میلنگ لسٹ
موجودہ زائرین
اعداد وشمار
تلاش کریں
مادہ
دوسری طلاق
سوال
من مسمى عاطف محمود ولد محمد صادق نے اپنی اہلیہ مسماۃ سائرہ نورین دختر محمد صدیق کو مؤرخہ 4-3-2022ء کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں لیکن اب میں اپنی اہلیہ سے رجوع کرنا چاہتا ہوں تو کیا شریعت اسلامیہ میں میرے لیے رجوع کی کوئی گنجائش ہے ؟ اس تین سال قبل بھی میں نے اپنی اہلیہ کو ایک طلاق دی تھی جس کے تین دن بعد ہماری صلح ہوگئی تھی اور رجوع کر لیا تھا۔
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
ایک مجلس میں دی گئی ایک سے زائدطلاقیں ایک ہی طلاق کا حکم رکھتی ہیں ۔اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے :
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ (البقرۃ:229)
طلاق دو مرتبہ ہے ۔
لغت عربی میں لفظ مرۃکا معنی دفعۃ بعد دفعۃ ہے ۔یعنی ایک کام کو کرنے کے بعد وقفہ کرکے پھر اس کام کو دوبارہ سر انجام دینا ۔ یہی مفہوم قرآن حکیم کی اس آیت سے بھی واضح ہوتا ہے :
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِنْ قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُمْ مِنَ الظَّهِيرَةِ وَمِنْ بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَكُمْ (النور :85)
اے اہل ایمان ! تمہارے غلام اور نابالغ بچے بھی تم سے تین دفعہ اجازت طلب کریں ۔ نمازفجر سے قبل ،جب تم ظہر کے وقت اپنا لباس اتارتے ہو، اور نمازعشاء کے بعد ۔ یہ تین اوقات تمہارے پردے کے ہیں۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے لفظ مرات استعمال کیا ہے جوکہ مرۃ کی جمع ہے ۔ اور پھر اللہ تعالی نے خود ہی اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے تین مختلف اوقات بیان کیے ہیں جوکہ ایک دوسرے سے کافی دور ہیں ۔ اور الطلاق مرتان میں لفظ مرتان استعمال ہوا ہے جوکہ مرۃ کی تثنیہ ہے جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ طلاق دومرتبہ وقفہ وقفہ کے ساتھ ہے جس کے بعد مرد کو رجوع کا حق حاصل ہے۔ پھر اگر تیسری دفعہ طلاق دےدے تو عورت اس مرد پر حرام ہو جائے گی ۔ ہاں ایک صورت ہے کہ اس عورت کا نکاح کسی دوسرے شخص کے ساتھ معروف طریقے سے ہوجائے پھر آپس کی ناچاکی کیوجہ سے وہ دوسرا مرد بھی اس کو طلاق دے دیتا ہے یا وہ فوت ہو جاتا ہے تو یہ عورت عدت گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح کروا سکتی ہے۔ (البقرۃ:230)
اگر بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کو نافذ کردیا جائے تو دو طلاقوں کے درمیانی وقفہ میں مرد کے لیے سوچ بیچار کی جو مہلت تھی وہ ختم ہو جائے گی ۔ امام الأنبیاء جناب محمد مصطفیﷺایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کرتے تھے جیساکہ اس حدیث سے واضح ہے :
طَلَّقَ رُكَانَةُ بْنُ عَبْدِ يَزِيدَ أَخُو بَنِي الْمُطَّلِبِ امْرَأَتَهُ ثَلاَثًا فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ ، فَحَزِنَ عَلَيْهَا حُزْنًا شَدِيدًا ، قَالَ : فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : كَيْفَ طَلَّقْتَهَا ؟ قَالَ : طَلَّقْتُهَا ثَلاَثًا ، قَالَ : فَقَالَ : فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ ؟ قَالَ : نَعَمْ قَالَ : فَإِنَّمَا تِلْكَ وَاحِدَةٌ فَأَرْجِعْهَا إِنْ شِئْتَ قَالَ : فَرَجَعَهَا
