اعداد وشمار
مادہ
(TIP) ٹِپ کا حکم؟
سوال
مسجد حرم اور مسجد نبوی میں جو ملازمین کام کرتے ہیں صفائی کا پانی بھرنے اور دیگر کام الیکٹرک وغیرہ کا تو عمرہ کرنے والے یا حج کرنے والے لوگ یا عرب کے ہی لوگ ان کو پیسے دیتے ہیں تو کیا وہ ان سے وہ پیسے لے سکتے ہیں اور اس میں ان کے لئے کوئی مسئلہ تو نہیں یا ان کو نہیں لینے چاہیے؟ اس کے بارے میں رہنمائی فرما دیں؟
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
اولا تو انہیں یہ رقم وصول ہی نہیں کرنی چاہیے۔ اور اگر وصول کر لیتے ہیں تو منتظمین کو جمع کروا دیں۔
سیدنا ابو حُمید ساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
اسْتَعْمَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنَ الأَزْدِ، يُقَالُ لَهُ ابْنُ الأُتْبِيَّةِ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ: هَذَا لَكُمْ وَهَذَا أُهْدِيَ لِي، قَالَ: «فَهَلَّا جَلَسَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ أَوْ بَيْتِ أُمِّهِ، فَيَنْظُرَ يُهْدَى لَهُ أَمْ لاَ؟ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لاَ يَأْخُذُ أَحَدٌ مِنْهُ شَيْئًا إِلَّا جَاءَ بِهِ يَوْمَ القِيَامَةِ يَحْمِلُهُ عَلَى رَقَبَتِهِ، إِنْ كَانَ بَعِيرًا لَهُ رُغَاءٌ، أَوْ بَقَرَةً لَهَا خُوَارٌ، أَوْ شَاةً تَيْعَرُ» ثُمَّ رَفَعَ بِيَدِهِ حَتَّى رَأَيْنَا عُفْرَةَ إِبْطَيْهِ: «اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ، اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ» ثَلاَثًا
رسول اللہ ﷺ نے ازد قبیلہ کے ابن اُتبیہ نامی شخص کو صدقہ پر عامل (صدقہ جمع کرنے والا ملازم) مقرر فرمایا۔ تو جب وہ آیا تو اس نے کہا یہ تمہارے لیے ہے ، اور یہ مجھے تحفہ کے طور پہ دیا گیا ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "وہ اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر کیوں نہیں بیٹھا رہا ، تاکہ پتہ چلتا کہ اسے تحفہ دیا جاتا ہے یا نہیں؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی بھی اس میں سے کوئی بھی چیز لے گا تو وہ ضرور قیامت کے دن اسے اپنی گردن پہ اٹھا کر لائے گا۔اگر اونٹ ہے تووہ بلبلا رہا ہوگا، گائے ہوئی تو وہ ڈکار رہی ہوگی، یا بکری ہوئی تو وہ ممیا رہی ہوگی۔ پھر آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ بلند فرمایا حتى کہ ہم نے آپ ﷺ کی بغل کی سفیدی دیکھی (اور فرمایا) اے اللہ کیا میں نے پہنچا دیا ہے؟ یا اللہ کیا میں نے پہنچا دیا ہے ؟ ۔ تین بار فرمایا۔
صحیح البخاری: 2597
اس حدیث سے واضح ہوا کہ کسی بھی ملازم کو اسکی ملازمت کی وجہ سے جو تحائف ملتے ہیں ، وہ ان حقدار نہیں ہے۔ اگر وہ اسے اپنے پاس رکھ لے تو قیامت کے دن انہیں اپنی گردن پہ اٹھا کر لائے گا۔
سیدنا عدی بن عَمِیرہ الکندی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
«مَنِ اسْتَعْمَلْنَاهُ مِنْكُمْ عَلَى عَمَلٍ، فَكَتَمَنَا مِخْيَطًا، فَمَا فَوْقَهُ كَانَ غُلُولًا يَأْتِي بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ»، قَالَ: فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ أَسْوَدُ مِنَ الْأَنْصَارِ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، اقْبَلْ عَنِّي عَمَلَكَ، قَالَ: «وَمَا لَكَ؟» قَالَ: سَمِعْتُكَ تَقُولُ: كَذَا وَكَذَا، قَالَ: «وَأَنَا أَقُولُهُ الْآنَ، مَنِ اسْتَعْمَلْنَاهُ مِنْكُمْ عَلَى عَمَلٍ، فَلْيَجِئْ بِقَلِيلِهِ وَكَثِيرِهِ، فَمَا أُوتِيَ مِنْهُ أَخَذَ، وَمَا نُهِيَ عَنْهُ انْتَهَى»
"جسے بھی ہم نے کسی کام پہ مقرر کیا ، اگر اس نے ایک سوئی یا اس سے بھی حقیر چیز چھپائی تو وہ خیانت ہے، وہ اسے قیامت کے دن لائے گا" یہ سن کر انصاریوں میں سے ایک سیاہ فام شخص کھڑا ہوا جو ابھی بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ اس نے کہا :"اے اللہ کے رسول ﷺ میرا استعفى قبول فرمائیے" آپ ﷺ نے دریافت فرمایا "تجھے کیا ہے؟" تو اس نے کہا "میں نے آپ کو اس اس طرح کہتے ہوئے سنا ہے" تو آپ ﷺ نے فرمایا : " میں اب بھی کہتا ہوں کہ تم میں سے جسے بھی ہم کسی کام پہ مقرر کریں ، تو اس پہ لازم ہے کہ وہ تھوڑی یا زیادہ (ہر چیز ہمارے پاس ) لے کر آئے۔ تو اس میں سے جو بھی اسے دیا جائے وہ لے لے ، اور جو نہ دیا جائے اس سے باز رہے۔
صحیح مسلم: 1833
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-     
السبت PM  10:57   
 2022-02-05
- 1036





