اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
280
فتاوى
58
مقالات
188
خطبات

مادہ

ولی کی اجازت کے بغیر نکاح

سوال

میں ایک شخص کو 7 سال سے جانتی ہوں ۔ ہم دونوں ایک دوسرے  سے شادی کرنا چاہتے  تھے  اس کے لیئے ہم نے اپنے گھر والوں کو منانے کی بہت کوشش کی لیکن دونوں خاندان اس رشتے  سے بالکل نا خوش اور نا راض ہیں۔ ہم نے اس پر اپنے  والدین کو منانے کے لیئے ہر ممکن کوشش کی لیکن وہ کسی طور اس بات کی اجازت نہیں دیتے۔ میری اور اس شخص کی قربت اس حد تک بڑھ گئی کہ ہم زنا کے مرتکب ہو گئے (لیکن یہ بات میرے والدین سے مخفی ہے اور مخفی ہی رہے گی)۔لڑکی ہونے کی حیثیت سے میرے پاس اب کوئی چارہ نہیں کہ میں اس شخص کے سوا کسی اور سے شادی کروں۔ وہ میرے والدین سے متعدد بار میرا ہاتھ مانگنے آیا اور بہت منت سماجت کی مگر کوئی بات نہ بن سکی۔ میں نے والدین کی رضامندی کے بغیر نکاح کا فیصلہ کیا لیکن مجھے ایک دوست  نے جس کا تعلق مسلکِ اہلحدیث سے ہے، بتایا کہ ولی کے بغیر شریعت میں نکاح کی اجازت نہیں اور یہ بعض احادیث بھی دکھائی جیسے  لا نكاح إلا بولي رواه أبو داود۔ لیکن اسی دوست نے مجھے بتایا کہ  فقہ حنفی میں ولی کے بغیر نکاح کی اجازت ہے مگر رسول اللہ ﷺ کا فرمان اس کے خلاف ہے۔ اس لیئے میں کنفیوز  ہوں کہ میں کیا کروں ۔ کیا میں چھپ کر  یا والدین کی اجازت کے بغیر نکاح کر سکتی ہوں؟ برائے مہربانی قرآن و حدیث  سمیت مختلف فقہی مذاہب  اورفتاویٰ  ائمہ اہل السنۃ والجماعۃ  کے ساتھ میرے مسئلہ کا جواب عنایت فرمائیں۔ م-ش، کراچی

الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب

 

اولا:

والدین کی اجازت و رضا  صحت نکاح کے لیے شرط ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں :

لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ

ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے !

 [ جامع الترمذی أبواب النکاح باب ما جاء لانکاح إلا بولی (1101)]

اسی طرح نبی کریم ﷺ كاارشاد گرامی ہے :

 أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَإِنْ دَخَلَ بِهَا فَالْمَهْرُ لَهَا بِمَا أَصَابَ مِنْهَا فَإِنْ تَشَاجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ

 جو بھی عورت اپنے ولی کے بغیر نکاح کرے گی اسکا نکاح باطل ہو گا ، یہ بات آپ ﷺ نےتین مرتبہ ارشاد فرمائی پھر فرمایا کہ اگر کوئی عورت ایسا قدم اٹھالے اور وہ دونوں ازدواجی تعلقات بھی قائم کر بیٹھیں تو لڑکی کو اسکا حق مہر ادا کیا جائے گا ۔ اور اگر اولیاء جھگڑا کریں تو سلطان ہر اس عورت کا ولی ہے جسکا ولی نہ ہو ۔

[ سنن ابی داود کتاب النکاح باب فی الولی (2083)]

اسی طرح نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان ہے :

لَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، وَلَا تُزوَّجُ الْمَرْأَةُ نَفْسَها، فَإِنَّ الزَّانِيَةَ هِيَ الَّتِي تُنْكِحُ نَفْسَهَا

کوئی عورت کسی دوسری عورت کا نکاح نہ کروائے اور نہ ہی کوئی عورت اپنا نکاح خود کر لے ، کیونکہ زانیہ ہی اپنا نکاح خود کرتی ہے ۔

[سنن ابن ماجہ کتاب النکاح باب لانکاح إلا بولی (1882)]

اس بارہ میں ائمہ اربعہ یعنی امام مالک بن انس امام احمد بن حنبل ، امام شافعی اور امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ کا موقف بھی یہی ہے کہ ولی کی اجازت ورضا کے بغیر لڑکی کا نکاح نہیں ہوتا ۔ البتہ کچھ احناف ولی کی اجازت کے بغیر بھی لڑکی کے نکاح کو درست قرار دیتے ہیں ۔ جبکہ انکے امام صاحب کا موقف نہایت ہی واضح اور کتاب وسنت کے قریب تر ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :

احناف کے معروف علامہ انور شاہ کاشمیری لکھتے ہیں :

ومذهب أبي حنيفة أن رضى المُولّية مقدَّم عند تعارض الرِّضاءين، مع كونِها مأمورةً بتحصيل رِضى الولي، وكذا المُولَّى مأمورٌ بتحصيل رضائها، فلم يستبدَّ به واحدٌ منها، فإِنه أَمْرٌ خطيرٌ لا بد فيه من اجتماع الرضاءين.

