَا هَؤُلاَءِ، لاَ يُنْجِيكُمْ إِلَّا الصِّدْقُ، فَليَدْعُ كُلُّ رَجُلٍ مِنْكُمْ بِمَا يَعْلَمُ أَنَّهُ قَدْ صَدَقَ فِيهِ، فَقَالَ وَاحِدٌ مِنْهُمْ: اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ كَانَ لِي أَجِيرٌ عَمِلَ لِي عَلَى فَرَقٍ مِنْ أَرُزٍّ، فَذَهَبَ وَتَرَكَهُ، وَأَنِّي عَمَدْتُ إِلَى ذَلِكَ الفَرَقِ فَزَرَعْتُهُ، فَصَارَ مِنْ أَمْرِهِ أَنِّي اشْتَرَيْتُ مِنْهُ بَقَرًا، وَأَنَّهُ أَتَانِي يَطْلُبُ أَجْرَهُ، فَقُلْتُ لَهُ: اعْمِدْ إِلَى تِلْكَ البَقَرِ فَسُقْهَا، فَقَالَ لِي: إِنَّمَا لِي عِنْدَكَ فَرَقٌ مِنْ أَرُزٍّ، فَقُلْتُ لَهُ: اعْمِدْ إِلَى تِلْكَ البَقَرِ، فَإِنَّهَا مِنْ ذَلِكَ الفَرَقِ فَسَاقَهَا، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ مِنْ خَشْيَتِكَ فَفَرِّجْ عَنَّا، فَانْسَاحَتْ عَنْهُمُ الصَّخْرَةُ، فَقَالَ الآخَرُ: اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ كَانَ لِي أَبَوَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ، فَكُنْتُ آتِيهِمَا كُلَّ لَيْلَةٍ بِلَبَنِ غَنَمٍ لِي، فَأَبْطَأْتُ عَلَيْهِمَا لَيْلَةً، فَجِئْتُ وَقَدْ رَقَدَا وَأَهْلِي وَعِيَالِي يَتَضَاغَوْنَ مِنَ الجُوعِ، فَكُنْتُ لاَ أَسْقِيهِمْ حَتَّى يَشْرَبَ أَبَوَايَ فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَهُمَا، وَكَرِهْتُ أَنْ أَدَعَهُمَا، فَيَسْتَكِنَّا لِشَرْبَتِهِمَا، فَلَمْ أَزَلْ أَنْتَظِرُ حَتَّى طَلَعَ الفَجْرُ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ مِنْ خَشْيَتِكَ فَفَرِّجْ عَنَّا، فَانْسَاحَتْ عَنْهُمُ الصَّخْرَةُ حَتَّى نَظَرُوا إِلَى السَّمَاءِ، فَقَالَ الآخَرُ: اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ كَانَ لِي ابْنَةُ عَمٍّ، مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ، وَأَنِّي رَاوَدْتُهَا عَنْ نَفْسِهَا فَأَبَتْ، إِلَّا أَنْ آتِيَهَا بِمِائَةِ دِينَارٍ، فَطَلَبْتُهَا حَتَّى قَدَرْتُ، فَأَتَيْتُهَا بِهَا فَدَفَعْتُهَا إِلَيْهَا، فَأَمْكَنَتْنِي مِنْ نَفْسِهَا، فَلَمَّا قَعَدْتُ بَيْنَ رِجْلَيْهَا، فَقَالَتْ: اتَّقِ اللَّهَ وَلاَ تَفُضَّ الخَاتَمَ إِلَّا بِحَقِّهِ، فَقُمْتُ وَتَرَكْتُ المِائَةَ دِينَارٍ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ مِنْ خَشْيَتِكَ فَفَرِّجْ عَنَّا، فَفَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُمْ فَخَرَجُوا "
پچھلے زمانے میں(بنی اسرائیل میں سے) تین آدمی کہیں راستے میں جارہےتھےکہ اچانک بارش نےانہیں آلیا ۔وہ تینوں پہاڑ کےایک کھوہ(غار) میں گھس گئے (جب وہ اندر چلے گئے ) توغار کامنہ بند ہوگیا۔اب تینوں آپس میں یوں کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ہمیں اس مصیبت سےاب توصرف سچائی ہی نجات دلائے گی۔بہتر یہ ہےکہ اب ہر شخص اپنے کسی ایسے عمل کو بیان کرکے دعا کرے جس کے بارے میں اسے یقین ہوکہ وہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کےلیے کیا تھا۔