اعداد وشمار
مادہ
وضو میں مضمضۃ اور استنشاق کا علیحدہ ہونا
سوال
  السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،  عن عبد الله بن زيد بن عاصم الأنصاري ، - وكانت له صحبة - قال : قيل له : " توضأ لنا وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم : فدعا بإناء فأكفأ منها على يديه فغسلهما ثلاثا ، ثم أدخل يده فاستخرجها فمضمض ، واستنشق من كف واحدة ففعل ذلك ثلاثا ، ثم أدخل يده فاستخرجها فغسل وجهه ثلاثا ، ثم أدخل يده فاستخرجها فغسل يديه إلى المرفقين مرتين مرتين ، ثم أدخل يده فاستخرجها فمسح برأسه فأقبل بيديه وأدبر ، ثم غسل رجليه إلى الكعبين ، ثم قال هكذا كان وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم " وحدثني القاسم بن زكريا ، حدثنا خالد بن مخلد ، عن سليمان هو ابن بلال ، عن عمرو بن يحيى ، بهذا الإسناد نحوه ولم يذكر الكعبين وحدثني إسحاق بن موسى الأنصاري ، حدثنا معن ، حدثنا مالك بن أنس ، عن عمرو بن يحيى ، بهذا الإسناد وقال : مضمض واستنثر ثلاثا ولم يقل : من كف واحدة۔ ’’عبداللہ بن زید بن عاصم انصاری صحابی  سے کسی نے عرض کیا کہ ہمارے لئے وضو کرو نبی ﷺ کے وضو کی طرح، انہوں نے پانی کا برتن منگوایا اور برتن کو جھکا کر اس سے پانی اپنے دونوں ہاتھوں پر ڈالا، پس ان کو تین بار دھویا۔ پھر برتن میں ہاتھ ڈالا اور باہر نکال اس سے کلی کی اور ناک صاف کیا ایک ہاتھ سے اور اسی طرح تین بار کیا۔ پھر برتن میں ہاتھ ڈال کر پانی لیا اور اپنے چہرہ کو تین بار دھویا۔ پھر برتن میں ہاتھ ڈال کر پانی لیا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دو دو مرتبہ دھویا۔ پھر برتن سے ہاتھ تر کر کے سر کا مسح کیا اس طرح کہ دونوں ہاتھوں کو آگے سے پیچھے کو لے گئے اور پھر پیچھے سے آگے کو لائے۔ پھر دونوں پاؤں ٹخنوں سمیت دھوئے۔ پھر فرمایا نبی ﷺ کا وضو اسی طرح تھا۔ ایک راوی نے یہی حدیث بیان کرتے ہوئے کلی کرنے اور ناک صاف کرنے میں ایک ہی ہاتھ کا تذکرہ نہیں کیا۔ ‘‘ (صحيح مسلم، كتاب الطهارة، باب في وضوء النبي صلى الله عليه وسلم، ح: 235) ایک عالم صاحب نے انڈر لائن الفاظ سے یہ دلیل پکڑی ہے کہ وضو میں مضمضۃ اور استنشاق علیحدہ علیحدہ بھی جائز ہے۔ کیا ان صاحب کا ان الفاظ سے دلیل پکڑنا صحیح ہے؟
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
ہر گز نہیں! کیونکہ عدم ذکر عدم ثبوت کو مستلزم نہیں ہوتا ہے۔ مثلاً: اسی حدیث میں بسم اللہ پڑھنے، ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرنے اور داڑھی کا خلال کرنے کا ذکر بھی نہیں ہے ۔تو کیا ان امور کو ترک کردینا بھی جائز ہوگا ؟
جبکہ ان تمام تر کاموں کے کرنے کا حکم رسول اللہ ﷺنے صادر فرمایا ہے :
بسم اللہ کے بارے میں فرمایا:
« تَوَضَّئُوا بِسْمِ اللَّهِ»
’’اللہ کا نام لے کر وضو کرو۔ ‘‘
(سنن النسائي: 78)
دوسری حدیث میں فرمایا:
«لَا وُضُوءَ لِمَنْ لَمْ يَذْكُرْ اسْمَ اللَّهِ تَعَالَى عَلَيْهِ»
’’جو وضو کرتے وقت اللہ کا نام نہیں لیتا، اس کا کوئی وضو نہیں۔ ‘‘
(سنن أبی داود: 101)
انگلیوں کے درمیان خلال کے بارے میں فرمایا:
«إِذَا تَوَضَّأْتَ فَخَلِّلْ بَيْنَ أَصَابِعِ يَدَيْكَ وَرِجْلَيْكَ»
’’جب وضو کرو تو اپنے ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرو۔ ‘‘
(سنن الترمذي: 39)
داڑھی کے خلال کے بارے میں فرمایا:
«هَكَذَا أَمَرَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ»
’’میرے رب نے مجھے اسی طرح داڑھی کا خلال کرنے کا حکم دیا ہے۔‘‘
(سنن أبي داؤد: 145)
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-     
الاحد   AM  10:26   
 2022-01-23
- 1161





