اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
280
فتاوى
58
مقالات
188
خطبات

مادہ

جہنم کہاں ہے اور روح کہاں لوٹتی ہے؟

سوال

محترم شیخ صاحب ایک آیت  اور دو احادیث کی صحیح تفسیر و شرح جاننی ہے۔کفار  کی روح سے متعلق کہا گیا ہے کہ اس کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے الفاظ لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ  ہیں ڈاکٹر عثمانی صاحب کے مقلدین کہتے ہیں اس سے مراد جنت کے دروازے ہیں کیونکہ جنت کے دروازوں کے لئے بھی شَهْرُ رَمَضَانَ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ آیا ہے یعنی اس سے پچھلی حدیث میں فُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ  کے الفاظ جنت کے دروازوں کے لئے استعمال ہوئے ہیں تو اس آیت کے ان الفاظ کا مطلب بھی جنت کے دروازے ہے جہنم کے دروازے یا  آسمان  کے دروازے مراد نہیں ہیں جبکہ ابن ماجہ کی حدیث میں اس آیت کی تفسیر میں کفار کی ارواح کو واپس قبر کی طرف لوٹا دینے کا ذکر ہے اور ان کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جانے کا ذکر ہے ۔اس حدیث کو وہ لوگ قرآن کے خلاف قرار دیتے ہیں۔

الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب

عثمانیوں کے اس اعتراض کی بنیاد جہنم کا آسمان پر ہونا ہے۔ جبکہ یہ بنیاد ہی باطل ہے! انہیں کہیں کہ پہلے جہنم کا آسمان پر ہونا ثابت کریں، پھر آگے بات کریں!

جنت آسمانوں میں ہے اس لیے جنت میں داخلہ کے لیے آسمانوں کے دروازوں کا کھلنا اور جنت کے دروازوں کا کھولنا ضروری ہے ۔ جبکہ جہنم زمین میں ہے۔

اللہ ﷯ کا فرمان ذی شان ہے :

ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ 

پھر ہم نے اسے  نیچوں میں سے سب سے نیچے لوٹا دیا۔

[التين : 5]

اس آیت مبارکہ سے جہنم کا نیچے ہونا معلوم ہوتا ہے۔

رسول الله ﷺ کافر کا انجام ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

حَتَّى يُنْتَهَى بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيُسْتَفْتَحُ لَهُ، فَلَا يُفْتَحُ لَهُ "، ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: {لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ} [الأعراف: 40] فَيَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: " اكْتُبُوا كِتَابَهُ فِي سِجِّينٍ فِي الْأَرْضِ السُّفْلَى، فَتُطْرَحُ رُوحُهُ طَرْحًا ". ثُمَّ قَرَأَ: {وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللهِ، فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ} [الحج: 31] " فَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ

حتى کہ اسے آسمان دنیا تک لیجایا جاتا ہے ، اسکے لیے دروازہ کھلوایا جاتا ہے تو کھولا نہیں جاتا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : {لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ} انکے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے اور نہ وہ جنت میں داخل ہونگے حتى اونٹ سوئی کے سوراخ میں داخل ہو جائے۔[الأعراف: 40] اللہ﷯ فرماتے ہیں اسکا اندارج سجین میں کردو نچلی زمین میں، تو اسکی روح کو زور سے پھینک دیا جاتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: {وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللهِ، فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ} اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے تو گویا وہ آسمان سے گرا ، تو اسے پرندوں نے اُچک لیا یا اسے ہوا ہی کسی دور جگہ لے گری۔[الحج: 31] پھر اسکی روح اسکے بدن میں  لوٹا دی جاتی ہے۔

مسند احمد:18534

اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ

  • دروازہ آسمان دنیا کا نہیں کھولا جاتا اور یہی آیت سے مراد ہے۔
  • اور یہ بھی ثابت ہوا کہ کافر کا اندراج سجین میں کیا جاتا ہے کہ اسے نچلی زمین میں رکھا جائے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہنم آسمانوں پر نہیں بلکہ نچلی زمین میں ہے۔
  • اور اللہ تعالى کے فرمان "انکے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے" سے بھی جہنم کا آسمانوں پر نہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔

سیدنا ابو ہریرہ ﷜ فرماتے ہیں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے کہ اچانک کسی چیز کے گرنے کی آواز سنی تو نبیﷺ نے فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ یہ کیا ہے؟ ہم نے کہا اللہ ﷯ اور اسکے  رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

