اعداد وشمار
مادہ
قسطوں کی بیع
سوال
میں نے قسطوں کے کام کے بارے بہت تحقیق کی لیکن میری ناقص تحقیق کے مطابق سعودی علماء کا فتوی جوکہ فتاوی اسلامیہ میں موجود ہے، ناقص ٹھہرا جس کا مفصل رد مبشر احمد ربانی صاحب کے مقالات ربانیہ میں موجود ہے اور وہی مضمون مقالات الحدیث زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے مضامین میں موجود ہے، لہٰذا آپکی تحقیق درکار ہے تاکہ سائل کو مزید تحقیقی مواد میسر ہو سکے، جزاک اللہ خیر۔
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
کسی بھی چیز کی قیمت ادھار کی بناء پر بڑھا دینا سود ہے۔ خواہ ادھار قسطوں کی صورت میں ہو‘ یا یکمشت ادائیگی کی صورت میں‘ نقد قیمت کا ذکر کیا جائے یا نہ‘ اور خواہ بغرض حیلہ نقد قیمت بھی ادھار والی ہی بتائی جائے۔
اسکے سود ہونے پر نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان دلالت کرتا ہے:
«مَنْ بَاعَ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ، فَلَهُ أَوْكَسُهُمَا أَوِ الرِّبَا»
جس نے ایک چیز کی دو قیمتیں لگائیں ‘ اسکے لیے کم قیمت لینا جائز ہے اور اگر زائد لیا توسود ہے۔
سنن أبی داود: 3461
اس حدیث میں جس بیع کا ذکر ہو رہا ہے وہ درج ذیل چیزوں پر مشتمل ہے :
1- ایک ہی چیز کی دو بیعیں ہوں۔
2- دونوں بیعیں ایک ہی بیع میں ہوں۔
3- ان دونوں میں سے ایک کم قیمت پر ہو۔
4- ان میں سے کم قیمت حلال ہو ‘ سود نہ ہو۔
5- ایک بیع زیادہ قیمت والی ہو۔
6- زیادہ قیمت والی بیع سود ہو۔
7- بیچنے والا ایک ہی ہو۔
8- جو چیز بیچی جا رہی ہے وہ بھی ایک ہی ہو۔
9-زیادہ قیمت والی بیع کی حرمت کا سبب اور علت سود ہو۔
یہ تمام تر صفات اس بیع میں جمع ہو تی ہیں جب کوئی شخص ایک چیز کی نقد قیمت دس روپے ا ور ادھار پندرہ روپے مقرر کرے۔
یا کوئی کہے کہ اگر رقم ایک ماہ پہلے دو تو یہ چیز دس روپے کی اور اگر رقم دیتے ہی فورا چیز وصول کرو گے تو یہی چیز پندرہ روپے کی۔
وہلم جرا...
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حدیث میں وارد ممانعت اس صورت میں ہے جب گاہک چیز خرید لے اور اسے نقد اور ادھار دو ریٹ بتائے جائیں ‘ لیکن یہ طے نہ پائے کہ یہ شے نقد خریدی گئی یا ادھار۔ البتہ جب یہ معاملہ طے پا جائے کہ نقد خریدنی ہے یا ادھار تو پھر ممانعت نہیں ہے ۔
لیکن بعض الناس کا یہ قول باطل ہے! کیونکہ بائع اور مشتری جب بیع کے لیے جمع ہوتے ہیں تو دو ہی صورتیں ہیں تیسری نہیں
1۔یا تو وہ کسی چیز کی بیع (خرید وفروخت) کریں گے۔
2- یانہیں کریں گے۔
اور اگر وہ کسی چیز کی بیع کرتے ہیں تو اس میں بھی صرف دو ہی صورتیں ہیں تیسری نہیں ۔
1۔ وہ بیع نقد ہوگی
2- یاا دھار
اگر نقد ہوگی تو نقد والی قیمت پہ ہوگی جو کہ جائز اور حلال ہے ۔ اور اگر ادھار ہوگی تو ادھار کے لیے مقرر کردہ قیمت نقد کی نسبت زیادہ ہے سو وہ سود ہی ہوگی۔
یعنی ایسی صورت خارج میں ممکن ہی نہیں کہ سودا بھی ہو جائے اور یہ طے بھی نہ ہو کہ نقد ہے یا ادھار! کیونکہ چیز خرید کر جانے والا یا تو فوری رقم ادا کرے گا یا بعد میں ‘ فوری ادا کرے گا تو نقد سودا کہلائے گا ‘ اور اگر بعد میں ادا کرے گا تو ادھار کہلائے گا۔ خوب سمجھ لیں۔
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-     
السبت PM  10:46   
 2022-02-05
- 1394