چنانچہ ایک نےاس طرح دعا کی ، اے اللہ ! تجھ کوخوب معلوم ہےکہ میں نےایک مزدور رکھا تھاجس نےایک فرق (تین صاع) چاول کی مزدوری پرمیرا کام کیا تھا لیکن وہ شخص (غصہ میں آکر ) چلا گیا اوراپنے چاول چھوڑ گیا۔ پھر میں نے اس ایک فرق چاول کولیا اوراس کی کاشت کی ۔ اس سے اتنا کچھ ہوگیا کہ میں نے پیداوار میں سے گائے بیل خریدلیے ۔ اس کےبہت دن بعد وہی شخص مجھ سے اپنی مزدوری مانگنے آیا۔ میں نے کہا کہ یہ گائے بیل کھڑے ہیں، ان کو لے جا۔ اس نے کہا کہ میرا توصرف ایک فرق چاول تم پر ہوناچاہیے تھا۔ میں نے اس سے کہا یہ سب گائے بیل لےجاکیونکہ اسی ایک فرق کی آمدنی ہے۔ آخروہ گائے بیل لے کر چلا گیا۔پس اے اللہ ! اگر توجانتا ہے کہ یہ ایمانداری میں نے صرف تیرے ڈرسے کی تھی توتو غار کامنہ کھول دے۔ چنانچہ اسی وقت وہ پتھر کچھ ہٹ گیا۔پھر دوسرے نےاس طرح دعا کی ۔ اے اللہ ! تجھے خوب معلوم ہےکہ میرے ماں باپ جب بوڑھے ہوگئے تومیں ان کی خدمت میں روزانہ رات میں بکریوں کادودھ لاکر پلایا کرتا تھا۔ایک دن اتفاق سےمیں دیر سے آیا تووہ سوچکے تھے۔ادھر میرے بیوی اوربچے بھوک سے بلبلارہے تھے لیکن میری عادت تھی کہ جب تک والدین کودودھ نہ پلا لوں لو، بیوی بچوں کونہیں دیتا تھامجھے انہیں بیدار کرنابھی پسند نہیں تھا اورچھوڑنا بھی پسند نہ تھا(کیونکہ یہی ان کا شام کا کھنا تھااور اس کےنہ پینے سےوہ کمزور ہوجاتے ) پس میں ان کا وہیں انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔پس اگر تیرے علم میں بھی میں نےیہ کام تیرے خوف کی وجہ سےکیا تھا توتوہماری مشکل دور کردے۔اس وقت وہ پتھر کچھ اورہٹ گیا او ر اب آسمان نظر آنے لگا۔ پھر تیسرے شخص نے یوں دعا کی، میری ایک چچا ذاد بہن تھی جومجھے سب سے زیادہ محبوب تھی۔میں نےایک بار اس سے صحبت کرنی چاہی ، اس نے انکار کیامگر اس شرط پر تیار ہوئی کہ میں اسے سواشرفی لا کر دے دوں ۔ میں نے یہ رقم حاصل کرنے کےلیے کوشش کی۔ آخر وہ مجھے مل گئی تومیں اس کےپاس آیا او ر وہ رقم اس کےحوالے کردی۔ اس نے مجھے اپنے نفس پرقدرت دے دی۔ جب میں اس کےدونوں پاؤں کےدرمیان بیٹھ چکا تواس نےکہا کہ اللہ سےڈر اورمہر کوبغیر حق کےنہ توڑ ۔میں ( یہ سنتے ہیں) میں نےیہ عمل تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا توتو ہماری مشکل آسان کردے ۔اللہ تعالیٰ نےان کی مشکل دور کردی اور وہ تینوں باہر نکل آئے ۔
صحیح البخاری:3465
تینوں نے دعا کی اور اپنا اپنا ایک ایک عمل اللہ کے حضور پیش کیا اللہ نے انکو اس مصیبت سے جان چھڑوا دی نکلادیا تو اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ بندہ اپنے نیک اعمال کا وسیلہ اللہ تعالى کے سامنے پیش کر سکتا ہےکوئی بھی بندے نے اپنی زندگی میں نیک عمل جو خالصتاً لوجہ اللہ تعالى کی رضا مندی کے لیے اللہ کو راضی کرنے کے لیے خالص نیت سے جو نیک اعمال کیے ہیں اپنی مشکل میں اللہ تعالى سے دعا مانگتے ہو ے اس عمل کو اللہ کے حضور پیش کرے کہ اللہ توں جانتا ہے میں نے یہ کام صرف تیرے لیے کیا اور میرا کوئی مقصد نہیں تھا سوائے تیری رضا مندی کے لحاظہ مجھے اس کرب سے اس مشکل اور مصیبت سے نجات دے دے۔
