اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
280
فتاوى
58
مقالات
188
خطبات

مادہ

جہاد کے بارے میں فتوى کون دے؟

سوال

کیا مدارس میں پڑھنے  پڑھانے اور اسی میں ہی اپنی ساری زندگی کھپا دینے والے علماء و مفتیان کرام جہاد کے متعلق فتوى دے سکتے ہیں؟ جبکہ انہوں نے کبھی جہاد کا رخ بھی نہیں کیا۔ کیونکہ کچھ لوگوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے  کہ میدان ِ جہاد سے باہر والا مجاہد کو فتویٰ نہیں دے سکتا۔ جہادی مسائل ، امت کے مستقبل اور اس کے بڑے بڑے معاملات میں میدان میں موجود مجاہدین کی بات ہی معتبر ہوسکتی ہے۔ (سائل: شاہد احمد)

الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب

یہ کہنا کہ ’’میدان ِ جہاد سے دور بیٹھا شخص مجاہد کو فتویٰ نہیں دے سکتا۔‘‘ کوئی فقہی قاعدہ  یا شریعت کا اصول نہیں ہے کہ جس سے حق کی پہچان ہوتی ہو۔ نہ ہی یہ قرآن وسنت سے ماخوذ اصول ہے۔ اہل علم کا قول بھی نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں، بلکہ یہ تو نو ایجاد شدہ بدعت ہے جو ان سب کے خلاف ہے۔

                اہل علم نے مفتی کےلیے بہت سی شرائط کتاب وسنت سے اخذ کرکے لکھی ہیں۔ کسی نے بھی مفتی کےلیے مجاہد ہونا یا سرحدوں پر رہنا ضروری نہیں لکھا۔ بلکہ عالم جہاں بھی رہنے والا ہو، اس کی بات معتبر ہوتی ہے۔ جبکہ جاہل جہاں کا رہائشی ہو اور جیسا بھی اس کا کام ہو، اس کی بات ناقابل اعتماد ہوتی ہے۔ لہٰذا فتویٰ کی درستگی جہاد سے نہیں ، بلکہ دلائل وبراہین سے وابستہ ہے۔

                بہت سے ائمہ اور اہل علم مجاہد نہیں تھے جیسا کہ ائمہ اربعہ (امام ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور احمد بن حنبل﷭)ہیں۔ انہوں نے جہاد کے بارے میں لکھا بھی ہے اور فتویٰ بھی دیا ہے۔ اسلامی فقہ میں ان کے فتاویٰ معتبر سمجھے جاتے ہیں اور ہر زمانہ میں علماء ان سے استفادہ کرتے رہے ہیں۔

                فقیہ پر لازم ہے کہ جس مسئلہ پر فتویٰ دے رہا ہے، اس کی صحیح صورت سے حقیقی طور پر واقف ہو  اور اسی پر شرعی حکم کی بنیاد رکھے۔

                امام ابن قیم﷫ لکھتے ہیں: ’’فہم وفراست کی دو ہی قسمیں ہیں جن سے انسان مفتی اور حاکم بن کر حق فتویٰ اور سچا فیصلہ دے سکتا ہے:

1             واقعہ کو صحیح طور پر سمجھ لینا اور قرائن، نشانیوں اور علامات کی بناء پر پیش آمدہ واقعہ کی حقیقت سے باخبر ہونا اور پورا واقعہ ذہن نشین کرلینا۔

2             واقعہ کی ضروری سمجھ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو سمجھ  لے جس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب اور اپنے نبیﷺ کی زبانی اس واقعہ کے بارے میں فرمایا ہے اور پھر ایک کو دوسرے پر فِٹ کردے۔‘‘

إعلام الموقعین: 1/96

                کسی بھی مسئلہ کی صحیح صورتحال خبروں سے پتہ چل جاتی ہے۔ عالم یا فقیہ  کا اس جگہ یا وقت پر موجود ہونا ضروری نہیں جہاں واقعہ پیش آیا ہو۔ یا بذات خود اسے دیکھنا ضروری نہیں۔ اہل علم اورمفتی حضرات  اپنے اپنے ملکوں میں رہنے کے باوجود دور دراز سے آئے ہوئے سوالات کا جواب دیتے آرہے ہیں۔ بلکہ بعض اوقات تو انہوں نے جواب میں لمبی لمبی کتابیں بھی لکھ ڈالی ہیں۔

 

اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ واقعہ کی صحیح صورتحال مجاہد کو معلوم ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس بارے میں حکم ِ شرعی سے بھی باخبر ہے یا فتویٰ دینے کا زیادہ حق دار ہے کیونکہ حکم ِ شرعی تو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے معلوم ہوتا ہے اور عالم ہی ان دونوں کو جانتا ہے۔ فرمان الٰہی ہے:

فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِر  ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا

                پھر اگر کسی بات پر تمہارے درمیان جھگڑا پیدا ہوجائے تو اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اس معاملہ کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو ۔یہی طریق کار بہتر اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے۔

 [النساء: 59]

                نیز فرمایا:

فَسْـــَٔـلُوْٓا اَہْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ

                لہذا اگر تم خود نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھ لو۔

 [النحل: 43]

                مزید فرمایا:

وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ

                اور اگر وہ اسے رسول یا اپنے کسی ذمہ دار حاکم تک پہنچاتے تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجاتی جو اس سے صحیح نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں ۔

[النساء: 83]

