میلنگ لسٹ
موجودہ زائرین
اعداد وشمار
تلاش کریں
مادہ
انشورنس کا حکم
سوال
انشورنس کیا ہے اور انشورنس کروانا کیسا ہے؟ اگر کوئی کمپنی اپنے ملازمین کے لیے انشورنس کو لازم قرار دے دے تو کیا کیا جائے؟
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
بیمہ یا انشورنس (insurance) کے قائلین اسکا تاریخی پس منظر کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ 1400ء میں اٹلی کے تاجروں میں سے ایک تاجر کا جہاز سمندر میں غرق ہوگیااور وہ انتہائی تنگ دست ہوگیا۔ دوسرے تارجوں نے اسکے ساتھ تعاون کیا اور اس کے لیے کچھ رقم اکٹھی کرکے اسے اس قابل بنایا کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے ۔ چونکہ ایسے حادثات کا آئندہ بھی امکان تھا‘ سو تاجروں نے ملکر یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ تمام تاجر ہر ماہ یا ہرسال جیسے بھی سہولت ہو ‘ ایک معین رقم ادا کر دیا کریں تاکہ اس فنڈ سے اس قسم کے حوادثات و خطرات کے نقصان کا کسی حدتک تدارک کیا جاسکے۔
یہ پس منظر ہی کفار کی تنگ دلی کی واضح مثال ہے!۔ کیونکہ اسلام نے ایسے حوادث کے پیش نظر ایک بہترین نظام متعارف کروایا ہے جسے "صدقہ" کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
رَجُلٌ أَصَابَتْهُ جَائِحَةٌ اجْتَاحَتْ مَالَهُ، فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ
ایسا شخص جس پر کوئی آفت آئی اور اسکا سارا مال نگل گئی تو اسکے لیے سوال کرنا حلال ہو جاتا ہے ‘ حتى کہ وہ معاشی طور پر مستحکم ہو جائے۔
صحیح مسلم: 1044
اور انہیں غارمین کہہ کر اللہ تعالى نے زکاۃ کے مال میں ایسے لوگوں کا حق رکھا ہے ۔
[سورۃ التوبۃ: 60]
اورصاحب حیثیت مسلمانوں کو پر فرض کیا ہے کہ وہ اپنے مال میں سے ہر سال مخصوص رقم "زکاۃ" کی مد میں نکالیں۔ اور اسی طرح نفلی صدقات کرنے پر بھی انہیں ترغیب دلائی گئی ہے کہ وہ اپنے مال میں سے فرضی صدقہ (زکاۃ ‘ عشر‘ فطرانہ وغیرہ) کے علاوہ بھی اللہ کے راستے میں خرچ کریں۔
اور اسلام نے یہ پابندی نہیں رکھی کہ جو صدقہ دے گا ‘ مصیبت میں صرف اسی کو ہی صدقہ دیا جائے گا۔ بلکہ ہر وہ شخص جو اسلام قبول کرلے اگر وہ صدقہ کا مستحق بن گیا ہے تو اس پر صدقات حلال ہو جاتے ہیں ۔
اسلام کے اس حسین نظام صدقات وزکاۃ کے مقابل قائم کیا جانے والا بیمہ یا انشورنس کا نظام انتہائی بھیانک قسم کا ہے ۔ مختلف انشورنس کمپنیاں سادہ لوح عوام کو سبزباغ دکھا کر ‘ ملمع سازی کرتے ہوئے اپنے جال میں پھنساتی ہیں ۔ اور اسی طرح کئی بڑی بڑی کمپنیوں کے "عقلمند" ان شاطروں کی چرب زبانی کا شکار ہوکر اپنے تمام تر ملازمین کے لیے بیمہ کو لازم قرار دے دیتے ہیں۔ جبکہ شرعی نقطہء نظر سے اگر دیکھا جائے تو بیمہ یا انشورنس جسے بعض لوگوں نے "تکافل" کا خوبصورت نام دے کر حلال کرنے کا حیلہ کیا ہے‘ کئی قباحتوں کا مرکب ہے۔ جن میں سرفہرست ربا (سود) ‘ قمار (جوا) اور غرر (دھوکہ دہی) ہیں۔لائف انشورنس ہو یا میڈیکل انشورنس‘ مکان و دکان کی انشورنس ہو یا گاڑیوں کی‘ ہمہ قسم انشورنس میں یہ چیزیں پائی جاتی ہیں۔
اسکے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے ایمان بالقدر کے عقیدہ کو بھی انشورنس کمزور کر دیتی ہے۔ اور شریعت کے نظام وراثت کو بھی متأثر کرتی ہے کیونکہ انشورنس میں مرنے والے کی رقم اسکے نامزد کردہ افراد کو ملتی ہے۔
انشورنس پر بونس کے نام سے دیا جانے والا سود‘ اور اس میں پایا جانے والا غرریعنی دھوکہ (کیونکہ نہ تو بیمہ دار کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کتنی رقم ادا کرے گا اور نہ ہی کمپنی کو معلوم ہوتاہے کہ وہ کیا وصول کرے گی) جس طرح واضح طور پر حرام ہے‘ بعینہ اس میں پایا جانے والا اضرار (نقصان پہنچانا) بھی ناجائز ہے ۔ کیونکہ اگر کوئی شخص بیمہ پالیسی ترک کرنا چاہے تو اسکی چالیس فیصد رقم کمپنی ضبط کرلیتی ہے ‘ اور بسا اوقات تو جس شخص کا بیمہ ہوا ہوتا ہے اسے اسکے ورثاء ہی قتل کردیتے ہیں تاکہ جلد تھوڑے نقصان کے ساتھ زیادہ رقم ہاتھ آئے۔
ان قباحتوں کی وجہ سے بیمہ یا انشورنش شرعی طور پر واضح حرام اور ناجائز ہے۔ لہذا کبھی بھی انشورنس نہ کروائیں اور اگر کوئی ایسی کمپنی ہے جو انشورنس کے بغیر ملازمت نہیں دیتی تو اس سے کنارہ کرکے کہیں اور اللہ کا فضل تلاش کریں۔
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-
السبت PM 08:57
2022-02-05 - 1170