بزرگوں کا وسیلہ :
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اس کا بھی طریقہ کار سمجھایا عام طور پہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بزرگوں کا وسیلہ جائز ہی کوئی نہیں اور کچھ کہتے ہیں کہ بس بزرگوں کانام لیتے جاؤ ،فلاں بزرگ کے واسطے اللہ یہ کام کر دے اس کے وسیلے سے اور اس کے طفیل سے ،کئی لوگوں نے یہ طریقہ اپنایا ہوا ہے۔ لیکن نبی علیہ الصلاۃ والسلام کا طریقہ کار کیا تھا :
ایک نابینا صحابی آپ کے پاس آیا کہتا ہے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم اللہ سے دعا کیجئےاللہ تعالى میری بینائی لوٹا دے میری آنکھیں ٹھیک ہو جائیں میں بھی دیکھنے لگ جاؤں تو نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا اگر توں کہتا ہے تو پھر میں تیرے لیے دعا کر دیتا ہوں لیکن اگر توں صبر کرے تو یہ تیرے لیے بہتر ہے آخرت میں اللہ تعالى اجر دیں گے درجات بلند کریں گے کہنے لگا نہیں جی آپ دعا کر دیں تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اس کو کہا وضوکر دو رکعت نماز پڑھ اس نے وضو کیا دو رکعت نماز پڑھی پھر نبی علیہ الصلاۃ السلام نے اس کو سکھایا کہ توں اللہ سے دعا کر آپ نے وعدہ کیا کیا تھا کہ میں دعا کروں گا اگر توں کہے گا تو اور نبی علیہ الصلاۃ السلام اس کو کیا کہے رہے ہیں کہ توں دعا کر دعا کیا کرنی ہے اے اللہ تیرے نبی سمیت (إِنِّي أَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ) اے اللہ میں تیرے نبی صلى اللہ علیہ وسلم کے سمیت تیری طرف متوجہ ہوا ہوں لہذاجو دعا نبی صلى اللہ علیہ وسلم میرے لیے کر رہے ہیں جو سفارش میرے لیے کر رہے ہیں (فَشَفِّعْهُ فِيَّ) اے اللہ توں اس نبی کی شفاعت کو میرے حق میں قبول کر لے ۔
جامع الترمذی: 3895 ، سنن ابن ماجہ: 1385
یعنی نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے بھی دعا کی اور اس کو بھی کہا توں بھی دعا کر کہ جو دعا میں تیرے لیے کر رہا ہوں اللہ تعالى وہ دعا قبول کرےتو یہ ہے بزرگوں کے وسیلے کا طریقہ کار جو نبی علیہ الصلاۃ السلام نے سمجھایا اور سکھایا ہے کہ اللہ کے کسی نیک بندے ،کسی نیک بزرگ سے دعا کروائی جائے۔ وہ بندہ دعا کرے اور جو دعا کروا رہا ہے وہ بھی دعا مانگے اور کہے کہ اللہ !جو تیرے سے دعا مانگ رہا ہے میرے لیے، اللہ اس کی یہ دعا قبول کر لے۔ یہ بزرگوں سے،اولیاء سے، نیک لوگوں سے وسیلہ حاصل کرنے کا شرعی طریقہ کاراور یہی طریقہ صحابہ اکرام نے اپنایا ہے ۔
