اعداد وشمار
مادہ
بیعانہ ادا کرکے جائیداد آگے بیچنا
سوال
پچھلے دنوں ایک دوست کی جانب سے جائداد کی خرید فروخت کے حوالے سے شراکت کی ایک پیشکش موصول ہوئی تھی۔ جو کہ کچھ ایسے تھی کہ جائیداد کے مالک سے جائیداد کا سودا کر کے اسے بیعانہ دے دیا جائے اور پھر جائیداد کو مقررہ قیمت سے زیادہ قیمت میں آگے بیچ دیا جائے۔ اس بارے میں آپ کی رہنمائی درکار ہے کہ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
کسی بھی چیز کو قبضہ میں لیے بغیر آگے بیچنا منع ہے۔ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
«مَنِ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلاَ يَبِعْهُ حَتَّى يَقْبِضَهُ»
جس نے بھی کوئی اناج خریدا تو وہ اسے اس وقت تک نہ بیچے جب تک وہ اسے اپنے قبضہ میں نہیں کر لیتا۔
صحیح البخاری: 2133
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
وَلاَ أَحْسِبُ كُلَّ شَيْءٍ إِلَّا مِثْلَهُ
میں ہر چیز کو اسی طرح ہی سمجھتا ہوں
صحیح البخاری: 2135
یعنی ہر چیز کا حکم اناج والا ہی ہے کہ جب تک اسے قبضہ میں نہ لے لیا جائے آگے نہیں بیچا جا سکتا۔
اسی طرح عمرو بن شعیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں وہ اپنے داد سے روایت کرتے ہیں کہ :
أَنَّهُ نَهَى عَنْ بَيْعِ مَا لَا يُمْلَكُ
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ایسی چیز کو فروخت کرنے سے منع کیا جسکا انسان مالک نہ ہو۔
المعجم الأوسط: 4683
ان احادیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مالک بنے اور قبضہ میں لیے بغیر چیز کو آگے بیچنا شرعا منع ہے۔
صورت مسؤلہ میں یہ بات آپ زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ بیعانہ ادا کرنے کے بعد وہ جائیدا آپ کے قبضہ میں آتی ہے یا نہیں۔ کیونکہ کبھی تو بیعانہ ادا کرنے کے بعد بلکہ کبھی اسکے بغیر بھی جائیدا میں تصرف کرنے کا اختیار مل جاتا ہے جسے عرف عام میں ''مختار عام'' کہا جاتا ہے۔ اور کبھی مکمل رقم ادا کرنے کے باوجود بھی قبضہ و ملکیت نہیں ملتی۔ لہذا سائل ان احادیث کی روشنی میں اپنے حالات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرے کہ اسے بیعانہ کے بعد جائیداد میں تصرف کے اختیارات یا مختار عام حاصل ہوتا ہے تو وہ اسے آگے بیچ سکتا ہے اور اگر نہیں ملتا تو پھر نہیں بیچ سکتا۔
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-     
السبت PM  09:07   
 2022-02-05
- 956





