اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
280
فتاوى
58
مقالات
188
خطبات

مادہ

مال موروثہ سے بے ضابطہ مضاربت

سوال

والدہ کے حکم پر والد کے ترکہ 9 لاکھ سے 2004ء میں کاروبار شروع کیا جس میں دو بہنیں اور تین بھائی (سعد، معاذ، شہباز) شریک تھے۔2009ء تک اکیلےشہباز نے کاروبار کیا، اور گھر کے اخراجات اسی سے نکلتے رہے۔اس وقت تک رأس المال 9 لاکھ سے بڑھ کر 25 لاکھ ہو چکا تھا۔پھر والدہ نے معاذ کو بھی شہباز کے ساتھ کام پہ بھیجنا شروع کر دیا ، 2015ء تک معاذ کام سیکھتا رہا اور بھائی کا معاون رہا ، معاذ نے اپنے کام کے عوض کوئی مقرر وظیفہ نہیں لیا، مشترکہ کھاتہ ہی چلتا رہا۔یہ کاروبار 60 لاکھ تک پہنچ گیا۔ اب  معاذ کام  مکمل طور پہ سیکھ چکا تھا۔ اسی سال والد کے ترکہ کی زمین سے جس کے لیے شہباز کیس لڑتا رہا 67 لاکھ حاصل ہوئے۔ جن میں سے والدہ کی ہدایت کے مطابق 24 لاکھ بہنوں کو دے دیا گیا، اور 10 لاکھ سعد کو ملا جبکہ 5 لاکھ معاذ نے وصول کیا اور اسکا بقیہ 5 لاکھ کاروبار میں لگایا گیا، اسی طرح والدہ کا حصہ 9لاکھ بھی کاروبار میں شامل ہوا اوربقیہ 14لاکھ شہباز کا بھی۔ والدہ کے حکم پر سعد اور دو بہنوں کا حساب بے باک کرکےانکا کاروباری حصہ شہباز نے لے لیا۔اب کاروبار میں شہباز ، معاذ اور والدہ کا حصہ رہ گیا جو آج تک جاری ہےاور کاروبار اڑھائی کروڑ تک پہنچ چکا ہے۔ دریں صورت موجودہ راس المال میں کس کا کتنا حصہ بنے گا۔ افیدونا ماجورین۔

الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب

صورت مسئولہ میں شہباز اپنے یتیم بہن بھائیوں کا کفیل اور انکے میراث کے حصہ میں مضارب ہے۔ شریعت اسلامیہ نے یتیموں کی کفالت کرنے اور انکے مال کی حفاظت کرنے پہ بڑا ثواب رکھا ہے اور یتامى کا مال کھانے پہ سخت وعید سنائی ہے۔

سیدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم  نےاپنی شہادت والی انگلی اور درمیانی انگلى کے درمیان معمولی سا فاصلہ رکھ کر اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

أَنَا وَكَافِلُ اليَتِيمِ فِي الجَنَّةِ هَكَذَا

میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں ایسے ہونگے۔

صحیح البخاری: 6005

لیکن یتیم کے مالی معاملات کوسنبھالنا مشکل کام ہے اسی لیے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ابو ذر رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

«يَا أَبَا ذَرٍّ إِنِّي أَرَاكَ ضَعِيفًا، وَإِنِّي أُحِبُّ لَكَ مَا أُحِبُّ لِنَفْسِي فَلَا تَأَمَّرَنَّ عَلَى اثْنَيْنِ وَلَا تَوَلَّيَنَّ مَالَ يَتِيمٍ»

اے ابو ذر! میں تجھے کمزور سمجھتا ہوں، اور تیرے لیے بھی وہی پسند کرتاہوں جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں، لہذا کبھی بھی دو آدمیوں پہ امیر نہ بننا اور نہ ہی یتیم کے مال کا ذمہ دار بننا۔

سنن أبی داود: 2868

اللہ سبحانہ وتعالى  نے  بھی یتیموں کے مال میں صرف احسن انداز میں تصرف کی اجازت دی ہے:

وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ 

اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ، مگر احسن انداز سے۔

سورة الأنعام: 152 ، سورة الإسراء : 34

اللہ تعالى نے یتیموں کا مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر کھا جانے کو بہت بڑا گناہ قرار دیا ہے:

وَآتُوا الْيَتَامَى أَمْوَالَهُمْ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَهُمْ إِلَى أَمْوَالِكُمْ إِنَّهُ كَانَ حُوبًا كَبِيرًا

اور یتیموں کو انکے اموال دو، اور خبیث کو طیب کے بدلے نہ لو، اور ان (یتیموں) کے اموال اپنے اموال کے ساتھ ملا کر کھا نہ جاؤ، یقینا یہ بہت بڑا گناہ ہے۔