"امام ابو حنیفہ کا مسلک ہے کہ دونوں (ولی اور لڑکی) کی پسند میں اختلاف کی صورت میں لڑکی کی پسند مقدم ہوگی ، تاہم عورت بھی اس امر کی پابند ہے کہ وہ ولی کی رضامندی حاصل کرے ، اسی طرح ولی کے لیے بھی عورت کی رضامندی حاصل کرنا ضروری ہے ، ان دونوں میں سے کسی کو بھی صرف اپنی ہی رائے منوانے پر اصرار کرنے کا حق نہیں ہے ، اس لیے کہ یہ معاملہ بہت اہم ہے ، جس میں دونوں کی رضا مندی کا اجتماع ضروری ہے ۔"

[فیض الباری جلد ۵ صفحہ ۱۵]

لہذا علمائے احناف کا مطلق طور پر لڑکی کے بغیر ولی نکاح کو جائز قرار دینا سراسر غلط ہے اور انکے اپنے امام صاحب کے موقف کے بھی خلاف ہے ۔ جیسا کہ ہم احناف کے علامہ انور شاہ کاشمیری سے یہ بات نقل کر آئے ہیں ۔ تو علمائے احناف جو کہ اپنے لیے تقلید امام کو واجب کہتے ہیں انہیں چاہیے کہ اس مسئلہ میں بھی اپنے امام کی ہی تقلید کر لیں ، اور امت میں اختلاف کا باعث نہ بنیں ، کیونکہ امام صاحب کا موقف جسے ہم نے نقل کیا ہے ، کتاب وسنت کے بالکل قریب ہے ۔

ثانیا:

نکاح کے لیے فریقین یعنی لڑکے اور لڑکی کا پاکدامن ہونا ضروری ہے ۔ زانی یا زانیہ کا نکاح نہیں ہوتا !۔

اللہ رب العزت کا فرمان ہے :

الزَّانِي لَا يَنكِحُ إلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ وَحُرِّمَ ذَلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ

زانی مرد زانیہ یا مشرکہ عورت سے ہی نکاح کرتا ہے ، اور زانیہ عورت زانی یا مشرک مرد سے ہی نکاح کرتی ہے، جبکہ یہ کام اہل ایمان پر حرام قرار دے دیا گیا ہے۔

[النور : 3]

یعنی عموما ایسا ہی ہوتا ہے کہ زانی اور زانیہ آپس میں نکاح کر لیتے ہیں ، لیکن شریعت اسلامیہ میں یہ کام جائز نہیں بلکہ حرام ہے ۔

اللہ تعالى نے صحت نکاح کے لیے مرد کے پاکدامن ہونے کی شرط لگائی ہے :

مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلاَ مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ

(نکاح کرنے والے) پاکدامن ہوں، کھلے عام بدکاری کرنے والے یا چھپ کر یارانے لگانے والے نہ ہوں ۔

[المائدة : 5]

اسی طرح صحت  نکاح کے لیے عورت کا پاک دامن ہونا بھی شرط ہے :

فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلاَ مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ

تو ان(عورتوں) سے انکے گھروالوں کی اجازت سے نکاح کرو، اور انہیں انکا حق مہر معروف طریقہ سے ادا کرو ، بشرطیکہ وہ (عورتیں) پاکدامن ہوں، کھلے عام بدکاری کرنے والیاں یا چھپی دوستی لگانے والیاں نہ ہوں۔

[النساء : 25]

مذکورہ بالا دلائل کی رو سے دو باتیں واضح ہوئیں کہ

1۔ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح باطل ہے۔

2۔ زانی یا زانیہ کا نکاح نہیں ہوسکتا ، نہ ہی آپس میں اور نہ ہی کسی دوسرے کے ساتھ۔

لہذا

سب سے پہلے تو آپ پر لازم ہے کہ زنا سے توبہ تائب ہو جائیں ، اللہ تعالى سے سچے دل سے معافی مانگیں ، اور آئندہ زنا کے قریب بھی نہ جائیں ۔ آپکا اس شخص سے ملاقات کرنا ، گپ شپ کرنا ، اور اسکے سامنے آنا ، اسکے بارہ میں سوچنا، یا اسکے ساتھ  کسی بھی طور پر رابطہ رکھنا، سبھی زنا کے اقدامات میں سےہے ۔ ان تمام تر کاموں سے پرہیز کیجئے!

جب آپ مکمل طور پر ان کاموں سے تائب ہو جائیں گی تو اللہ تعالى آپکے لیے اس سے بہتر رشتہ مہیا فرما دے گا ۔  دنیا میں ابھی بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو آپ سے نکاح پر آمادہ ہوں اور آپکے لیے سکون وراحت کا باعث بنیں۔

پھر یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے ، وہ ایک غلطی کروانے کے بعد  اسی غلطی کو بنیاد بنا کر مسلسل غلطیاں کروانا چاہتا ہے، اسکی مکاری وعیاری سے بچیں ، اور والدین جہاں راضی ہوتے ہیں اس رشتہ کو قبول کر لیں، اس میں یقینا خیر ہی ہوگی۔

هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم

  • الجمعة PM 09:10
    2022-01-21
  • 1987

تعلیقات

    = 4 + 9

    /500
    Powered by: GateGold