اعداد وشمار
مادہ
روزوں کا فدیہ
سوال
روزہ کا فدیہ دینے کی رخصت کس کے لیے تھی ؟ اور کیا یہ اب بھی باقی ہے ؟
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
فدیہ کا حکم ان لوگوں کے لیے تھا جو فدیہ دینے کی طاقت رکھتے تھے خواہ ان میں روزہ رکھنے طاقت ہو یا نہ ہو ۔ یعنی صرف فدیہ کی صلاحیت رکھنا ہی فدیہ دینے کی رخصت کا سبب تھا روزہ رکھنے کی طاقت کو اس میں کوئی دخل نہ تھا۔ اور جو بیماری یا سفر کی بناء پر روزہ رکھنے سے قاصر تھے انہیں بعد میں روزوں کی تعداد مکمل کرنیکا حکم تھا۔
یعنی جن کے پاس روزہ رکھنے کی طاقت نہ تھی انہیں طاقت کے مل جانے تک رخصت تھی اور طاقت کے ملتے ہی حکم تھا کہ وہ روزوں کی گنتی پوری کر لیں ۔ ( سورۃ البقرۃ ۱۸۴)
لیکن یہ حکم اللہ تعالى نے منسوخ فرما دیا اور روزہ رکھنے کو ہی فرض قرار دے دیا گیا اب کوئی شخص فدیہ نہیں دے سکتا ۔ (سورۃ البقرۃ ۱۸۵)
حتى کہ کوئی بیمار یا مسافر بیماری یا سفر کی بناء پر روزہ نہ رکھ سکا اور فوت ہوگیا تو اسکی طرف سے اسکے اولیاء روزہ رکھیں گے وہ بھی فدیہ نہیں دیں گے (صحیح بخاری )
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-     
الاثنين PM  02:14   
 2022-02-07
- 880





