اعداد وشمار
مادہ
سفیان ثوری کس طبقہ کے مدلس ہیں؟
سوال
امام سفیان بن سعید بن مسروق ثوری رحمہ اللہ مدلسین کے کس طبقہ میں ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انہیں دوسرے طبقہ میں ذکر کیا ہے جبکہ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ انہیں تیسرے طبقہ میں شمار کرتے ہیں۔ درست موقف کیا ہے؟
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
سفیان ثوری رحمہ اللہ امیر المؤمنین فی الحدیث تھے، انکی جلالت شان اور رفعت قدر کے ساتھ ساتھ ان سے تدلیس کرنا بھی ثابت ہے، وہ ضعفاء سے بھی تدلیس کیا کرتے تھے مگر انکی تدلیس انکی مرویات کی مقابل نہایت ہی کم تھی، بلکہ یوں کہیے کہ نہ ہونے کے برابر یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ الباری نے انکے بارہ میں فرمایا "ما أقل تدلیسہ" یعنی اسکی تدلیس کتنی ہی کم ہے۔
جو رواۃ قلیل التدلیس ہوتے ہیں انکا شمار دوسرے طبقہ کے مدلسین میں کیا جاتا ہے اور جو ضعیف رواۃ سے تدلیس کرتے ہیں انکا شمار تیسرے طبقہ میں کیا جاتا ہے ۔ اب چونکہ امام سفیان بن سعید بن مسروق الثوری رحمہ اللہ میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی ہیں اس لیے محدثین میں سے کسی نے انہیں انکی جلالت شان اور قلت تدلیس کے پیشن نظر دوسرے طبقہ میں شمار کیا ہے تو کسی نے ضعیف رواۃ سے تدلیس کی باعث انہیں تیسرے طبقہ کا مدلس کا گردانا ہے ۔ اور اس میں انکے مابین کوئی تضاد نہیں! کیونکہ جس نے تیسرے طبقہ میں شمار کیا اس نے ایک بات کو ملحوظ رکھا اور جس نے دوسرے طبقہ میں شمار کیا اس نے دوسری بات کو ملحوظ رکھا۔ سو ہم کہہ سکتے ہیں کہ :
سفیان ثوری طبقہ ثانیہ اور ثالثہ کے مدلس ہیں
اس اعتبار سے کہ وہ ضعیف رواۃ سے تدلیس کرتے ہیں انکا شمار طبقہ ثالثہ میں کیا جاتا ہے جیسا کہ ابو عمر الدانی رحمہ اللہ نے کیا ہے
اور اس اعتبار سے کہ انکی تدلیس نہایت قلیل ہے انکا شمار طبقہ ثانیہ میں کیا جاتا ہے جیسا کہ ابن حجررحمہ اللہ نے کیا ہے
البتہ انکا شمار دوسرے طبقہ میں کیا جانا زیادہ اولی اور بہتر ہے ۔ لیکن اگر کوئی انکا شمار تیسرے طبقہ میں بھی کر لے تو بھی انکی ہر معنعن روایت کو رد کرنے کا جواز پیدا نہیں ہوتا ۔ کیونکہ وہ قلیل التدلیس تھے ۔
جس طرح قلیل الخطأ اور کثیر الخطأ رواۃ کے مابین فرق کیا جاتا ہے اور قلیل الخطأ کی روایت کو بغیر کسی قرینہ کے رد نہیں کیا جاتا اسی طرح قلیل التدلیس رواۃ کی مرویات کو بھی کسی قوی قرینہ کے بغیر رد کرنا نا انصافی ہے ۔ خواہ اسکی تدلیس ثقات سے ہو یا ضعفاء سے ۔
خوب سمجھ لیں۔
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-     
الاربعاء PM  12:02   
 2022-02-09
- 2457





