اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
280
فتاوى
58
مقالات
188
خطبات

مادہ

حکومتیں اور جماعتوں کے امراء

سوال

شیخ رفیق طاہر صاحب حفظک اللّہ! اشکال یہ ہے کہ اگر موجودہ حکمران اولوالامر ہیں تو جماعتوں کے امراء کی حیثیت کیا ہے؟ اور ان کی اطاعت کس طرح سے ہوگی؟  پھر ان حکومتوں کی حیثیت امارت اسلامیہ والی ہے؟
 جس حدیث میں بد ترین حکمرانوں کا تذکرہ ہے - قلوبہم قلوب الشیاطین فی جثمان انس- اسکے آخر میں -تسمع وتطیع الامیر- سے کیا وہی حکمران ہی امیر مراد ہیں؟ یا اورکوئی مراد ہے؟
 محکموں کے باس یعنی سرکاری افسروں کی اطاعت اولوالامر کی اطاعت کا درجہ رکھتی ہے؟

الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب

حکمران بھی اولی الامر ہیں اور اور جماعتوں کے امراء بھی!

در اصل غلطی اس وقت لگتی ہے جب جماعتوں اور تنظیموں کے امراء کو حکام یا خلفاء کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔ حتى کہ بعض تنظیمیں اپنی حزبیت میں اتنی متعصب ہوتی ہیں کہ جو انکی جماعت میں نہیں اسے صحیح طور پہ مسلمان ہی نہیں سمجھا جاتا۔  اور احادیث میں امراء کی اطاعت کا جہاں جہاں بھی حکم آیا ہے وہ اس حکم کو اٹھا کر اپنی اپنی تنظیم اور اپنے اپنے امیر پہ فٹ کر بیٹھتے ہیں۔ اور اپنی تنظیم سے نکل جانے والے کو مرتد اور اسکی موت کو جاہلیت کی موت قرار دے دیتے ہیں۔ یہ سب "حزبیت" اور "خارجیت" ہے!!!۔

احادیث میں مذکور جماعت المسلمین اور امام المسلمین سے مراد مسلمانوں کا متفقہ خلیفہ اور امیر المؤمنین ہے اور اسکی جماعت ہے۔ نہ موجودہ حکومتیں ان احادیث کا صحیح مصداق ہیں اور نہ ہی دین کے نام پہ بننے والی تنظیمیں اور جماعتیں!

البتہ یہ ضرور ہے کہ موجودہ مسلم حکومتیں جماعت المسلمین کے قریب تر ہیں‘ سو احادیث میں موجود امراء کی اطاعت اور لزوم جماعت کی بہت حد تک مصداق یہ حکومتیں ٹھہرتی ہیں۔ لیکن مکمل طور پہ نہیں! کیونکہ جماعت المسلمین ایک ہی جماعت ہے نہ کئی ایک جماعات... جبکہ یہاں حکومتیں کئی ایک ہیں... اور ایک امیر المؤمنین کے ہوتے دوسرے کا امیر المؤمنین ہونا شرعا جائز نہیں... جبکہ یہاں ہر ملک کا اپنا حاکم ہے... الخ اور بہت سے فروق ہیں جو احادیث میں موجود جماعت المسلمین اور موجودہ حکومتوں کے مابین پائے جاتے ہیں۔ سو ان فروق کی بناء پر انکے حکم میں بھی فرق آئے گا۔

لیکن بہر حال ولاۃ امور ہونے کے ناطے انکی معروف میں اطاعت فرض ہے۔  اور اسی طرح حکومت کی اپنی بنائی ہوئی تنظیمیں یا حکومت کی اجازت سے بننے والی تنظیمیں اور جماعتیں بھی اپنی ایک حیثیت رکھتی ہیں اور انکے امراء بھی اپنی تنظیم کی حدتک ولی امر ہیں۔ لیکن اگر حکومت اور اسکے ماتحت تنظیموں کے امراء کو برابر کا درجہ دے لیں گے تو کام خراب ہو جائے گا ۔ لہذا یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کسی بھی ملک میں اصل ولی امر حاکم ہے اور اسکی ماتحت جماعتوں یا اداروں کے امراء  ذیلی ولاۃ امور ہیں۔ اور بڑے ولی امر کے حکم کے خلاف چھوٹے ولی امر کی اطاعت جائز نہیں ہے۔

پھر اسکے ساتھ ساتھ یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ مختلف اداروں ‘ جماعتوں‘ تنظیموں کے امراء کا دائرہ امارت واطاعت یکساں نہیں ہوتا۔ خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اس فرق کو سمجھا نہیں جاتا۔  اگر اس فرق کو سمجھ لیں کہ کس امیر کا دائرہ امارت کیا ہے اور اسکی اطاعت کہاں تک ہے۔ تو سارے اشکال ہی کافور ہو جائیں گے۔ ان شاء اللہ۔

مثلا آپکی یونیورسٹی میں آپکے پرنسپل یونیورسٹی کے امیر اور آپکے لیے اولی الامر ہیں ۔ انکا دائرہ امارت یونیورسٹی ہے۔ اور آپ پر یونیورسٹی کے امور میں انکی اطاعت اخلاقا اور شرعا واجب ہے۔ یونیورسٹی سے خارج امور میں وہ آپ کے لیے اولی الأمر نہیں ہیں۔ اور نہ ہی آپ پر اپنے ذاتی امور میں (جو یونیورسٹی سے ہٹ کر ہوں) انکی اطاعت واجب ہے۔

اسی طرح مثلا: حافظ سعید صاحب حفظہ اللہ "جماعۃ الدعوۃ" کے امیر ہیں‘  پروفیسر ساجد میر صاحب  حفظہ اللہ "مرکزی جمعیت" کے امیر ہیں ... الخ۔ اب جماعت کے تمام تر امور میں وہ ولی امر ہیں، اور انکی اطاعت جماعت کے انتظامی معاملات میں اخلاقا اور شرعا واجب ہے۔ انکا دائرہ امارت "جماعت" ہے ۔ اور جماعت ایک "تنظیم" ہے یعنی چند دینی و شرعی امور کی بجا آوری کے لیے ایک منظم ادارہ! اس دائرہ امارت میں آپ پر انکی اطاعت واجب ہے۔ لیکن وہ امور جو جماعت کے دائرہ میں نہیں ، ان میں جماعتی امیر کی اطاعت نہیں ہے۔ کیونکہ وہ اس معاملہ میں ولاۃ امور نہیں! مثلا آپکے گھریلو یا نجی زندگی کے معاملات، آپکی یونیورسٹی کے معاملات، .. الخ

حتى کہ خلیفہ وقت یا حاکم وقت کا بھی دائرہ اطاعت سب سے وسیع ہونے کے باوجود بعض امور میں نہیں ہوتا جیسے گھریلو معاملات وغیرہ۔ البتہ حاکم بعض صورتوں میں مداخلت کرنا چاہے تو ان امور میں بھی مداخلت کرسکتا ہے۔ اور جب تک وہ معصیت کا حکم نہ دے اسکی اطاعت واجب ہوگی۔

یعنی ضرورت ولی امر کی ولایت کو سمجھنے کی ہے کہ اسکی ولایت کہاں سے کہاں تک ہے۔ جہاں تک اسکی ولایت ہے وہیں تک اسکی اطاعت ہے۔

 

 

هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم

  • الثلاثاء AM 10:46
    2022-02-08
  • 991

تعلیقات

    = 7 + 4

    /500
    Powered by: GateGold