اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
280
فتاوى
58
مقالات
188
خطبات

مادہ

حکومت کے کارندوں کے ذاتی فعل پر بد دعاء

سوال

  شیخ ہمارے ملک میں حکومت کے کارندے جب ڈیوٹی پر ہوتے ہیں تو سرکار نے جس کام کا انہیں حکم دیا ہے اسکی تعمیل کرتے ہوئے  وہ کچھ ایسے کام بھی کر جاتے ہیں جسکی انہیں اجازت نہیں ہوتی ۔
مثلا : گیس، بجلی ، انکم ٹیکس، محکمہ تعلیم، وغیرہ کے دفاتر میں جب ہمیں کوئی کام ہوتا ہے تو وہاں بیٹھے لوگ زبردستی  رقم بٹورنے کی کوشش کرتے ہیں جوکہ سرکاری فیس کے علاوہ ہوتی ہے ۔ اگر ہم انہیں ادائیگی نہ کریں تو ہمارا کام نہیں ہوتا۔
پولیس کسی گھر میں کسی مجرم کو پکڑنے کے لیے چھاپہ مارے ، تو گھر کی کچھ قیمتی اشیاء  مثلا موبائل فون وغیرہ اٹھا کر غائب کر جاتے ہیں اور پھر مانتے بھی نہیں ، اور مجرم کی جیب سے نکلنے والی رقم ، موبائل، اور دیگر چیزوں کو بھی ہضم کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے ۔
اور اس طرح کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں ۔ ہم نے  علماء سے سن رکھا ہے کہ حکمرانوں کے لیے اگرچہ  وہ ظالم بھی ہوں تو بدعاء نہیں کرنی چاہیے ، سلف کا منہج یہی ہے کہ انکے لیے دعاء کی جائے ۔ لیکن ایسی صورت حال میں جبکہ صرف وردی اور عہدے کی بناء پر ہی زیادتی ہو رہی ہو ، جبکہ ملک کا قانون یا حکومت بھی اسکی اجازت نہ دیتے ہوں تو ان مخصوص افرادکے خلاف انکے خاص غلط اقدام کی بناء پر بد دعاء کی جاسکتی ہے ؟ یا انہیں حکومتی عہدے دار ہونے کی وجہ سے بد دعاء دینا جائز نہیں ؟  

الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب

حکمرانوں یا حکومتی عہدہ داروں پر بد دعاء کا مسئلہ سمجھنے سے قبل یہ بات اچھی طرح ذہن نشیں کر لیں کہ اسلام  اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ حکام کی اطاعت کا حکم دیتا ہے اور انکی نافرمانی کی اجازت کبھی نہیں دیتا ، الا کہ حکمران شریعت کے خلاف  حکم دیں ۔ جب کوئی ولی امر خلاف شریعت حکم دے تو اسکے صرف اسی حکم میں نافرمانی کرنا جائز ہوگی ، باقی احکام میں پھر بھی اطاعت کرنا ہی واجب ہوگی۔

رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ (جہادی لشکر)  روانہ کیا اور ان پر ا یک انصاری کو امیر مقرر فرمایا۔ اور انہیں حکم دیا کہ وہ اسکی اطاعت کریں۔ اس (سالار لشکر) کو غصہ آیا تو اس نے کہا "کہا نبی مکرم  صلى اللہ علیہ وسلم نے تمہیں میری اطاعت کرنے کا نہیں کہا تھا؟" تو انہوں کہا : کیوں نہیں۔ تو اس نے کہا پھر لکڑیاں جمع کرو ، انہوں نے لکڑیاں جمع کیں ۔ اس نے کہا آگ جلاؤ، انہوں نے آگ جلا دی ۔ وہ کہنے لگے اس میں کود جاؤ ۔ تو کچھ لوگوں نے کودنے کا ارادہ کیا اور کچھ انہیں روکنے لگے کہ ہم تو آگ سے ہی بچنے کے لیے نبی صلى اللہ علیہ وسلم کی طرف آئے ہیں ۔ وہ اسی کشمکش کا شکار رہے حتى کہ آگ بجھ گئی اور اسکا غصہ بھی ٹھنڈا ہوگیا۔ یہ بات نبی صلى اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

