اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
280
فتاوى
58
مقالات
188
خطبات

مادہ

مسلمان ملکوں میں جلوس اور ریلیاں نکالنا

سوال

کیا مسلمان ممالک میں جلوس ، ریلیاں، اور کارواں نکالنا جائز ہے؟

الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب

 قافلہ، کارواں، ریلی، یا جلوس ، ذاتی طور پر ناجائز یا غلط نہیں ۔ اگر شریعت اسلامیہ بتائے گئے اصول وضوابط کی پابندی کی جائے تو یہ ایک مستحسن امر ہے کہ مسلمان ایک منظم طریقہ سے کسی خاص مقصد کے لیے کسی خاص جگہ تک سفر کریں۔  یہ منظم سفر اگر تھوڑے سے افراد پہ مشتمل ہو تو اسے جلوس یا ریلی کا نام دیا جاتا ہے اور اگر بہت بڑی تعداد پر مشتمل ہو تو اسے قافلہ یا کارواں کہا جاتا ہے۔  دور نبوی میں جہادی کارواں، اسکی بہتر ین مثال ہیں ۔ ایسے ہی نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا قافلہ حج بھی ایک مثالی کارواں تھا۔

آجکل جو ریلیاں یا جلوس عموما نکالے جاتے ہیں انکی بنیادی طور پہ تین  اقسام ہیں۔

1- ایسے جلوس یا کارواں جنکا مقصد حکومت سے تصادم ہوتا ہے۔ خواہ وہ تصادم عسکری نوعیت کا ہو یاغیر عسکری ہو۔

2- ایسے جلوس یا کارواں جو جمہوری حکومتوں کے  کہنے پر  نکالے جاتے ہیں۔ جن سے حکومت کا مقصد عالمی کافر طاقتوں کو اپنی عوام کی طرف سے حکومت پر پریشر ظاہر کرواکر خاص مفادات حاصل کرنا ہوتا ہے۔ یعنی یہ کارواں یا جلوس مکمل طور پہ سرکاری جلوس ہی ہوتے ہیں ، البتہ حکمت عملی کے تحت ظاہری طور پہ حکومت ان سے عدم تعلق کا اظہار کرتی ہے۔

3- ایسے جلوس یا کارواں  جو حکومت کے کہنے پر تو نہیں ہوتے، لیکن حکومت سے اجازت لے  کر نکالے جاتے ہیں۔ اور حکومت ایک حد تک انکی اجازت دیتی ہے۔

ان میں سے پہلی قسم کے جلوس اور کارواں شریعت اسلامیہ میں ناجائز ہیں اور انکی قطعا کوئی اجازت نہیں ہے۔ اور نہ صرف یہ کہ ایسے کارواں یا جلوس شریعت میں ممنوع ہیں ، بلکہ ہر وہ اقدام جس سے کسی مسلمان حکومت کو کمزور کیا جاسکتا ہو، شرع نے حرام قرار دیا ہے۔ کیونکہ یہ تمام تر اقدامات بغاوت کے زمرہ میں آتے ہیں ۔

سیدنا عرفجہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا:

«إِنَّهُ سَتَكُونُ هَنَاتٌ وَهَنَاتٌ، فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يُفَرِّقَ أَمْرَ هَذِهِ الْأُمَّةِ وَهِيَ جَمِيعٌ، فَاضْرِبُوهُ بِالسَّيْفِ كَائِنًا مَنْ كَانَ»

عنقریب فتنے اور فسادات ہونگے، تو جو بھی اس امت شیرازہ کو بکھیرنا چاہے، تو اسکو تلوار سے مارو، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔

صحیح مسلم:1852

یعنی شریعت اسلامیہ نے  بغاوت کی سزا قتل رکھی ہے۔

اور وہ ممالک جن میں بادشاہی نظام ہے ، ان میں جلوس یا ریلیاں نکالنے کا واحد یہی مقصد ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک کے علماء على الاطلاق ہر قسم کے کارواں اور ریلیوں اور جلوسوں کی مذمت کرتے ہیں۔  کیونکہ بادشاہی نظام میں حکومت کی ایسی کوئی مجبوری نہیں ہوتی کہ وہ اپنے آپ کو اپنی عوام کے سامنے بے بس ظاہر کرے۔

 

