میلنگ لسٹ
موجودہ زائرین
اعداد وشمار
تلاش کریں
مادہ
خاوند کی غیر موجودگی میں عدالت کا نکاح فسخ کرنا
سوال
ہمارے گاؤں کی ایک عورت نے خلع کے لیے عدالت سے رجوع کیا، عدالت کے بار بار طلب کرنے باوجود شوہر پیش نہ ہوا۔ جس پر عدالت نے یکطرفہ طور پر بیوی کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے نکاح فسخ کر دیا، کیا عدالت کا فیصلہ قران و سنت کی نصوص کے مطابق ہے؟
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
عدالت کا یہ فیصلہ کتاب وسنت کے عین مطابق ہے ۔
اللہ تعالى نے قاضی کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار دیا ہے، اور اگر کسی عورت کا کوئی بھی ولی نہ ہو تو بھی صاحب سلطہ کو اسکا ولی بنایا ہے۔ اور نکاح فسخ کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ فسخ نکاح کے فیصلہ کے وقت شوہر یا ولی موجود ہو ۔ نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم بھی خاوند کی عدم موجود گی میں نکاح فسخ کرنے کا فیصلہ دے دیا کرتے تھے :
سیدنا عبد الرحمن بن یزید بن جاریہ اور مجمع بن یزید بن جاریہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
فَإِنَّ خَنْسَاءَ بِنْتَ خِذَامٍ أَنْكَحَهَا أَبُوهَا وَهِيَ كَارِهَةٌ فَرَدَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ
یعنی خنساء بنت خذام انصاریہ رضی عنہا کا نکاح انکے والد نے کر دیا تھا جبکہ وہ اسے ناپسند کرتی تھی تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو رد فرما دیا تھا
[صحیح بخاری کتاب الحیل باب النکاح (6969)]
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
أَنَّ جَارِيَةً بِكْرًا أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ «أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ كَارِهَةٌ، فَخَيَّرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ».
ایک کنواری لڑکی نبی صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے بتایا کہ اسکے والد نے اسکی شادی ایسی جگہ کر دی ہے جہاں وہ پسند نہیں کرتی ، تو نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دے دیا۔
سنن أبی داود : 2096
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-
السبت AM 10:50
2022-01-22 - 910