«لَوْ دَخَلُوهَا مَا خَرَجُوا مِنْهَا إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ، الطَّاعَةُ فِي المَعْرُوفِ»

اگر وہ اس میں داخل ہو جاتے تو قیامت تک اس (آگ ) سے نہ نکلتے۔ اطاعت معروف (اچھے کاموں) میں ہے۔

صحيح البخاري: 4340

اور اگر حاکم ظالم ہوں، ظلم وستم کریں تو بھی انکی اطاعت کرنا فرض رہتا ہے ۔ انکے ظلم وستم کی وجہ سے انکی نافرمانی کی اجازت نہیں ہے۔

رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

«يَكُونُ بَعْدِي أَئِمَّةٌ لَا يَهْتَدُونَ بِهُدَايَ، وَلَا يَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِي، وَسَيَقُومُ فِيهِمْ رِجَالٌ قُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الشَّيَاطِينِ فِي جُثْمَانِ إِنْسٍ»، قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ أَصْنَعُ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ؟ قَالَ: «تَسْمَعُ وَتُطِيعُ لِلْأَمِيرِ، وَإِنْ ضُرِبَ ظَهْرُكَ، وَأُخِذَ مَالُكَ، فَاسْمَعْ وَأَطِعْ»

میرے بعد ایسے ائمہ (حکمران) ہوں گے جو میری ہدایت پر نہ ہونگے اور نہ ہی میری سنت پر عمل پیرا ہوں گے ۔ ان میں ایسے لوگ ہونگے جنکے دل انسانوں کے جسموں میں شیطانوں کے دل ہونگے۔ (سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں) میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم اگر مجھ پہ ایسا وقت آ جائے تو میں کیا کروں؟  آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو امیر (حاکم) کی بات سن اور اسکی اطاعت کر، خواہ تیری پیٹھ پہ مارا جائے اور تیرا مال لوٹ لیا جائے، تو سن اور اطاعت کر!۔

صحيح مسلم: 1847

اسی طرح فرمایا:

«إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِي أَثَرَةً وَأُمُورًا تُنْكِرُونَهَا» قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «أَدُّوا إِلَيْهِمْ حَقَّهُمْ، وَسَلُوا اللَّهَ حَقَّكُمْ»

تم عنقریب میرے بعد اقرباء پروری اور ایسے امور دیکھو گے کہ جنہیں تم نہ پسند کرو گے۔ تو انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم پھر آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " انہیں انکا حق دو اور اپنا حق اللہ سے مانگو"۔

صحيح البخاري: 7052

مزید فرمایا:

«خِيَارُ أَئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُحِبُّونَهُمْ وَيُحِبُّونَكُمْ، وَيُصَلُّونَ عَلَيْكُمْ وَتُصَلُّونَ عَلَيْهِمْ، وَشِرَارُ أَئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُبْغِضُونَهُمْ وَيُبْغِضُونَكُمْ، وَتَلْعَنُونَهُمْ وَيَلْعَنُونَكُمْ»، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَفَلَا نُنَابِذُهُمْ بِالسَّيْفِ؟ فَقَالَ: «لَا، مَا أَقَامُوا فِيكُمُ الصَّلَاةَ، وَإِذَا رَأَيْتُمْ مِنْ وُلَاتِكُمْ شَيْئًا تَكْرَهُونَهُ، فَاكْرَهُوا عَمَلَهُ، وَلَا تَنْزِعُوا يَدًا مِنْ طَاعَةٍ»