 جبکہ جمہوری نظام حکومت میں معاملہ اسکے برعکس ہوتا ہے۔ جمہوری ملک میں عوام کی اکثریت ، عوام کا پریشر، عوام کے پرزور مطالبات ملک کے نظام کو چلاتے ، اور قوانین میں تبدیلیاں لانے کا باعث بنتے ہیں۔ اور جن  جمہوری ملکوں کی حکومتیں کمزور ہوتی ہیں وہ اپنے حامی  افراد کے ذریعہ ایسے جلوسوں اور ریلیوں اور کاروانوں کا اہتمام کرتی ہیں جن سے وہ عالمی طاقتوں کے سامنے اپنی بے بسی کا اظہار کرسکیں اور اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کرسکیں۔ یعنی ہوتا یوں ہے کہ حکومت ایک کام کرنا چاہتی ہے لیکن عالمی طاقتوں کی مقروض ہونے یا ان سے مجبورا کچھ معاہدات کرنے کے نتیجہ میں وہ کر نہیں پاتی، تو اسکے لیے وہ حکومت اپنے ملک میں خود ہی اس قسم کے عوامی مطالبات، یا ریلیاں اور کارواں پیدا کرتی ہے جس سے حکومت پر عالمی دباؤ میں کمی واقع ہوسکے اور حکومت اپنے ملک اور اپنی قوم کے مفاد میں کچھ فیصلے کر سکے۔  تو اس قسم کے کارواں اور جلوس  تو اپنے اولی الامر کی اطاعت کے نتیجہ میں ہوتے ہیں۔ اور اپنے حکام اور ولی امر کے حکم کی تعمیل کرنے کا حکم اللہ تعالى نے قرآن مجید میں دیا ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ

اے اہل ایمان اللہ ﷯ کی اطاعت کرو اور رسول ﷺ کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے اولی الامر کی بھی۔

[النساء : 59]

لہذا اس قسم کے جلوس اور کاروں حکمرانوں کے حکم پر، انکی اطاعت وفرمانبرداری میں، اپنے ملک وقوم کی بھلائی کے لیے نکالے جاتے ہیں ، سو یہ جائز اور درست ہیں۔

تنبیہ اول:

یہاں یہ بات یاد رہے کہ اس قسم کے جلوس بھی "خارجی ذہنیت" کو پروان چڑھانے کا سبب بن جایا کرتے ہیں۔ لہذا جمہوری حکومتوں کو بھی خبردار رہنا چاہیے، اور انکے نتیجہ میں پیدا ہونے والے مفاسد کا علاج پہلے سوچ کر پھر ہی ایسے جلوس نکالنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ کیونکہ ان جلوسوں میں بھی صرف حکومت اور دینی یا سیاسی جماعتوں کے قائدین کو ہی علم ہوتا ہے کہ اصل ماجرا کیا ہے۔ جبکہ عوام میں سے اکثر کو حقیقت حال کا علم نہیں ہوتا۔ جسکی بناء پر باغیانہ سوچ عوام میں پیدا ہوسکتی ہے۔

تنبیہ ثانی:

سطور بالا سے کوئی یہ نہ سمجھنے لگے کہ ہم  مروجہ جمہوری نظام حکومت کو  شرعی نظام حکومت سمجھتے  ہیں۔ بلکہ ہمارا موقف یہ ہے کہ جمہوری نظام حکومت، اسلامی نظام حکومت سے بہت مختلف ہے۔ مثلا اسلامی نظام حکومت میں جب ایک شخص بر سر اقتدار آ جائے تو اسکی مخالفت کرنا، اس سے کسی بھی طور پہ اقتدار چھیننے کی کوشش کرنا، حاکم پہ تنقید برائے تنقید کرنا، وغیرہ سب ناجائز ہے۔ جبکہ مروجہ جمہوری نظام میں حزب اختلاف نظام حکومت کا ایک بنیادی جزو ہے۔ اگر حزب اختلاف ہی نہ ہو تو جمہوریت ہی ختم ہو جاتی ہے۔ جمہوریت میں حزب اختلاف کو جمہوریت کا حسن کہا جاتا ہے۔ یعنی وہی کام جو اسلام کے نظام خلافت  وملوکیت میں سراسر ناجائز ہے ، جمہوریت کا جزء لازم ہے! اسی طرح اور بھی بہت سے فروق ہیں مروجہ جمہوری نظام اور اسلام کے ملوکیت یا خلافت والے نظام کے مابین، جنہیں ذکر کرنے کا یہ محل نہیں ہے۔

 

اور تیسری قسم کے جلوس یا کاروان یاتو مذہبی ہوتے ہیں یا سیاسی۔

اگر مذہبی جلوس ہوں تو بھی یہ جائز نہیں ، کیونکہ شریعت نے کوئی ایسی عبادت مقرر نہیں کی جو جلوسوں کی شکل میں سرانجام دی جاتی ہو۔

