اعداد وشمار
مادہ
ابن عباس رضی اللہ عنہ کے موقف کی وضاحت
سوال
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ موقف یعنی کہ " فدیہ والی آیت محکمہ ہے منسوخہ نہیں اور یہ شیخ فانی کے بارہ میں ہے " کس بناء پر تھا انکی کیا دلیل تھی ؟
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
حقیقت کا علم تو اللہ تعالى ہی کے پاس ہے لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہ کے موقف پر بحث کے بعد میں جس نتیجہ پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ
وہ اس آیت " وعلى الذین یطیقونہ " کو " وعلى الذین یطوّقونہ فلا یطیقونہ " پڑھتے تھے :
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ أَخْبَرَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ عَنْ عَطَاءٍ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقْرَأُ وَعَلَى الَّذِينَ يُطَوَّقُونَهُ فَلَا يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَيْسَتْ بِمَنْسُوخَةٍ هُوَ الشَّيْخُ الْكَبِيرُ وَالْمَرْأَةُ الْكَبِيرَةُ لَا يَسْتَطِيعَانِ أَنْ يَصُومَا فَيُطْعِمَانِ مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًا
صحیح بخاری کتاب التفسیر باب أیاما معدودات ..... الخ ح ۴۵۰۵
اس حدیث میں جہاں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی قراءت ثابت ہو رہی ہے وہاں یہ بھی ثابت ہو رہا ہے کہ وہ اس آیت کو پہلے سے ہی بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت کے بارہ میں سمجھتے تھے نہ کہ بیمار اور مسافر کے بارہ میں !
اور کہتے تھے کہ یہ آیت جیسے نازل ہوئی ویسے ہی ثابت ہے اس میں کچھ بھی منسوخ نہیں ہوا ، جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول پیش کرنے والے سمجھتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ تو ہے لیکن ان لوگوں کے حق میں باقی ہے اور پھر وہ اس میں دائمی مریض کو بھی شامل کر دیتے ہیں ۔
اور اسی حدیث سے ان لوگوں کا بھی رد ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ " یطیقونہ " کا معنى " لا یطیقونہ " ہے ۔
الغرض ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نزدیک یہ آیت محکمہ ہے منسوخہ نہیں، اور صرف بوڑھے مرد وعورت کے لیے ہے کسی اور کے لیے نہیں ، اور اسکے الفاظ ہیں :" وعلى الذین یطوقونہ فلا یطیقونہ " ہیں
اب ہم چلتے ہیں سید الفقہاء والمحدثین سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے طرز استدلال کی طرف کہ انہوں نے یہ استدلال کیسے کیا ؟
انکی قراءت میں الفاظ " وعلى الذین یطوقونہ فلا یطیقونہ " یہ معنى دیتے ہیں کہ : " اور وہ لوگ جو کوشش کرکے روزہ رکھنا چاہتے ہیں لیکن وہ رکھ نہیں پاتے "
ان الفاظ پر اگر آگے دیکھے بغیر غور کیا جائے تو یہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ شیخ فانی اور شیخہ فانیہ فدیہ دے لیں کیونکہ بیمار میں تو روزہ رکھنے کی سکت ہی نہیں جب مرض کی شدت ہو جائے اور اسکے لیے" فعدۃ من أیام اخر " کا فرمان جاری ہو چکا ہے اور مسافر کے لیے بھی . ایسی کیفیت والے یہی لوگ بچتے ہیں یعنی بوڑھے مرد و عورت ، لہذا یہ حکم ان لوگوں کے لیے خاص ہے ۔
اس طرز استدلال کو سمجھنے کے بعد اسکے سہو اور خطا کی طرف ہم چلتے ہیں :
اس استدلال کا سہو اسی آیت سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ آیت کے اگلے الفاظ " وأن تصوموا خیر لکم " اس استدلال کو باطل قرار دیتے ہیں !!!
کیونکہ شیخ فانی اور شیخہ فانیہ میں جب قوت صیام ہی نہیں تو أن تصوموا خیر لکم کا کیا معنى !!!
یعنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ استدلال اور موقف مبنی بر سہو ہے ۔
اور مرفوع روایت :
کہ اصحاب محمد صلى اللہ علیہ وسلم میں سے جو چاہتا روزہ رکھتا اور جو چاہتا فدیہ دے لیتا حتی کہ یہ آیت نازل ہوئی " فمن شہد منکم الشہر فلیصمہ " تو انہیں روزہ ہی رکھنے کا حکم دے دیا گیا ۔
حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْعَامِرِيُّ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ كُنَّا فِي رَمَضَانَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ شَاءَ صَامَ وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ فَافْتَدَى بِطَعَامِ مِسْكِينٍ حَتَّى أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمْ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ
صحیح مسلم کتاب الصیام باب بیان نسخ قولہ تعالى وعلى الذین یطیقونہ ح ۱۱4۵
بھی اس استدلال کی نفی کرتی ہے۔
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-     
الاثنين PM  02:38   
 2022-02-07
- 1161