تمہارے اچھے حکام وہ ہیں کہ جن سے تم محبت کرو اور وہ بھی تم سے محبت کریں ، تم انکے لیے دعاء گو رہو اور وہ تمہارے لیے دعائیں کریں۔ اور تمہارے برے حکام وہ ہیں کہ جن سے تم بغض رکھو اور وہ تم سے نفرت کریں، تم انہیں برا بھلا کہو اور وہ تمہیں برا بھلا کہیں۔ کہا گیا اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم کیا ہم انکے خلاف تلواریں نہ نکال لیں؟ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہیں! جب تک وہ تم میں نماز کو قائم رکھیں (تم انکے خلاف نہیں لڑ سکتے) اور جب تم میں ان میں کوئی برائی دیکھو ، تو انکے عمل کو برا جانو، لیکن اطاعت سے انکار نہ کرو۔

صحيح مسلم: 1855

اسی طرح حکومت کے کارندے  بھی اگر ظلم کرتے ہیں ایسا  کچھ کرتے ہیں جسکی انہیں حکومت کی طرف سے اجازت نہیں ہوتی ، محض اپنے عہدے کی بناء زیادتی کر جاتے ہیں تو اس صورت میں بھی  معروف کاموں میں انکی اطاعت کی جائے گی اور انکی طرف سے کی جانے والی زیادتی انکے بڑوں کے آگے ذکر کی جائے یا میڈیا کا سہارا لے کر اپنے پر ہونے والا ظلم بیان کیا جائے۔ مگر ان سے مزاحمت یا نافرمانی کی شریعت میں ہرگز اجازت نہیں ہے۔

عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَتَلَ رَجُلٌ مِنْ حِمْيَرَ رَجُلًا مِنَ الْعَدُوِّ، فَأَرَادَ سَلَبَهُ، فَمَنَعَهُ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ، وَكَانَ وَالِيًا عَلَيْهِمْ، فَأَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ، فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ لِخَالِدٍ: «مَا مَنَعَكَ أَنْ تُعْطِيَهُ سَلَبَهُ؟» قَالَ: اسْتَكْثَرْتُهُ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: «ادْفَعْهُ إِلَيْهِ»، فَمَرَّ خَالِدٌ بِعَوْفٍ، فَجَرَّ بِرِدَائِهِ، ثُمَّ قَالَ: هَلْ أَنْجَزْتُ لَكَ مَا ذَكَرْتُ لَكَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمِعَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتُغْضِبَ، فَقَالَ: «لَا تُعْطِهِ يَا خَالِدُ، لَا تُعْطِهِ يَا خَالِدُ، هَلْ أَنْتُمْ تَارِكُونَ لِي أُمَرَائِي؟ إِنَّمَا مَثَلُكُمْ وَمَثَلُهُمْ كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتُرْعِيَ إِبِلًا، أَوْ غَنَمًا، فَرَعَاهَا، ثُمَّ تَحَيَّنَ سَقْيَهَا، فَأَوْرَدَهَا حَوْضًا، فَشَرَعَتْ فِيهِ فَشَرِبَتْ صَفْوَهُ، وَتَرَكَتْ كَدْرَهُ، فَصَفْوُهُ لَكُمْ، وَكَدْرُهُ عَلَيْهِمْ»

عوف بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حِمیَر قبیلہ کے ایک شخص نے دشمن کا ایک بندہ قتل کیا ، اور اس سے چھینا گیا مال  لینا چاہا تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جو کہ انکے امیر تھے ، انہوں نے سا را مال نہ دیا۔(قانون شرعی یہ ہے کہ جو شخص دشمن کے کسی بندے کو قتل کرے ، اور اسکے پاس اسکا ثبوت ہو تو اس مقتول سے حاصل شدہ سارا مال قاتل مجاہد کو دیا جاتا ہے)  عوف بن مالک رضی اللہ عنہ نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو انہوں نے  آپ صلى اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتائی۔ تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ نے اسے وہ مال کیوں نہیں دیا؟ تو عرض کرنے لگے اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم میں نے اسے زیادہ سمجھا تھا (اس لیے نہیں دیا) تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسے دے دے۔خالد رضی اللہ عنہ عوف رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے تو انہوں نے خالد کی چادر کو پکڑ کر کھینچا اور کہا  میں نے آپکو نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں جو بات کہی تھی وہ پوری نہیں کر دی؟ (یعنی یہ کہ آپ نہیں دے رہے تو ہم نبی صلى اللہ علیہ وسلم کو بتا ئیں گے پھر آپکو دینا پڑے گا)  یہ بات رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے سن لی تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم غصہ میں آگئے اور فرمایا : اے خالد (اب) اسے نہ دو، اسے نہ دو!۔ اور فرمایا : کیا تم میرے امراء کومیری خاطر بھی معاف نہیں کرتے ؟ تمہاری اور انکی مثال اس شخص کی طرح ہے جسے اونٹوں یا بکریوں کا چرواہا بنایا گیا سو اس نے انہیں چرایا  پھر انہیں  پانی پلانے کا وقت آیا تو وہ انہیں حوض پر لے کر گیا ، تو انہوں نے اسکا صاف ستھرا پانی پی لیا اور گدلا پانی چھوڑ دیا۔ تو اس کا صاف ستھرا تمہارے لیے ہے اور گدلا ،ان (امراء) کے لیے ہے۔