ہاں کسی عبادت کے لیے منظم طریقے سے چل کر جانا ہو تو پھر یہ درست عمل ہے ، مثلا کسی دینی جلسہ، کانفرنس یا اجتماع میں منظم انداز سے ہر علاقہ سے کارواں اور قافلہ نکالنا، یا حج یا عمرہ کی ادائیگی کے لیے منظم گروپوں کی شکل میں جانا ،وغیرہ۔

اور اگر یہ جلوس سیاسی ہوں تو بھی جائز نہیں، اسکی وجہ سطور بالا میں بیان ہو چکی ہے۔

 

آخر میں ایک اہم بات کی طرف توجہ دلاؤں گا جسے سمجھنا  نہایت ضروری ہے۔ اور وہ یہ کہ جن جلوسوں یا کارواں کی شرعا رخصت واجازت ہے۔ ان کے لیے بھی شریعت اسلامیہ نے کچھ اصول مقرر فرمائے ہیں۔

مثلا:

گلیوں بازاروں اور سڑکوں پہ اونچی اونچی آواز سے بولنا، شور مچانا، غل غپاڑہ کرنا، ہلڑ بازی کرنا، یہ سب کام دین اسلام میں ممنوع ہیں۔ رسول اللہ  ﷺ فرماتے ہیں:

وَإِيَّاكُمْ وَهَيْشَاتِ الْأَسْوَاقِ

اور تم بازاروں میں شور غل کرنے سے بچو۔

صحیح مسلم:432

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ﷞ سے نبی مکرم ﷺ کے اخلاق کے بارہ میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

لَمْ يَكُنْ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا وَلَا صَخَّابًا فِي الأَسْوَاقِ

نہ تو آپ ﷑ فحش گو تھے، اور نہ ہی تکلفا فحش گوئی کرتے تھے، اور نہ ہی بازاروں میں اونچی اونچی آواز سے بولنے والے تھے۔

جامع الترمذی:2016

سیدنا ابو موسى اشعری ﷜ فرماتے ہیں کہ سفر حج میں ہم جب کسی بلندی پہ چڑھتے تو تکبیر و تہلیل کہتے تو ہماری آوازیں بلند ہو جاتیں تو رسول اللہ ﷺ فرماتے:

«يَا أَيُّهَا النَّاسُ ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، فَإِنَّكُمْ لاَ تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلاَ غَائِبًا، إِنَّهُ مَعَكُمْ إِنَّهُ سَمِيعٌ قَرِيبٌ، تَبَارَكَ اسْمُهُ وَتَعَالَى جَدُّهُ»

لوگو! اپنے آپ پہ رحم کرو،تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکارتے، وہ (اللہ) تو تمہارے ساتھ ہے، یقینا وہ خوب سننے والا، بہت قریب ہے۔ اسکا نام نامی بابرکت ہے، اور اسکی بزرگی بہت بلند ہے۔

صحیح البخاری: 2992

حج کے موقع پہ تکبیر و تہلیل وتلبیہ جہرا کہنا چاہیے، یہ نبی مکرم ﷺ کی تعلیم ہے۔ لیکن اسکے باوجود جب آوازیں زیادہ ہی بلند ہوئیں تو آپ ﷺ نے فورا تنبیہ فرما دی۔ اس سے اندازہ کریں کہ رسول اللہ ﷺ کو شور شرابا کس قدر ناپسند تھا!

اسی طرح دین اسلام میں مسافروں کو تنگ کرنا، راستہ روکنا، یا راہ میں روکاوٹ کھڑی کرنا سختی سے منع ہے۔  جبکہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو دور کرنے کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔

(صحیح مسلم:35)

اسی طرح  دین اسلام کے کچھ مزید اہم قوانین ہیں کہ جنہیں آجکل ہمہ قسم جلوسوں اور کاروانوں اور ریلیوں میں پس پشت پھینک دیا جاتا ہے۔  جنکی بناء پر وہ کارواں جو اصلا مشروع ہیں وہ بھی محل نظر ٹھہرتے ہیں۔ لہذا اگر ایسے  کارواں نکالنے کی ضرورت ہو جنکی شریعت نے اجازت دی ہے تو شریعت کے ان اصولوں کو بھی ملحوظ رکھا جائے جو گلی و بازار اور راستہ کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔

هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم

  • الثلاثاء AM 11:23
    2022-02-08
  • 1113

تعلیقات

    = 3 + 4

    /500
    Powered by: GateGold