اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
280
فتاوى
58
مقالات
188
خطبات

مادہ

حمل ضائع ہونے کی صورت میں نفاس کی مدت ؟

سوال

 اگر کسی خاتون کا حمل 5 ہفتے بعد خود بخود خون لوتھڑوں کی شکل میں خارج ہو تو اور ڈاکٹر حمل ضائع کرنے کی مزید دوائی دیں اور ایک ہفتے بعد خون آنا کم ہو جائے تو اُس عورت کے نماز روزے کا کیا حکم ہے جبکہ خون آنا بالکل رُک جائے۔  اور کوئی عورت اسی حالت میں سرجری سے حمل ضائع کروائے تو اُس کے لیے کیا حکم ہے؟

الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب

حمل ٹھہر جانے کے بعد اسے کسی بھی صورت ضائع کروانا شرعا منع ہے۔ ہاں اگر حمل خود ہی کسی بیماری کی وجہ سے ساقط  ہو جائے تو رحم کی مکمل صفائی کے لیے ادویات وغیرہ کا استعمال کیا جاسکتا ہے تاکہ حمل کی باقیات رحم  میں نہ رہ جائیں ، وگرنہ رحم کی مختلف بیماریاں پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔

اور حمل ساقط ہونے کے بعد جب تک خون آتا رہے اس وقت تک عورت نہ نماز ادا کرے نہ روزہ رکھے ۔ یہ خون نفاس کا خون کہلاتا ہے۔ اسکے وہی احکام ہیں جو حیض (ماہواری) کے احکامات ہیں۔ اور جب یہ خون بند ہو جائے تو اسکے بعد وہ غسل کرے اور نماز روزہ کی ادائیگی کرے۔

نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے۔ لیکن کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید چالیس دن پورے کرنا ضروری ہیں ،خواہ خون پہلے ہی بند ہو جائے۔ لیکن انکا یہ نظریہ درست نہیں۔ نفاس کا تعلق خون کے بہاؤ سےہے۔ جب تک خون جاری رہے گا نفاس کے ایام شمار ہونگے اور جب خون بند ہو جائے گا تو عورت پہ غسل کرنا اور نماز ادا کرنا فرض ہو جائے گا۔

هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم

  • السبت PM 12:16
    2022-01-22
  • 978

تعلیقات

    = 3 + 3

    /500
    Powered by: GateGold