«هَذَا حَجَرٌ رُمِيَ بِهِ فِي النَّارِ مُنْذُ سَبْعِينَ خَرِيفًا، فَهُوَ يَهْوِي فِي النَّارِ الْآنَ، حَتَّى انْتَهَى إِلَى قَعْرِهَا»

یہ پتھر تھا ، جسے ستر سال قبل جہنم میں پھینکا گیا ،تو وہ اب تک جہنم میں گرتا رہا حتى کہ اسکے پیندے میں پہنچ گیا۔

صحیح مسلم: 2844

اس صحیح حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جہنم زمین میں ہے، کیونکہ یہ آواز زمین پہ سنی گئی ، جسے رسول اللہ ﷺ نے بھی سماعت فرمایا اور آپ کے اصحاب نے بھی۔

سیدنا عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

إِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاءِ ، وَإِنَّ النَّارَ فِي الْأَرْضِ

بلا شبہ جنت آسمان میں ہے اور جہنم زمین میں ہے ۔

مستدرک حاکم : 8698

اوریہ روایت حکما مرفوع ہے۔

تنبیہ:

اولا: جن روایات میں یہ ذکر آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے معراج کی رات جنت اور جہنم کو دیکھا تویاد رہے کہ ان روایات میں یہ ذکر نہیں کہ جہنم کو آسمانوں میں دیکھا!

البتہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں جہنم کے عذاب کو زمین پہ دیکھنے کا ذکر موجود ہے:

رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ رَجُلَيْنِ أَتَيَانِي فَأَخَذَا بِيَدِي، فَأَخْرَجَانِي إِلَى الأَرْضِ المُقَدَّسَةِ، فَإِذَا رَجُلٌ جَالِسٌ، وَرَجُلٌ قَائِمٌ، بِيَدِهِ كَلُّوبٌ مِنْ حَدِيدٍ

میں نے رات کو (خواب میں) دو آدمیوں کو دیکھا، وہ دونوں میرے پاس آئے اور مجھے ارض مقدسہ کی طرف لے گئے، تو (میں نے دیکھا کہ) ایک آدمی بیٹھا ہوا ہے اور ایک کھڑا ہے اسکے ہاتھ میں لوہے کے آنکس (درانتی کی طرح مڑے ہوئے چھوٹے چھُرے) ہیں ..... الخ

صحیح البخاری: 1386

اس طویل حدیث میں مختلف لوگوں کے عذاب کا ذکر ہے ، ہم نے اسکا ابتدائی حصہ ذکر کرنے پہ اکتفاء کیا ہے کیونکہ ہمارا مستدل اس میں موجود ہے کہ یہ عذاب نبی مکرم ﷺ نے سرزمین مقدس میں ہوتے دیکھا ہے۔ جس سے جہنم کے زمین پر ہونے کا واضح ثبوت ملتا ہے۔ اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷑ نے جہنم کو زمین میں دیکھا ہے۔   معراج کی رات بھی آپ ﷺ کو ارض مقدسہ کی طرف لیجایا گیاتھا، تو ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ نے معراج کی رات بھی جہنم کو سرزمین مقدس میں دیکھا ہو۔

 ثانیا: روایات میں "آسمان" مرئی کا محل اور ظرف نہیں بلکہ دیکھنے والے کا ہے۔ جنت اور جہنم کو تو نبی مکرم ﷺ نے زمین پہ رہتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ جیسا کہ احادیث سے واضح ہے۔

رہی یہ بات کہ منکرین حدیث مرنے کے بعد روح کے اسی جسم میں لوٹنے کا انکار کرتے ہیں ۔ اور سمجھتے ہیں کہ یہ عقیدہ رکھنا قرآن کے بر خلاف ہے ۔ اور اسکی دلیل کےطور پر وہ یہ قرآنی آیت پیش کرتے ہیں :

وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ

اور انکے پیچھے ایک آڑ ہے اس دن تک جس دن وہ اٹھائے جائیں گے ۔

(المؤمنون:۱۰۰)