سیدنا عمر رضی اللہ تعالى عنہ کے دور میں قحط پڑا بارش نہ ہوئی۔ تو پہلے قحط سالی آتی تو نبی علیہ الصلاۃ السلام سے دعا کرواتے اب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم موجود نہیں ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالى عنہ نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے چچا کو ساتھ لیا عباس رضی اللہ تعالى عنہ کو اور ان سے دعا کروائی نبی علیہ الصلاۃ السلام کے چچا سے دعا کروائی بارش کے لیے اور خود بھی دعا کی کہتے ہیں (اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا) اے اللہ جب تک نبی صلى اللہ علیہ وسلم زندہ تھے تو ان کا وسیلہ ہم تیرے آگے پیش کرتے تھے اب وہ موجود نہیں ہیں (وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا) اب ہم اپنے بنی کے چچا کو تیرے سامنے بطور وسیلہ پیش کررہے ہیں تو لہذا (فَاسْقِنَا) تو ہمیں بارش دے دے اللہ تعالى نے دعا کو قبول کیا اور انھیں بارش دے دی قحط سالی ختم ہو گئی۔
صحیح البخاری:1010
تو سیدنا عمر رضی اللہ تعالى عنہ نے یہ جو طریقہ کار اختیار کیا ہے یہ انھوں نے عثمان ابن حنیف رضی اللہ تعالى عنہ وہ نابینا صحابی جس کا واقعہ میں نے ابھی آپ کو بتایا ہے اس کو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے جو طریقہ سمجھایا تھا عین اس طریقے پر عمل کیا نبی علیہ الصلاۃ السلام جب تک موجود تھے ان سے دعا کرواتے جب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے تو آپ کے بعد آپ کے چچا سے دعا کروائی ہے اور ساتھ کہا ہے اے اللہ پہلے ہم تجھے تیرے نبی کا وسیلہ دیتے تھے اب نبی کے چچا کا وسیلہ دے رہے ہیں یعنی وسیلہ دینے کا طریقہ کار کیا ہے کہ اس آدمی سے دعا کروائی جائے
یہ دو طریقے ہو گئے وسیلے کے نمبر ایک اپنے نیک اعمال کو اللہ کے حضور پیش کرنا رب کی عدالت میں رب کی بارگاہ میں اور دوسرا طریقہ کارکیا ہے کہ کسی نیک آدمی سے دعا کروانا ۔
اسمائے حسنى کا وسیلہ:
وسیلے کا تیسرا طریقہ کار یہ کہ اللہ رب العالمین کے جو نام ہیں صفاتی، اللہ کے بہت سارے نام ہیں ،اتنے نام ہیں کہ مخلوق میں سے کسی کو بھی سارے نہیں آتے ہاں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ان ناموں میں سے ننانوے نام اگر کوئی بند یاد کر لے تو جنت میں داخل ہو جائے گا اچھا وہ جو مشہور مشہور نام ہیں اللہ تعالى کے صفاتی نام انھیں بندہ سیکھے سمجھے اس کا معنى کیا ہے اس کا مفہوم کیا ہے اور اللہ تعالى سے دعا کرتے ہوئےاللہ تعالى کے اسمائے حسنى کا وسیلہ اللہ تعالى کو دے اللہ نے قرآن مجید میں کہا ہے (وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا) اللہ کے اسمائے حسنى ہیں اچھے اچھے نام ہیں ان ناموں کے ذریعے اللہ تعالى کو پکارو اللہ سے دعا مانگونام وہ تسبیح پھیرنے کے لیے نہیں ہیں، بلکہ کس لیے ہیں (فَادْعُوهُ بِهَا) ان ناموں کے ذریعے اللہ تعالى سے دعا کرو مثلا ًکسی کو رزق چاہیے تو کہے اللہ تو الرزاق ہے مجھے رزق عطاء کر ،الرزاق رزق دینے والا۔ کوئی آدمی مظلوم ہے اس پر ظلم ہو رہا ہے وہ اللہ سے دعا کرے اے اللہ توں غالب ہے تو قاھر ہے زبردست ہے مجھے ظالم کے ظلم سے نجات دلا۔ یعنی اللہ رب العالمین کے جو صفاتی نام ہیں ان ناموں کا وسیلہ اللہ کے سامنے پیش کیا جائے اور ان ناموں کے ذریعے اللہ تعالى سے دعا کی جائے کیونکہ اللہ تعالى نے خود اس کا حکم دیا ہے کہ (وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى) اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں (فَادْعُوهُ بِهَا) اللہ کو ان ناموں کے ساتھ پکارو ان ناموں کے ساتھ اللہ تعالى سے دعا مانگو ۔
