اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
280
فتاوى
58
مقالات
188
خطبات

مادہ

مفقود الخبر کی بیوی کب تک انتظار کرے؟

سوال

 آج تقریبا ایک سال ہونے کو ہے میری ایک دوست کا خاوند مزدوری کرتا تھا وہ ایک دن گھر سے کام پہ گیا تو ابھی تک نہیں لوٹا۔  وہ کہتی ہے کہ میرے لیے اپنے ننھے بچوں سمیت گزارہ کرنا مشکل ہو رہا ہے کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہے۔ اسلام اس بارہ میں کیا رہنمائی کرتا ہے کہ مجھے کب تک اپنے خاوند کا انتظار کرنا ہوگا؟ کوئی نوے سال تک انتظار بتاتا ہے تو کوئی چار سال تک اور کوئی ایک سال تک۔ لیکن مہنگائی کے اس دور میں جب کوئی ذریعہ آمدن بھی نہ ہو اور  خاندان والے بھی اپنی غربت وافلاس کی بناء پر مالی مدد نہ کرسکتے ہوں اور گھر کی قیمتی اشیاء بھی آہستہ آہستہ بکتی جارہی ہوں۔ تو ایک عورت کیا کرے؟ قرآن وسنت کی روشنی میں دلائل کے ساتھ اس مسئلہ کا حل کردیں۔

الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب

مفقود الخبر یعنی وہ شخص جو گم ہو جائے اسکی بیوی کے پاس دو اختیارات ہیں۔ چاہے تو اسکے نکاح میں بیٹھی رہے اور اگر چاہے تو اسکے نکاح سے نکل جائے۔ کیونکہ خاوند کا غائب ہونا نکاح سے نکلنے کا معقول شرعی عذر ہے۔

اور نکاح سے نکلنے کے لیے وہ عدالت کی طرف رجوع کرے اور خلع یعنی فسخ نکاح کی درخواست دائر کرے۔ اسکے بارہ میں عدالت جو مناسب سمجھے گی فیصلہ کرے گی۔ یا تو اسے اسکا خاوند ڈھونڈ کر دے گی یا اسکا نکاح فسخ کر دے گی۔

یاد رہے کہ مفقود الخبر کی بیوی کے نکاح کا مسئلہ مفتی سے متعلق نہیں بلکہ قاضی سے متعلق ہے۔ قاضی اگر مناسب سمجھے تو اسے کچھ مدت تک انتظار کرنے کا حکم دے گا، اور اگر مناسب سمجھے گا تو اسکا نکاح جلدی ہی فسخ کر دے گا، ور اگر ممکن ہوا تو اسے اسکا خاوند تلاش کرکے کے دے گا کیونکہ وہ اس بات کی طاقت رکھتا ہے۔ اور قاضی جو بھی فیصلہ کرے گا شریعت نے اسے اختیار دیا ہے اسکا وہ فیصلہ ہی شرعی فیصلہ ہوگا۔ قاضی اگر نکاح فسخ کر دے تو عورت کہیں بھی نیا نکاح کر  سکتی ہے فسخ نکاح کی عدت (ایک حیض) گزارنے کے بعد۔ 

اور جب وہ نیا نکاح کرلے اور اسکے بعد اسکا پہلا خاوند بھی آ جائے تو وہ عدالت کے فسخ نکاح کے حکم کی وجہ سے اس عورت پہ حق نہیں رکھے گا۔ اور یہ عورت اپنے نئے خاوند کے ساتھ ہی پر سکون زندگی بسر کرے گی۔

جبکہ مفتی اگر عورت کو فتوى دے کہ وہ چار سال یا دس سال یا ایک سال انتظار کے بعد نکاح کر لے اور عورت ایسا ہی کر لے تو اس سے نہ تو پہلا نکاح ختم ہوتا ہے اور نہ ہی عورت کے لیے نیا نکاح کرنا درست ہوتا ہے کیونکہ پہلا نکاح قائم ہے اور وہ صرف مرد کے طلاق دینے اسکے فوت ہو جانے یا قاضی کے فسخ کرنے سے ہی ختم ہوتا ہے۔

اور اس صورت میں نئے خاوند، نکاح خواں، مفتی صاحب، اور خود اس عورت کے لیے جو مسائل کھڑے ہوتے ہیں وہ بھی کسی سے مخفی نہیں۔

یاد رہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا مفقود الخبر کی بیوی کو چار سال تک انتظار کا حکم دینا انکے صاحب سلطہ ہونے کی وجہ سے بالکل درست اور عین شرعی فیصلہ تھا۔ کیونکہ شریعت نے صاحب سلطہ کو یہ اختیار دیا ہے،سو وہ جو بھی فیصلہ کرے وہ درست ہی ہوگا۔ 

اور آج کے جدید کیمونیکیشن دور میں دنیا بھر میں ایک لمحہ کے اندر ہی اطلاعات پہنچ جاتی ہیں۔ اور عدالت قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیکورٹی ایجنسیوں کے ذریعہ گمشدہ شخص کے بارہ میں معلومات حاصل کرسکتی ہے۔ اور ان معلومات کی بنیاد پہ صحیح فیصلہ کرسکتی ہے۔ جبکہ مفتیان کرام ان سہولیات سے محروم ہیں! اور اسکے ساتھ ساتھ نکاح فسخ کرنے کا اختیار بھی نہیں رکھتے۔

خوب سمجھ لیں۔

 

هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم

  • الجمعة PM 08:46
    2022-01-21
  • 965

تعلیقات

    = 1 + 3

    /500
    Powered by: GateGold