اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
280
فتاوى
58
مقالات
188
خطبات

مادہ

لڑکی کی اجازت کے بغیر نکاح

سوال

ایک لڑکی جس کی شادی طے کر دی گئی تھی اور وہ سوات کی رہنے والی ہے وہ اپنے چچا کے گھر کراچی میں بطور مہمان ٹھہری ہوئی تھی کہ اس کے والد نے اس کو بتائے بغیر اس کا نکاح اپنی ذمہ داری پر کر دیا اور اسے فون وغیرہ پر بھی کوئی اطلاع نہیں دی  برائے کرم بتائیے یہ نکاح صحیح ہے؟

الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب

لڑکی اگر ولی کی اجازت كے بغیر نکاح کرے تو نکاح باطل ہوتا ہے ۔ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهَا، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ

جو بھی عورت اپنے اولیاء کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اسکا نکاح باطل ہے۔

سنن أبی داود: 2083

نیز فرمایا:

لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ

ولی (کی اجازت ) کے بغیر نکاح نہیں۔

سنن أبی داود: 2085

لیکن ولی اگر لڑکی کی اجازت و رضا کے بغیر اسکا نکاح کردے تو نکاح درست ہوتا ہے۔ البتہ لڑکی کو قاضی اختیار دے گا کہ وہ اگر اس نکاح کو قبول کر لے تواسے برقرار رکھا جائےگا اور اگر اس پہ راضی نہ ہو تو نکاح فسخ کر دیا جائے  گا۔

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

أَنَّ جَارِيَةً بِكْرًا أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَتْ أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ كَارِهَةٌ؟ فَخَيَّرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

ایک کنواری لڑکی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی کہ  اس کے والد نے اس کا نکاح کر دیا ہے مگر وہ اس کو ناپسند کرتی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کو اختیار دیا کہ وہ اس نکاح کو باقی رکھے یا ختم کر دے۔

(سنن ابو داؤد:2096)

 

البتہ اولیاء کو یہ تاکید کی گئی ہے کہ وہ نکاح سے قبل لڑکی کی رضامندی معلوم کرلیں۔ رسو ل الله صلى الله علیہ وسلم کا فرمان ہے:

لاَ تُنْكَحُ الأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلاَ تُنْكَحُ البِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ

شوہر دیدہ عورت کا نکاح اسکے مشورے کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری لڑکی کا نکاح اسکی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔

صحیح البخاری: 5136

تاہم اگر اولیاء عورت کی اجازت ورضا کے بغیر نکاح کر دیں تو نکاح منقعدہ ہوجاتا ہے کہ جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ والی روایت میں نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے ولی کے منعقد کردہ نکاح کو باطل قرار نہیں دیا بلکہ اسے درست قرار دیتے ہوئے عورت کو اختیار دیا ہے کہ  وہ چاہے تو اس نکاح کو فسخ کر سکتی ہے۔

صورت مسئولہ میں  لڑکی کے والد نے اسکا نکاح کسی سے کر دیا ہے تو یہ نکاح بالکل درست ہے۔ البتہ لڑکی اگر اس نکاح کو قبول نہیں کرنا چاہتی تو وہ عدالت سے رجوع کرکے یہ نکاح فسخ کروا سکتی ہے۔

 

هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم

  • الاحد PM 04:05
    2022-01-30
  • 2177

تعلیقات

    = 9 + 9

    /500
    Powered by: GateGold