یہ تین طریقے ہیں وسیلے کے جو کہ جائز اور مشروع وسیلہ ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے۔ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم بھی جب دعا کرتے تھے تو اللہ تعالى کے اسمائے حسنى کا وسیلہ اللہ کےسامنے پیش کرتے تھے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین بھی ایسے کیا کرتے تھے مثال کے طور پر بیماری کی دعا نبی علیہ الصلاۃ السلام نے سکھائی ہے ،صحیح بخاری(5742) وغیرہ میں موجود ہے (اللَّهُمَّ)اے اللہ (مُذْهِبَ الْبَأْسِ) بیماری کو تکلیف کو دور کرنے والے یہ (مُذْهِبَ الْبَأْسِ) اللہ تعالى کا وصف ہے (رَبَّ النَّاسِ) لوگوں کے رب ، یہ بھی اللہ کا وصف ہے رب ہونا(اشْفِ) شفاء دے (أَنْتَ الشَّافِي) کیونکہ توں ہی شفاء دینے والا ہے، یہ شافی ہونا بھی اللہ کا صفاتی نام ہے (لاَ شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ) تیری شفاء کے علاوہ کوئی اور شفاء نہیں ہے (شِفَاءً لاَ يُغَادِرُ سَقَمًا) ایسی شفاء دے کہ جس کے بعد بیماری باقی نہ رہے یہاں نبی علیہ الصلاۃ السلام نے اللہ کے اسمائے حسنى کا وسیلہ پیش کیا ہے ۔
اسی طرح سنن ابی داؤد (985) میں حدیث ہے ایک آدمی دعا کررہا تھا (اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّكَ أَنْتَ اللَّهُ الأَحَدُ الصَّمَدُ، الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ أَنْ تَغْفِرَ لِي ذُنُوبِي) اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کیوں اس لیے کہ توں وہ اکیلا واحد بےنیاز ذات ہے کہ جس نے نہ کسی کو جنم دیا ہے نہ اس کو کسی نے جنم دیا ہے اور نہ ہی اس کاكوئى ہمسر اور برابر ہم پلہ ہے دعا کیا کرتا ہوں مانگتا کیا ہوں تجھ سے کہ میرے گناہ معاف کردے۔
اس نے اللہ تعالى کے کتنے ہی اسمائے حسنى کا اللہ کو واسطہ دیا ہے وسیلہ پیش کیا اور دعا کیا کی کہ مجھے معاف کردے میرے گناہ بخش دے۔ یعنی یہ طریقہ کار نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین کا یہ ہے اور یہ وسیلے کا معروف اور جائز اور مشروع طریقہ کار ہے لہذا جو طریقہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے سکھایا اور سمجھایا ہے اس کو اپنایا جائےاور اپنی طرف سے گھڑے گئے لوگوں کے طریقہ کار ہیں اس سے اجتناب کیا جائے بھلے وہ کتنا ہی اچھا طریقہ ہو جس کو لوگوں نے ایجاد کیا ہے لیکن وہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے اچھا اور بہتر نہیں ہو سکتا (فَإِنَّ خَيْر الْهُدَى هُدَى مُحَمَّدٍ صلى اللہ علیہ وسلم)یقینا طریقوں میں سے بہترین طریقہ محمد عربی صلى اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے اللہ تعالى سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق دے۔
وما علینا الا البلاغ
-
الخميس AM 09:00
2024-10-10 - 103