اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
280
فتاوى
58
مقالات
188
خطبات

مادہ

فدیہ کس کے حق منسوخ ہے؟

سوال

۱۔ محترم شیخ فدیہ کے منسوخ ہونے سے متعلق  ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول موقوفات کے زمرہ میں نہیں آئے گا ؟  
۲۔ اور اگر آئے گی یا جیسا کہ آرہی ہے تو پھر ہمارے قیل وقال کا کیا بنے گا؟  
۳۔ اور ایک بنیادی سوال یہ کہ جو شخص دائمی مریض ہو مثال کے طور پر گردے کا دائمی مریض وہ بیچارہ تو کبھی بھی روزہ نہیں رکھ سکتا اس کیلئے شریعت نے کیا حکم صادر فرمایا ہے؟  
۴۔کیا وہ بھی ہرحال میں روزہ رکھے گا اگراس نے روزہ رکھ لیا اور گردوں میں پانی کی شدید کمی کے باعث مرگیا تو شہید کہلائے گا یا پھر کوئی اور چیز؟  
۵۔ اضطراری کی حالت میں تو شراب تک کی اجازت دے دی گئی ہے جبکہ درج بالا صورت بھی اضطراری حالت کے باعث پیش آتی ہے اگر ایسی حالت میں روزہ پھر بھی فرض ہے توپھرموت یا روزہ؟  
۶۔ کیا شریعت نے کوئی بھی اسکے متبادل راستہ نہیں رکھا حالانہ شریعت تو زندگی کے ہر موڑ پر ہماری بہتر رہنمائی کرتی ہے براہ کرم جلد اس مسئلہ کا جواب خالصتاً کتاب وسنت کی روشنی میں مرحمت فرما دیجیئے۔۔۔۔جزاکم اللہ خیرا کثیرا۔

الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب

۱۔ یقینا یہ موقوفات کے زمرے میں آتی ہے لیکن یہ ہمارا مستدل نہیں ہے بلکہ ہمارا مستدل مرفوع روایت ہے جو کہ یہ ہے :

وقال ابن نمير حدثنا الأعمش حدثنا عمرو بن مرة حدثنا ابن أبي ليلى حدثنا أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم نزل رمضان فشق عليهم فكان من أطعم كل يوم مسكينا ترك الصوم ممن يطيقه ورخص لهم في ذلك فنسختها وأن تصوموا خير لكم فأمروا بالصوم

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین فرماتے ہیں کہ جب رمضان کے روزوں کی فرضیت نازل ہوئی تو جس پر روزہ گراں گزرتا ، اگر اسکے پاس طاقت ہوتی تو وہ ہر دن ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا اور روزہ چھوڑ دیتا ، اور انہیں اس بات کی رخصت تھی ، پھر اس رخصت کو  وأن تصوموا خير لكم نے منسوخ کر دیا اور انہیں روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا

۲۔ ہمارے قیل وقال کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی موقوفات کی کوئی حیثیت ہے ، اور نہ ہی ان قیل وقال اور موقوفات کی ضرورت ہے اور مسئلہ تو مرفوع روایت سے ثابت ہو رہا ہے جو کہ میں نے پیش کی ہے۔

۳۔ شریعت اسکے بارہ میں یہ کہتی ہے کہ وہ انتظار کرے اور جب وہ صحت یاب ہو جائے تو روزہ رکھ لے ، اللہ کے رحمت سے مایوس نہ ہو اور صحت و تندرستی کی ہر حال میں امید رکھے ، بیماری کم ہو جائے تو جنوری دسمبر کے چھوٹے چھوٹے دنوں میں روزے رکھ لے ( البقرۃ) اگر نہ رکھ سکے اور فوت ہو جائے تو اسکی طرف سے اسکے اولیاء روزہ رکھ لیں گے ۔ (صحیح بخاری: 1952)

۴۔ شدت مرض میں روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں ! شریعت اسے روزہ چھوڑنے اور بعد از صحت روزوں کی تعداد مکمل کرنے کا حکم دیتی ہے ۔

۵۔ اسکا جواب _۴_ میں ہو چکا ہے

۶۔ متبادل راستہ _۴_ میں بیان ہو چکا ہے ۔

 

هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم

  • الاثنين PM 02:25
    2022-02-07
  • 835

تعلیقات

    = 1 + 3

    /500
    Powered by: GateGold