اور یہ آیت پیش کرکے کہتے ہیں کہ چونکہ روح وبدن کے مابین قیامت تک آڑ ہے لہذا قیامت سے قبل روح بدن میں داخل نہیں ہوسکتی ۔ اور اس ضمن میں وہ سنن ابی داود کی حدیث۴۷۵۳ جو کہ مسند احمد ۱۸۵۳۴ میں مفصلا ذکر ہوئی ہے ، اسکا انکار کرتے ہیں کیونکہ اس میں واضح الفاظ موجود ہیں کہ مرنے والے کی روح اسکے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے ۔ اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ آسمانوں میں کوئی قبر یا برزخ ہے جہاں روحوں کو نئے بدن دے کر انہیں ثواب یا عذاب دیا جاتا ہے ۔

لیکن اللہ تعالى نے کتاب عزیز قرآن مجید فرقان حمید کی یہ خوبی رکھی ہے کہ کوئی بھی باطل پرست اسکی آیات بینات سے اپنا باطل نظریہ ثابت نہیں سکتا۔ اور یہی معاملہ یہاں ہے ۔ اک ذرا غور کرنے سے معاملہ صاف ہو جاتا ہے کہ یہ آیات انکے موقف کے خلاف ہیں ، انکے حق میں نہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں :

اللہ کا فرمان ہے :

حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (100)

حتى کہ جب ان میں سے کسی ایک کو موت آتی ہے تو وہ کہتا ہے اے رب مجھے لوٹا دو ۔ تاکہ میں جو چھوڑ آیا ہوں اس میں کوئی نیک عمل کرلوں، ہرگز نہیں یہ تو ایک بات ہے جو وہ کہنے والا ہے ، اور انکے پیچھے اس دن تک جس دن وہ اٹھائے جائیں گے ، ایک پردہ ہے ۔

المؤمنون: 99-100

ان آیات بینات پر غور فرمائیں کہ اللہ تعالى فرما رہے ہیں "جب ان میں سے کسی ایک کوموت آتی ہے" تو جسے موت آرہی ہے وہ مرنے سے قبل "روح وجسد کا مجموعہ ہے" نہ کہ صرف بدن یا صرف روح !۔ اور پھر فرمایا کہ "وہ کہتا ہے" اب اختلاف یہاں ہے کہ کہنے والا کون ہے؟ روح کہہ رہی ہے یا روح وجسد کا مجموعہ ؟! ادنی تأمل سے بھی یہ بات سمجھ آ جاتی ہے کہ یہاں "قال" کا مرجع ہے "أحدھم" اور وہ بالاتفاق روح وبدن کا مجموعہ ہے نہ کہ صرف روح ۔ کیونکہ زندہ انسان روح وجسم کا مرکب ہوتا ہے ۔ تو اس کا صاف معنى بنتا ہے کہ مرنے کے بعد وہی روح وجسد کا مجموعہ جسے موت آئی تھی اللہ سے  درخواست کرتا ہے کہ مجھے لوٹا دیجئے ۔ تو جب مرنے کے بعد کہنے والا بھی روح وجسد کا وہی مجموعہ ہے جسے موت آئی تھی تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد مرنے والے کی روح اسکے بدن میں لوٹا دی جاتی ہے تبھی تو وہ روح وجسد کا مجموعہ اللہ کے حضور عرض گداز ہوتا ہے ۔ کیونکہ اللہ نے یہ نہیں فرمایا "قال روحہ ربی ارجعون" بلکہ فرمایا ہے "قال رب ارجعون"...اور روح کو بدن سے جدا کرنے کی یہاں کوئی دلیل موجودنہیں ہے ۔ کیونکہ قال کا مرجع ہی روح وجسد کا مجموعہ ہے ۔ فتدبر !

پھر فرمایا : وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ تو یہاں بھی ورائہم کا مرجع وہی احدھم ہی ہے ۔ جسکا معنى صاف ظاہر ہے کہ روح وجسد کے مجموعہ اور فیما ترکت کے مابین ایک آڑ ہے، نہ کہ روح وجسد کے درمیان ۔ کیونکہ اللہ تعالى نے ومن وراء أرواحھم یا ومن وراء اجسادھم یا ومن بین ارواحھم واجسادھم نہیں فرمایا ۔ اور یہی بات حدیث نبوی میں ذکر ہوئی ہے "فتعاد روحہ فی جسدہ "

خوب سمجھ لیں۔

هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم

  • السبت PM 02:45
    2022-01-15
  • 2254

تعلیقات

    = 3 + 4

    /500
    Powered by: GateGold