اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
280
فتاوى
58
مقالات
188
خطبات

مادہ

اسلامی ملکوں میں تنظیم سازی

سوال

جہاں مسلمان حکومتیں موجود ہوں، اور وہ اپنے فرائض بخوبی سر انجام دے رہی ہوں، وہاں رعایہ کے لیے الگ سے اپنی اپنی جماعت کھڑی کرنا اور تنظیم بنانا جائز ہے؟

الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب

 کسی بھی ملک میں پائی جانے والی تنظیمیں یا جماعتیں تین طرح کی ہوتی ہیں۔

1- حکومت کی اپنی قائم کردہ۔

2- حکومت کی اجازت سے قائم کردہ۔

3- حکومت کی مخالفت میں قائم کردہ۔

ہر حکومت اپنے ملک کا نظم چلانے کے لیے مختلف ادارے یا تنظیمیں یا جماعتیں بناتی ہے۔ جیسے فوج، عدالت، پولیس، وغیرہ کے ادارے ہیں۔ ان اداروں کے اہلکار حکومت کے باقاعدہ ملازم شمار کیے جاتے ہیں۔اور حکومت انکی معاشی ضرورت پورا کرنے کے لیے انہیں سہولیات اور وظائف دیتی ہے۔

انہی جماعات یا اداروں میں جب کام بڑھ جائے ، لیکن حکومت کے غریب ہونے کی وجہ سے مزید باقاعدہ ملازمین کو بھرتی نہ کیا جاسکے تو حکومت ایسے متبرعین (رضاکاروں) کو بھرتی کرتی ہے جو مفت میں ہی ان اداروں میں کام سر انجام دیں یا انتہائی معمولی معاوضہ پہ کام کریں۔

اور جن علاقوں میں حکومت زیادہ ہی غریب ہوتی ہے، وہاں کی حکومت اپنے عوام کو یہ اجازت دیتی ہے کہ خیر اور بھلائی کے کاموں کو منظم طریقہ سے سر انجام  دینے کے لیے تنظیم سازی  کریں، اور اپنی تنظیم یا جماعت یا ادارہ کے لیے حکومتی اجازت کا سرٹیفیکیٹ حاصل کریں یعنی رجسٹریشن کرائیں۔ یہ تنظیمیں حکومت کی اجازت سے بلکہ بہت حد تک حکومت کی خواہش پر بنتی ہیں، اور حکومتی رہنمائی میں اپنا کام سر انجام دیتی ہیں۔حکومت ایسی تنظیموں کے لیے ایک دائرہ عمل متعین کرتی ہے، اور وہ جماعت اس دائرہ میں رہ کر کام کرتی ہے۔ اگر کوئی جماعت اس دائرہ سے باہر نکلنے لگے تو فورا اسے لگام دے دی جاتی ہے۔چونکہ یہ غیر سرکاری ادارے یا غیر سرکاری جماعتیں یا غیر سرکاری تنظیمیں ہوتی ہیں، سو یہ حکومت پر کسی طرح بھی بوجھ نہیں ہوتیں، اپنے ملک کے عوام سے ہی چندہ جمع کرکے ، ایسے کام سر انجام دیتی ہیں ، جو حکومت کے کرنے کے ہوتے ہیں ، لیکن حکومت اپنی تنگ دستی کی بناء پر وہ کام کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔ انکے اس رضاکارانہ عمل پہ حکومت ان سے راضی ہوتی ہے اور حتى المقدور انکے لیے آسانیاں مہیا کرتی ہے۔

یہ دونوں قسم کی  جماعتیں یعنی (1) حکومت کی اپنی تیار کردہ جماعتیں اور (2) حکومتی اجازت سے بننے والی جماعتیں بنیادی طور پہ حکومت ہی کی جماعتیں ہوتی ہیں۔ کیونکہ پہلی قسم کے ادارے حکومت کے ملازم اور تنخواہ دار ہوتے ہیں جبکہ دوسری قسم کے ادارے رضا کارانہ طور پہ حکومت کے ممد ومعاون ہوتے۔

اور دین اسلام ایسی جماعتوں کو سراہتا ہے، ان پہ نقد نہیں کرتا۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:

الدِّينُ النَّصِيحَةُ

دین ہے ہی خیر خواہی کا نام

پوچھا گیا کس کے لیے ؟ تو آپ ﷑ نے فرمایا:

لِلَّهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ

اللہ کے لیے، اسکے رسول ﷺ کے لیے لیے ، مسلمانوں کے حکمرانوں کے لیے، اور عام مسلمانوں کے لیے۔

صحیح مسلم: 55

تو حکومتیں اپنی خیر خواہی کے لیے پہلی قسم کے ادارے خود تیار کرتی ہےاور دوسری قسم کے ادارے حکومتی خیر خواہی کی خاطرملک کے عوام تیار کرتے ہیں اور حکومت اپنے فائدہ کی خاطر انہیں قبول کرتی ہے۔ اور باقاعدہ اجازت نامہ یعنی رجسٹریشن جاری کرتی ہے۔

جو تیسری قسم کی تنظیمیں ہیں، یعنی حکومت کی مخالفت میں بنائی جانے والی تنظیمیں، خواہ وہ اسلام کے نام پر بنیں یا محض حکومت سے اقتدار چھیننے اور بغاوت کی غرض سے معرض وجود میں آئیں۔ اور اسلام کے نام پہ بننے والی تنظیمیں خواہ حکومت کے خلاف مسلح جد وجہد کریں یا مسلم حکام کے خلاف محض لوگوں کی ذہن سازی کریں، بہر صورت اسلام انہیں قبول نہیں کرتا۔ اور ایسی تنظیموں کو پنپنے کی اجازت نہیں  دیتا۔  بلکہ ایسے تمام تر اقدامات جو حکومت کو گرانے، حکومتی عمل میں رکاوٹ پیدا کرنے ، یا حکومت کو کمزور کرنے کے لیے ہوں ، اسلامی اصطلاح میں بغاوت یا خروج کہلاتے ہیں۔ اور دین اسلام میں اسکی سختی سے ممانعت ہے۔

 

هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم

  • الاثنين PM 09:58
    2022-02-07
  • 1049

تعلیقات

    = 2 + 1

    /500
    Powered by: GateGold