سورة النساء:2

إنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا

یقینا وہ لوگ جو یتیموں کا مال ظلم سے کھا جاتے ہیں، و ہ تو اپنے پیٹوں میں صرف آگ ہی بھر رہے ہیں، اور عنقریب وہ دہکتی آگ میں ڈالے جائیں گے۔

سورة النساء: 10

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«اجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوبِقَاتِ». قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا هُنَّ؟ قَالَ: «الشِّرْكُ بِاللَّهِ، وَالسِّحْرُ، وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ، وَأَكْلُ الرِّبَا، وَأَكْلُ مَالِ الْيَتِيمِ، وَالتَّوَلِّي يَوْمَ الزَّحْفِ، وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ»

سات مہلک کاموں سے بچو ۔ پوچھا گیا : اے اللہ کے رسول! ! وہ کون سے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کا شریک  بنانا، جادو کرنا ، جس جان کو اللہ نے محترم بنایا ہے اسے ناحق قتل کر ڈالنا ، سود کھانا ، یتیم کا مال ہڑپ کر جانا ،جہاد کے دن ( کافروں کا سامنا کرنے سے ) پشت پھیر کر چلے جانا اور پاک دامن گناہ سے ناواقف مومن عورتوں پر تہمت لگانا ۔

سنن أبی داود: 2874

یتیموں کی کفالت وسرپرستی اورانکے اموال کی حفاظت اور اس میں شراکت اگرچہ باعث اجر ہے لیکن یہ گراں بار ذمہ داری ہے۔ لہذا جس قدر جلد ممکن ہوسکے اس سے تہی دامن ہونے کی کوشش بھی کرتے رہنا چاہیے۔ فرمان باری تعالى ہے:

وَابْتَلُوا الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَنْ يَكْبَرُوا وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ وَكَفَى بِاللَّهِ حَسِيبًا

اور یتیموں کو آزماتے رہو، یہاں تک کہ جب وہ بلوغت کو پہنچ جائیں، پھر اگر تم ان سے کچھ سمجھداری معلوم کرو تو ان کے مال ان کے سپرد کر دو اور فضول خرچی کرتے ہوئے اور اس سے جلدی کرتے ہوئے انھیں مت کھاؤ کہ وہ بڑے ہوجائیں گے۔ اور جو غنی ہو تو وہ بہت بچے اور جو محتاج ہو تو وہ جانے پہچانے طریقے سے کھالے، پھر جب ان کے مال ان کے سپرد کرو تو ان پر گواہ بنا لو اور اللہ پورا حساب لینے والا کافی ہے۔

سورة النساء : 6

صورت مسئولہ میں کاروبار کے رأس المال میں چونکہ ایک سے زائد افراد شریک ہیں اور کاروبار کے آغاز میں شراکت کے لیے کوئی ضابطہ طے نہیں کیا گیا تھا لہذا اسے اصل شرعی ضابطے کے مطابق ہی سمجھا جائے گا  جس کے مطابق رب المال کا نفع میں آدھا حصہ ہوتا ہے اور آدھا حصہ محنت کرنے والے کا ہوتا ہے۔

جیسا کہ  سیدنا  عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ اليَهُودَ، أَنْ يَعْمَلُوهَا وَيَزْرَعُوهَا وَلَهُمْ شَطْرُ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا

رسو ل اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہود کو زمین اس شرط پہ دی کہ وہ اس میں زراعت کریں گے اور محنت کریں گے اور انہیں اسکی پیداوار میں سے نصف دیا جائے گا۔

صحیح البخاری: 2499

9لاکھ ترکہ تین بھائیوں اور دو بہنوں پہ تقسیم کیا جائے تو ہر بہن کا حصہ 112500، اور ہر بھائی کا حصہ 225000 بنتا ہے۔یعنی جب کاروبار شروع کیا تو رأس المال میں شہباز کا چوتھا حصہ یعنی225000شامل تھا جبکہ باقی 675000باقی افراد کا تھا۔ لہذا شراکت کے شرعی اصول کے مطابق نفع میں سے بھی ایک چوتھائی شہباز کا حق ہے اور باقی  نفع میں سے بھی آدھا شہباز کی محنت کی وجہ سے اسے ملے گا اور باقی ماندہ دیگر شرکاء میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔ 2009ء تک یہ کاروبار 25لاکھ تک پہنچا تو اس میں رأس المال 9 لاکھ اور 16لاکھ نفع تھا۔ اس سولہ لاکھ نفع میں سے ایک چوتھائی یعنی 4لاکھ صرف شہباز کا ہے اسکے رأس المال اور محنت کی وجہ سے اور باقی 12 لاکھ میں سے 6لاکھ شہباز کو اسکی محنت کے عوض مل گیا اور دوسرے 6 لاکھ میں سے دو دو لاکھ سعد اور معاذ کے حصے میں جبکہ ایک ایک لاکھ دونوں بہنوں کے حصوں میں آیا۔یوں شہباز کا رأس المال 600000+400000+225000= 1225000 ہوگیا اور سعد اور معاذ میں سے ہر ایک کا رأس المال بڑھ کر 425000 اور ہر بہن کا 212500 ہوگیا۔