رکانہ بن عبدیزید جوکہ مطلب کے بھائی ہیں انہوں نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں پھر اس پر شدید غمگین ہوئے تو رسول اللہﷺنے پوچھا تونے کیسے طلاق دی تھی اس نے کہا میں نے تین طلاقیں دی ہیں آپ ؐنے پوچھا ایک ہی مجلس میں ؟ اس نے کہا جی ہاں آپﷺنے فرمایا بےشک یہ تو صرف ایک ہی ہے اگر تو چاہتا ہے تو رجوع کر لے (راوی حدیث حضرت عبد اللہ بن عباسؓ)فرماتے ہیں انہوں نے رجوع کر لیا
[مسند أحمد ومن مسند بنی ہاشم مسند عبد اللہ بن عباس(2383)أبوداود کتاب الطلاق باب فی البتۃ (2208،2206)]
اس حدیث کے بارے میں حافظ ابن حجرؒفتح الباری شرح صحیح بخاری میں کتاب الطلاق باب من أجاز طلاق الثلاث کے تحت رقمطراز ہیں کہ :
وَهَذَا الْحَدِيثُ نَصٌّ فِي الْمَسْأَلَةِ لَا يَقْبَلُ التَّأْوِيلَ الَّذِي فِي غَيْرِهِ مِنَ الرِّوَايَاتِ
اس حدیث نے مسئلہ کی ایسی وضاحت کی ہے کہ جس میں اس تاویل کی گنجائش باقی نہیں ہے جوکہ دوسری روایات میں کی جاتی ہے۔
ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک شمار کرنا رسول اللہﷺ، ابوبکر ؓ ، اورعمر فاروق ؓ کی خلافت کے ابتدائی دوسالوں تک چلتا رہا پھر جناب عمرؓ نے ایک مجلس کی تین طلاقوں پر تین کا حکم لگا دیا تھا جیساکہ عبد اللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ:
كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ، فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ، فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ
[مسلم کتاب الطلاق باب طلاق الثلاث (1472)]
رسول اللہﷺ،ابوبکر ؓ اور عمرفاروقؓ کی خلافت کے ابتدئی دوسالوں میں اکٹھی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا پھر سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا جس کام میں لوگوں کے لیے سوچ بیچار کا موقع تھا اس میں انہوں نے جلدی شروع کردی ہے تو ہم ان پر تینوں ہی لازم کردیتے ہیں لہذا انہوں نے تینوں ہی لازم کردیں۔
یادرہے کہ سیدنا عمر فاروق ؓ کا یہ فیصلہ سیاسی اور تہدیدی تھا جیساکہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار 6/511،جامع الرموز1/506،مجمع الأنہر شرح ملتقی الأبحر میں بھی لکھا ہے:
وَاعْلَمْ أَنَّ فِي صَدْرِ الْأَوَّلِ إذَا أَرْسَلَ الثَّلَاثَ جُمْلَةً لَمْ يُحْكَمْ إلَّا بِوُقُوعِ وَاحِدَةٍ إلَى زَمَنِ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ -، ثُمَّ حَكَمَ بِوُقُوعِ الثَّلَاثِ لِكَثْرَتِهِ بَيْنَ النَّاسِ تَهْدِيدًا
اسلام کے ابتدائی دور سے لیکر عمر ؓ دور خلافت تک جب اکٹھی تین طلاقیں بھیجی جاتیں تو ان پر ایک طلاق کا حکم لگایا جاتا پھر جب یہ عادت لوگوں میں زیادہ ہوگئی تو پھر تہدیدی طور پر تین طلاقوں کا حکم لگا دیا گیا ۔
فقہ حنفی کی محولہ کتب کی اس صراحت سے یہ بات ظاہر ہو گئی ہے کہ سیدنا عمر ؓ کا فیصلہ سیاسی اور تہدیدی تھا ۔جبکہ رسول اللہﷺکا فیصلہ شرعی اور حتمی ہے ۔لہذا ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی طلاق کا حکم رکھتی ہیں جسکے بعد خاوند کو رجوع کرنے کا حق حاصل ہے ۔
بشرط صحت سوال، صورت مسؤلہ میں عاطف محمود ولد محمد صادق نے اپنی اہلیہ سائرہ نورین کو ایک مجلس میں تین طلاق دی جو کہ شرعی طور پہ ایک ہی طلاق ہے۔ اور اسکے پاس دوران عدت رجوع کرنے کا مکمل اختیار موجود ہے۔ اور چونکہ اس سے پہلے بھی یہ ایک طلاق دے چکا ہے، لہذا دو طلاقیں واقع ہو چکی ہیں۔ اگر آئندہ اس نے ایک طلاق دے دی تو اسکی زوجہ اس پہ مکمل طور پر حرام ہو جائے گی اور رجوع کا اختیار باقی نہ رہے گا۔
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-
الاربعاء PM 08:36
2022-03-23 - 1205