اعداد وشمار
مادہ
شریعت سازی کرنے والے مسلم حکمران کا کیا حکم ہے؟
سوال
شریعت سازی کرنے والے مسلم حکمران کا کیا حکم ہے؟ مثلا جو حلال کو حرام یا حرام کو حلال کر دے۔
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
اللہ سبحانہ وتعالى نے قرآن مجید فرقان حمید میں ایسے لوگوں کے لیے تین مختلف الفاظ استعمال کیے ہیں جو شریعت کے خلاف فیصلہ کرتے ہیں :
وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ
جو بھی الله کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ کافر ہیں
(المائدة : 44)
وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
جو بھی الله کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ ظالم ہیں
(المائدة : 45)
وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ
جو بھی الله کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ فاسق ہیں
(المائدة : 47)
یعنی خلاف شریعت فیصلہ کرنے والے کافر یا ظالم یا فاسق یعنی گنہگار ہوتے ہیں ۔ لہذا ہر ایسے شخص کو جو خلاف شریعت فیصلہ کرے ، کافر قرار دے دینا درست نہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالى نے ایسے افراد کو تین مختلف نام دیے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان میں سے کس قسم کے افراد خلاف شرع فیصلہ کرنے کی بناء پر کافر بنتے ہیں اور کون سے لوگ ہیں جو ظالم یا فاسق ٹھہرتے ہیں ۔
اور اس دوران یہ بات بھی خاص توجہ طلب ہے کہ اللہ رب العالمین نے حکمران ، قاضی ، فقیہ ، یا کسی عامی کے مابین فرق نہیں کیا ، بلکہ تمام تر انسانوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے یعنی کافر ، ظالم اور فاسق ۔ لہذا کسی بھی شعبہء زندگی سے تعلق رکھنے والا شخص کیو ں نہ ہو وہ خلاف شریعت فیصلہ کرنے کی بناء پر کافر بھی ہو سکتا ہے ، ظالم بھی ہو سکتا ہے اور فاسق بھی ۔ اور پھر فیصلوں میں اللہ تعالى نے یہ فرق نہیں کیا کہ کس شعبہء زندگی سے متعلق فیصلہ کفر ہے ، یعنی فیصلہ خواہ عقائد سے متعلق ہو، عبادات سے متعلق ہو، معاملات سے تعلق رکھتا ہو ، یا حدود اللہ کے بارہ میں ہو ، بہر صورت وہ کفر بھی ہوسکتا ہے ، ظلم بھی اور فسق یعنی گناہ بھی !
امام الانبیاء جناب محمد مصطفى ﷺ کے زمانہ مبارکہ میں بھی لوگ خلاف شرع فیصلہ کرلیتے تھے کبھی اپنی ذات کے لیے تو کبھی کسی دوسرے شخص کے بارہ میں ، ان فیصلوں میں سے اکثر کو اللہ اور اسکے رسول ﷺ نے ظلم یا فسق ہی قرار دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب اللہ تعالى نے یہ آیت نازل فرمائی :
الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ
وہ لوگ جو ایمان لے آئے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم ساتھ نہ ملایا تو انہی کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں ۔
(الأنعام: 82)
تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا کہ ہم سے کون ہے جس نے اپنے آپ پر ظلم نہ کیا ہو ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا اس ظلم سے مراد شرک اکبر ہے۔
(صحیح بخاری :۶۹۳۷)
یعنی اللہ تعالى کی معصیت خواہ کسی بھی پیمانے پر ہو وہ ظلم قرار پاتی ہے ، اور اگر یہ نافرمانی شرک اکبر کی صورت میں ہو تو انسان کو ملت اسلام سے خارج کر دیتی ہے ۔ اور صحابہ کرام ] اپنی غلطیوں کا اعتراف فرما رہے ہیں کہ بتقاضہ بشریت ہم سے غلطی سرزد ہو جاتی ہے اور اسے انہوں نے لفظ ظلم سے تعبیر کیا ۔
اسی طرح نبی کریم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا جس نے اپنی لونڈی کو ناجائز سزا دی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے اسے سمجھایا تو اس نے اپنی لونڈی کو آزاد کر دیا تھا۔
(صحیح مسلم :۵۳۷)
اب اس شخص کی حیثیت اپنی لونڈی کے لیے ایک حکمران کی سی تھی لیکن اس نے اپنی لونڈی کو سزا دینے کا جو غلط فیصلہ کیا ، وہ کفر نہیں تھا بلکہ ظلم تھا ۔ ایسے ہی سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو حج تمتع (حج اور عمرہ اکٹھا ) کرنے سے منع کر دیا تھا
(جامع الترمذی :۸۲۳)
اور یہ فیصلہ بھی یقینا درست نہ تھا ، اور انہوں نے بعد میں اس سے رجوع بھی فرما لیا تھا ۔ اسی قسم کے اور بھی بہت سے فیصلے ایسے ملتے ہیں جو شرعی احکامات کے منافی تھے لیکن فیصلہ صادر کرنے والے کو نہ تو رسول اللہ ﷺ نے کافر قرار دیا اور نہ ہی صحابہ کرام ] نے ان پر کوئی ایسا فتوى لگایا ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بسا اوقات انسان لا علمی ، یا اجتہادی غلطی ، یا کسی مصلحت یا لالچ کے تحت غلط فیصلہ کر بیٹھتا ہے تو وہ کفر نہیں ہوتا ۔
اسی بناء پر علمائے اسلام نے بھی متفقہ طور پر یہ بات کہی ہے کہ جب کوئی شخص خلاف شریعت فیصلہ کرتے ہوئے یہ سمجھے کہ اسکا فیصلہ شریعت سے بہتر ہے ، تو ایسا آدمی کافر ہو جاتا ہے اور ملت اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ۔ لیکن اگر کوئی شخص شرعی فیصلہ کو بہتر ، اور افضل سمجھتا ہو ، لیکن کسی سے انتقام لینے کی خاطر خلاف شرع فیصلہ دے دے تو وہ کافر نہیں بلکہ ظالم ہوگا ۔ اور اگر کسی کی محبت یا رشوت وغیرہ کی لالچ میں اسے فائدہ پہنچانے کی خاطر وہ شریعت مخالف فیصلہ کرے تووہ فاسق ہوگا ۔
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-     
الاربعاء PM  09:05   
 2022-02-02
- 1190