اسکے بعد کاروبار کا دوسرا دور شروع ہوا جس میں معاذ اپنے بھائی شہباز کے ساتھ کام پہ جانے لگا۔ اس وقت رأس المال 25 لاکھ میں سے ساڑھے بارہ لاکھ یعنی آدھا شہباز کا تھا اور باقی آدھا سعد معاذ اور دو بہنوں کا تھا۔معاذ کے شامل کاروبار ہونے کے بعد2015ء تک یہ کاروبار 60 لاکھ تک پہنچا۔ اس ساٹھ لاکھ میں 25 لاکھ رأس المال  اور باقی 35  لاکھ نفع تھا۔اس 35 لاکھ نفع میں  محنت کرنے والے دو افراد معاذ اور شہباز تھے۔ معاذ چونکہ نو آموز تھا سو نفع کمانے میں یہ شہباز کا برابر کا شریک نہیں ہوسکتا۔لیکن کم ازکم چوتھے حصہ کا ضرور حقدار ٹھہرتا ہے کہ  وہ مسلسل سیکھتا رہا اور 2015تک وہ مکمل ماہر بن گیا۔ لہذا 35 لاکھ نفع میں سے چونکہ آدھا یعنی 17لاکھ 50ہزار محنت کے عوض اور باقی آدھا رأس المال کے عوض ہے سو ساڑھے سترہ لاکھ میں سے ایک چوتھائی یعنی 437500معاذ کا اور باقی 1312500 شہباز کی محنت کا صلہ ہے۔ باقی نصف یعنی ساڑھ سترہ لاکھ میں سے آدھا  یعنی 875000شہباز کا ہے کیونکہ وہ آدھے رأس المال کا مالک تھا۔ اور باقی 875000 میں دونوں بھائی اور دونوں بہنیں شریک تھے۔ یعنی 291666 سعد کے اور اتنے ہی معاذ کے اور 145833ہر بہن کے حصے میں آئے۔ اسکے نتیجہ میں  ساٹھ لاکھ میں سے   1225000+1312500+875000 = 3412500 شہباز کا رأس مال بنا۔ اور 291666+437500+425000 =1154166 معاذ کا رأس المال بن گیا۔ اور 291666+425000=716666 سعد کا ، اور 145833+212500= 358333 ہر بہن کا رأس بنا۔ دونوں بہنوں کا حصہ 358333+358333 =716666 اور سعد کا 716666 یعنی کل 1433332 روپے شہباز نے اپنے حصے میں شامل کرکے انکا حساب بے باک کر دیا۔ یوں شہباز کا رأس مال 1433332+3412500= 4845832 ہوگیا اور باقی 1154168 معاذ کا رأس  اس ساٹھ لاکھ میں شامل رہا۔

پھر اس میں مزید 9لاکھ والدہ کا حصہ ، 5لاکھ معاذ کا حصہ اور 14 لاکھ شہباز کا حصہ شامل ہوا۔ جس کے نتیجہ میں شہباز کا رأس المال 6245832 روپے اور معاذ کا رأس المال 1654168 روپے  ہوا۔ اس میں 9 لاکھ والدہ کے شامل کرکے  88لاکھ روپے رأس المال بن گیا۔ جو آج بڑھ کر اڑھائی کروڑ کو پہنچا ہے۔اس 25000000 میں سے 88 لاکھ راس المال اور باقی 16200000 روپے نفع ہے۔جس میں سے آدھا یعنی 8100000 محنت کا عوض اور باقی آدھا رأس المال کا عوض ہے۔ اور نفع میں معاذ اور شہباز چونکہ برابر کے شریک رہے لہذا 4050000 معاذ کا حصہ اور اتنا ہی 4050000 شبہاز کا حصہ ہے۔ باقی اکیاسی لاکھ نفع رأس المال کے تناسب سے تین شرکاء یعنی معاذ، شہباز اور انکی والدہ کے درمیان تقسیم ہوگا۔یعنی والدہ کا 828000 روپے، معاذ کا 1522000روپے اور  5750000 روپے شہباز کا حصہ ہے۔

نفع اور رأس المال کو جمع کرنے کے نتیجہ میں اڑھائی کروڑ میں سے  :

شہبازکا  16045832 یعنی 64.183 فیصد

معاذ کا 7226168 یعنی 28.904 فیصد

اور والدہ کا  1728000 یعنی 6.913 فیصد

حصہ بنتا ہے۔

 

هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم

  • الاحد PM 04:11
    2022-01-30
  • 1144

تعلیقات

    = 3 + 2

    /500
    Powered by: GateGold