 صحيح مسلم: 1753

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ

1-  حکومتی کارندوں کا ظلم وجبر اور انکی طرف سے کی جانے والی زیادتی کو اعلى حکام کے آگے رکھا جائے اور انصاف طلب کیا جائے ۔

2-  حکومتی عہدیداروں کے ظلم کے بعد جب آپکو انصاف مل جائے تو ان ظالم حکومتی کارندوں سے ہتک آمیز سلوک کرنے کی ، یا انہیں عار دلانے، یا طعن وتشنیع کا نشانہ بنانے کی اجازت نہیں ہے۔

3- حاکم یا قاضی اگر محسوس کرکے کہ مظلوم انصاف ملنے کے بعد بپھر گیا ہے تو اسے قرار واقعی سزا بھی دے سکتا ہے ۔ جیسا کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم خالد رضی اللہ عنہ کو مال لوٹانے سے روک دیا۔

رہی بات ظالم  حکومتی عہدیداروں کے لیے انکے خاص فعل پر بد دعاء کرنے کی تو اسکی شریعت میں اجازت موجود ہے۔ البتہ صبر کرنا زیادہ بہتر ہے ۔

اللہ تعالى کا فرمان ہے:

لَا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ

اللہ تعالى اعلانیہ بری بات کہنے کو پسند نہیں کرتا، الا کہ کسی پر ظلم ہوا ہو۔

{النساء: 148}

مظلوم شخص ظالم عہدیدار کے خلاف بد دعاء کرسکتاہے ، اسی لیے نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے جب معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو انہیں نصیحت فرمائی:

فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ وَاتَّقِ دَعْوَةَ المَظْلُومِ، فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ

لوگوں کے عمدہ مال سے بچنا، اور مظلوم کی بد دعاء سے ڈرنا، کیونکہ اسکے اور اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔

صحيح البخاري: 1496

اور ظلم  کرنے والے عہدیدار کے خلاف خود رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے بد دعاء فرمائی ہے:

«اللهُمَّ، مَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا فَشَقَّ عَلَيْهِمْ، فَاشْقُقْ عَلَيْهِ، وَمَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا فَرَفَقَ بِهِمْ، فَارْفُقْ بِهِ»،

اے اللہ جو شخص میری امت کے کسی بھی کام کا ذمہ دار بنا اور اس نے ان پر سختی کی تو اس پر تو بھی سختی فرما، اور جو شخص میری امت کے کسی بھی کام کا ذمہ دار بنا اور اس نے ان پر نرمی کی تو اس پر تو بھی نرمی فرما۔

صحيح مسلم: 1828

لیکن یہ بات یاد رہے کہ معاف کردینا ، بد دعاء نہ دینا ، اور صبر کرنا افضل اور بہتر ہے :

وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ

اور البتہ جس نے صبر کیا، اور معاف کر دیا تو یہ امور کی پختگی میں سے ہے۔

الشورى: 43

هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم

  • الثلاثاء AM 10:36
    2022-02-08
  • 976

تعلیقات

    = 4 + 8

    /500
    Powered by: GateGold