اعداد وشمار
مادہ
زنا بالجبر کرنے والے کو قتل کرنا
سوال
اگر منگیتر زنا کے لیے زبردستی کرے اور لڑکی اس کو قتل کر دے تو کیا حکم ہے؟
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
زنا بالرضا ہو یا بالجبر، اسلام نے دونوں کے لیے ایک ہی سزا مقرر کی ہے کہ غیر شادی شدہ زانی کو 100 کوڑے مار جائیں اور ایک سال تک جلا وطن کیا جائے ۔ اور شادی شدہ زانی کو سنگسار کیا جائے۔
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
أَنَّ امْرَأَةً خَرَجَتْ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُرِيدُ الصَّلَاةَ، فَتَلَقَّاهَا رَجُلٌ، فَتَجَلَّلَهَا، فَقَضَى حَاجَتَهُ مِنْهَا، فَصَاحَتْ، وَانْطَلَقَ، فَمَرَّ عَلَيْهَا رَجُلٌ، فَقَالَتْ: إِنَّ ذَاكَ فَعَلَ بِي كَذَا وَكَذَا، وَمَرَّتْ عِصَابَةٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ، فَقَالَتْ: إِنَّ ذَلِكَ الرَّجُلَ فَعَلَ بِي كَذَا وَكَذَا، فَانْطَلَقُوا، فَأَخَذُوا الرَّجُلَ الَّذِي ظَنَّتْ أَنَّهُ وَقَعَ عَلَيْهَا، فَأَتَوْهَا بِهِ، فَقَالَتْ: نَعَمْ هُوَ هَذَا، فَأَتَوْا بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أَمَرَ بِهِ قَامَ صَاحِبُهَا الَّذِي وَقَعَ عَلَيْهَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَا صَاحِبُهَا، فَقَالَ لَهَا «اذْهَبِي فَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكِ وَقَالَ لِلرَّجُلِ قَوْلًا حَسَنًا»، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: «يَعْنِي الرَّجُلَ الْمَأْخُوذَ»، وَقَالَ لِلرَّجُلِ الَّذِي وَقَعَ عَلَيْهَا: «ارْجُمُوهُ»، فَقَالَ: «لَقَدْ تَابَ تَوْبَةً لَوْ تَابَهَا أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَقُبِلَ مِنْهُمْ»
ایک عورت نبی ﷺ کے زمانہ میں نماز پڑھنے کے لیے گھر سے نکلی ، راستے میں ایک آدمی اسے ملا جس نے اسکے ساتھ زبردستی زنا کر لیا ، اس نے چیخ وپکار کی تو وہ بھاگ گیا۔ اتنے میں ایک اور شخص اسکے پاس سے گزرا، تو اس عورت نے کہا اسی نے میرے ساتھ ایسا کیا ہے۔ مہاجرین کا ایک گروہ وہاں سے گزرا تو اس عورت نے کہا کہ اس آدمی نے اسکے ساتھ اس اس طرح کیا ہے، وہ گئے اور انہوں نے اس آدمی کو پکڑ لیا جسکے بارہ میں اسے گمان تھا کہ اس نے ہی زیادتی کی ہے۔ تو وہ اسے لے کر اسکے پاس آئے تو اس عورت نے کہا ہاں یہی ہے وہ۔ وہ اسے نبی ﷺ کے پاس لے آئے ، تو جب اسکے بارہ میں رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ سنایا تو وہ اصل مجرم جس نے زیادتی کی تھی کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول ﷺ میں اسکا مجرم ہوں۔ تو نبی ﷺ نے اس عورت کو کہا: چلی جا ، اللہ تجھے معاف کرے اور وہ شخص جسے پکڑ کر لایا گیا تھا اسکے بارہ میں بھی اچھے کلمات کہے۔ اور وہ شخص جس نے زیادتی کی تھی اسکے بارہ میں حکم دیا کہ اسے رجم کر دو۔ اور فرمایا کہ اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اہل مدینہ یہ تو بہ کر لیں تو ان سے قبول کر لی جائے گی۔
سنن ابی داود 4379
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ
1- زبردستی زنا کرنے والا اگر شادی شدہ ہوتو اسے سنگسار ہی کیا جائے گا۔
2- جس عورت سے زبردستی ہوئی ہے اسے کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔
3- اگر قرینہ موجود ہو تو زنا بالجبر کے مقدمہ میں اکیلی مزنیہ کی گواہی بھی کافی ہوگی۔ جیسا کہ اس نے چیخ وپکار کر کے اس زنا کے بالجبر ہونے کا قرینہ فراہم کیا۔
4- عورت اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے لیکن قتل نہیں کرسکتی۔ جیسا کہ اس واقعہ میں عورت نے چیخ وپکار کی مگر اس زانی کو قتل نہیں کیا نہ ہی قتل کا اقدام کیا۔
عزت وغیرت کے نام پہ قتل کرنے کی کھلی چھوٹ اسلام میں نہیں ہے۔ اسلام جذبات پہ قابو رکھنے اور سمجھداری سے معاملات کو سر انجام دینے کا حکم دیتا ہے۔ حتى کہ کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو زنا کرتا اپنی آنکھوں سے دیکھ لے پھر بھی وہ اپنی عزت یا غیرت کے نام پہ اس زانی کو قتل نہیں کرسکتا۔ جب سیدنا عویمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو زنا کرتے دیکھا تو ان الفاظ میں رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا :
يَا رَسُولَ اللَّهِ رَجُلٌ وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ أَمْ كَيْفَ يَصْنَعُ؟
اے اللہ کے رسول ﷺ ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پاتا ہے تو کیا وہ اسے قتل کردے تو آپ بھی اس قاتل کو قتل کر دیں گے، یا وہ کیا کرے؟
تو اس پہ اللہ تعالى نے لعان والی آیات نازل فرمائیں اور مسئلہ کا حل دیا۔
صحیح البخاری:4745
یعنی اگر اپنی بیوی کو بھی غیر مرد سے زنا کرتے دیکھ لے تب بھی وہ انہیں قتل نہیں کرسکتا، اگر قتل کرے گا تو یہ بھی قتل ہوگا۔
ابو امامہ بن سہل فرماتے ہیں :
كُنَّا مَعَ عُثْمَانَ وَهُوَ مَحْصُورٌ فِي الدَّارِ، وَكَانَ فِي الدَّارِ مَدْخَلٌ، مَنْ دَخَلَهُ سَمِعَ كَلَامَ مَنْ عَلَى الْبَلَاطِ، فَدَخَلَهُ عُثْمَانُ، فَخَرَجَ إِلَيْنَا وَهُوَ مُتَغَيِّرٌ لَوْنُهُ، فَقَالَ: إِنَّهُمْ لَيَتَوَاعَدُونَنِي بِالْقَتْلِ آنِفًا، قَالَ: قُلْنَا: يَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَ: وَلِمَ يَقْتُلُونَنِي؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: كُفْرٌ بَعْدَ إِسْلَامٍ، أَوْ زِنًا بَعْدَ إِحْصَانٍ، أَوْ قَتْلُ نَفْسٍ بِغَيْرِ نَفْسٍ "، فَوَاللَّهِ مَا زَنَيْتُ فِي جَاهِلِيَّةٍ، وَلَا فِي إِسْلَامٍ قَطُّ، وَلَا أَحْبَبْتُ أَنَّ لِي بِدِينِي بَدَلًا مُنْذُ هَدَانِي اللَّهُ، وَلَا قَتَلْتُ نَفْسًا، فَبِمَ يَقْتُلُونَنِي؟
ہم عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، آپ گھر میں محصور تھے، گھر میں داخل ہونے کا ایک راستہ ایسا تھا کہ جو اس میں داخل ہو جاتا وہ باہر سطح زمین پر کھڑے لوگوں کی گفتگو سن سکتا تھا، عثمان رضی اللہ عنہ اس میں داخل ہوئے اور ہمارے پاس لوٹے تو ان کا رنگ متغیر تھا، کہنے لگے: ان لوگوں نے ابھی ابھی مجھے قتل کرنے کی دھمکی دی ہے، تو ہم نے عرض کیا: امیر المؤمنین! آپ کی ان سے حفاظت کے لیے اللہ کافی ہے، اس پر انہوں نے کہا: آخر یہ مجھے کیوں قتل کرنا چاہتے ہیں؟ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے سنا ہے: تین باتوں کے بغیر کسی مسلمان شخص کا خون حلال نہیں: ایک یہ کہ اسلام لانے کے بعد وہ کفر کا ارتکاب کرے، دوسرے یہ کہ شادی شدہ ہو کر زنا کرے، اور تیسرے یہ کہ ناحق کسی کو قتل کر دے تو اللہ کی قسم! میں نے نہ تو جاہلیت میں، اور نہ اسلام لانے کے بعد کبھی زنا کیا، اور جب سے اللہ نے مجھے ہدایت بخشی ہے میں نے کبھی نہیں چاہا کہ میرا دین اس کے بجائے کوئی اور ہو، اور نہ ہی میں نے کسی کو قتل کیا ہے، تو آخر کس بنیاد پر مجھے یہ قتل کریں گے؟
سنن ابی داود:4502
یعنی کسی بھی مسلمان شخص کو صرف ان تین وجوہات کی بناء پر قتل کرنا جائز ہوتا ہے:
1۔ نا حق قتل کرنا۔
2۔ شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کرنا۔
3۔ مرتد ہو جانا۔
اپنی محرم عورتوں میں سے کسی سے نکاح کرنے والا ، اور رسول اللہ ﷺ کی گستاخی کرنے والا بھی اس تیسری قسم میں ہی داخل ہے۔
ان صورتوں کے علاوہ کسی صورت میں کسی بھی مسلمان کو عمدا قتل نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ اگر کوئی غلطی سے قتل ہو جائے تو الگ بات ہے۔ جیسا کہ اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے کوئی شخص ڈاکو سے لڑتا ہے اور اس دوران ڈاکو کو ایسی ضرب لگ جاتی ہے جسکے نتیجہ میں وہ قتل ہو جاتا ہے۔ تو قاتل کو قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ یہ قتل خطأ ہے۔
اسی طرح لڑکی کا اپنی عزت بچانے کے لیے کسی کو قتل کر دینا قطعا جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر اپنا دفاع کرتے ہوئے کوئی ایسی ضرب لگ گئی جس سے عام طور پہ بندہ قتل نہیں ہوتا لیکن وہ شخص اس ضرب کی وجہ سے مر گیا ، تو یہ ایک الگ بات ہے، یہ قتل خطأ کے زمرہ میں آئے گا۔
اور پھر غیر شادی شدہ زانی اگر زنا بالجبر میں کامیاب بھی ہو جاتے تو تب بھی اسکی سزاقتل نہیں ہے بلکہ 100 کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے۔ تو زنا کی محض زبردستی کوشش کے جرم میں اسے موت کے گھاٹ اتارنا کیونکر صحیح ہوگا ؟
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-     
السبت PM  07:49   
 2022-02-05
- 1172