                مذکورہ آیات کے پیش نظر مسائل شریعت کے بارے میں مجاہد کی بات عالم کے مقابلہ میں قابل قبول نہیں ہوسکتی۔ مجاہد کی بات اسی صورت میں معتبر مانی جاسکتی ہے جب وہ عالم اور مفتی ہو۔ بلکہ اگر ایک عالم میدان ِ جہاد میں ہے تو مسائل شریعت اور اصولی باتوں میں اس کی بات کو دوسرے عالم کی بات پر صرف اس وجہ سے مقدم نہیں کیا جاسکتا کہ دوسرا عالم وہاں سے دور ہے۔

                جہاں تک عسکری اور جہادی معاملات کی بات ہے، مثلاً: میدان ِ معرکہ کا انتخاب، فوجیوں کی ٹریننگ، انہیں مختلف عہدوں پر فائز کرنا، فوج کی تقسیم، اسلحہ کی نوعیت وغیرہ  تو ان میں مجاہدین کی بات ہی قابل قبول ہے اور اس میں علماء کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔

 

اگر مجاہد کی بات کو عالم کی بات پر مقدم کرنا صحیح مان لیا جائے تو پھر ہر پیشہ اور صنعت سے وابستہ یہی دعویٰ کریں گے کہ ان کے بارے میں صرف اسی کا فتویٰ قابل قبول ہوگا جو وہی پیشہ اختیار کیے ہوئے ہو یا ان کے قریب رہتا ہو۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر  اپنے جیسے ڈاکٹر کا ہی فتویٰ قبول کرے گا۔ کاریگر اپنے جیسے کاریگر کا فتویٰ تسلیم کرے گا۔ پھر تاجر اور  کاشت کار وغیرہ بھی ایسا ہی کریں گے۔ یہ تو بالکل واضح طور پر فاسد اور باطل قول ہے۔ ان پیشوں اور صنعتوں سے وابستہ لوگ ہمیشہ سے اہل علم سے رجوع کرتے رہے ہیں۔ ان کے سامنے اپنے مسائل پیش کرتے ہیں،  انہیں صورت حال بتاتے ہیں تاکہ اہل علم ان کے بارے میں صحیح فتویٰ صادر کرسکیں۔

                اسی طرح علمی بحث اور فتویٰ کی کمیٹیاں ہر مسئلہ میں متعلقہ شعبہ کے ماہرین سے  پیش آمدہ مسائل کے بارے میں مخفی باتیں معلوم کرتی ہیں اور یوں ان کے فتاویٰ جات  اور بحثیں صحیح تصور پر مبنی ہوتی ہیں۔

 

اس قول کا انجام یہ ہوگا کہ معروف، پختہ کار، اور راسخ علماء  کی بات کو رد کردیا جائے گا  اور ایسے لوگوں کی بات تسلیم کرلی جائے گی جو رسوخ فی العلم سے عاری اور فقہ وعلم سے نا آشنا ہوں گے۔ اس طرح امت میں بگاڑ پیدا ہوجائے گا۔ جیسا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا:

«إِنَّ اللَّهَ لاَ يَقْبِضُ العِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا»

                اللہ سبحانہ وتعالیٰ علم کو اس طرح ختم نہیں کریں گے کہ بندوں کے سینوں سے اسے نکال لیں گے۔ بلکہ علماء کی وفات کے ذریعہ علم کو اٹھایا جائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم نہیں بچے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا بڑا مان لیں  گے۔ ان سے مسائل پوچھے جائیں گے  اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دے کر خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔

صحیح البخاري: 100، صحیح مسلم: 2673

                ہر اس شخص کی بات قابل قبول نہیں جو علم کا دعویدار  ہے  یا جس نے چند باتیں رٹی ہوئی ہیں۔ بلکہ لازم ہے کہ پختہ کار اہل علم اس کے علم  اور فتویٰ دینے کی صلاحیت کی گواہی دیں۔ امام نووی ﷫ فرماتے ہیں: ’’تعلیم اسی سے حاصل کی جائے گی جن کی اہلیت کامل، دیانت ظاہر، معرفت مکمل اور حفاظت مشہور ہوگی۔ محمد بن سیرین﷫ اور انس بن مالک﷜ وغیرہ جیسے اسلاف  فرما گئے ہیں: ’’یہ علم دین کا حصہ ہے۔ لہٰذا غور کرو کہ کس سے اپنا دین حاصل کررہے ہو۔‘‘

التبیان في آداب حملۃ القرآن: 1/47

                ابو الزناد اپنے والد کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: ’’میری مدینہ میں سو ایسے بندوں سے ملاقات ہوئی جو جھوٹ نہیں بولتے تھے لیکن کوئی ان سے حدیث نہیں لیتا تھا۔ کہا جاتا تھا کہ یہ اس کام کے اہل نہیں ہیں۔‘‘

مقدمۃ صحیح مسلم، باب في أن الإسناد من الدین: 1/15

                جب ایسے امانت دار اور دیانت دار لوگوں کا یہ حال ہے تو مجہول قسم کے لوگوں کا کیا اعتبار جنہیں کوئی جانتا ہی نہیں۔ نہ یہ معلوم ہے کہ وہ اہل سنت ہیں یا اہل بدعت ؟  امام ابن سیرین﷫ فرماتے ہیں: ’’محدثین آغاز میں سند کا مطالبہ نہیں کرتے تھے۔ جب فتنہ رونما ہوا تو محدثین نے کہنا شروع کردیا: ’’اپنے راویوں کا نام بتاؤ۔ تاکہ اگر وہ اہل سنت میں سے ہیں تو ان کی حدیث قبول کی جائے اور اگر  اہل بدعت سے ان کا تعلق ہے تو ان کی حدیث رد کر دی جائے۔‘‘

مقدمۃ صحیح مسلم، باب في أن الإسناد من الدین: 1/15

 

هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم

  • الخميس AM 12:30
    2022-02-03
  • 1186

تعلیقات

    = 9 + 2

    /500
    Powered by: GateGold