اعداد وشمار
مادہ
روافض کے بارے میں کیا عقیدہ ہونا چاہیے؟
سوال
شیخ صاحب موجودہ دور کے روافض کے بارے کیا عقیدہ رکھا جائے جب ان کہ عقائد واضح ہوں ۔ راہنمائی کی درخواست ہے۔
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
متقدمین کے دور میں دو الگ الگ مصطلحات تھیں:
1- تشیع (شیعیت)
2-رفض (رافضیت)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فالتشيع في عرف المتقدمين هو اعتقاد تفضيل علي على عثمان، وأن عليا كان مصيبا في حروبه وأن مخالفه مخطئ مع تقديم الشيخين وتفضيلهما، وربما اعتقد بعضهم أن عليا أفضل الخلق بعد رسول الله -صلى الله عليهآله وسلم-، وإذا كان معتقد ذلك ورعا دينا صادقا مجتهدا فلا ترد روايته بهذا، لا سيما إن كان غير داعية، وأما التشيع في عرف المتأخرين فهو الرفض المحض فلا تقبل رواية الرافضي الغالي ولا كرامة
متقدمین کی اصطلاح میں شیخین (ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما) کو مقدم اور افضل سمجھتے ہوئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے افضل سمجھنے کا عقیدہ رکھنا ، اور علی رضی اللہ عنہ کو جنگوں میں برحق سمجھنا اور انکے مخالفین کو خطأ کار سمجھنا تشیع کہلاتا ہے۔ اور کبھی ان میں سے کچھ یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلى اللہ وسلم کے بعد مخلوق میں سب سے افضل ہیں، ایسا اعتقاد رکھنے والا جب دیندار متقی اور سچا مجتہد ہو تو اسکی روایت اس (عقیدے کی) وجہ سے رد نہیں کی جائے گی، بالخصوص جب وہ (اپنے اس عقیدے کی طرف) دعوت دینے والا نہ ہو۔ اور متأخرین کی اصطلاح میں تو رافضیت کو تشیع کہا جاتا ہے، سو نہ تو رافضی غالی کی روایت قبول ہے اور نہ ہی اسکا کوئی لحاظ کیا جائے گا۔
تهذيب التهذيب: 1/243 ط . دار البر
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لَيْسَ تَفْضِيْلُ عَلِيٍّ بِرَفضٍ، وَلاَ هُوَ ببدعَةٌ، بَلْ قَدْ ذَهبَ إِلَيْهِ خَلقٌ مِنَ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِيْنَ، فَكُلٌّ مِنْ عُثْمَانَ وَعلِيٍّ ذُو فضلٍ وَسَابِقَةٍ وَجِهَادٍ، وَهُمَا مُتَقَارِبَانِ فِي العِلْمِ وَالجَلاَلَة، وَلعلَّهُمَا فِي الآخِرَةِ مُتسَاويَانِ فِي الدَّرَجَةِ، وَهُمَا مِنْ سَادَةِ الشُّهَدَاءِ - رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا -، وَلَكِنَّ جُمُهورَ الأُمَّةِ عَلَى تَرَجيْحِ عُثْمَانَ عَلَى الإِمَامِ عَلِيٍّ، وَإِلَيْهِ نَذْهَبُ. وَالخَطْبُ فِي ذَلِكَ يسيرٌ، وَالأَفضَلُ مِنْهُمَا - بِلاَ شكٍّ - أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، مَنْ خَالفَ فِي ذَا فَهُوَ شِيعِيٌّ جَلدٌ، وَمَنْ أَبغضَ الشَّيْخَيْنِ وَاعتقدَ صِحَّةَ إِمَامَتِهِمَا فَهُوَ رَافضيٌّ مَقِيتٌ، وَمَنْ سَبَّهُمَا وَاعتقدَ أَنَّهُمَا لَيْسَا بِإِمَامَيْ هُدَى فَهُوَ مِنْ غُلاَةِ الرَّافِضَةِ - أَبعدَهُم اللهُ -.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو (سیدنا عثمان رضی اللہ سے) افضل قرار دینا رافضیت نہیں ہے اور نہ ہی یہ بدعت ہے! بلکہ صحابہ وتابعین کی ایک جماعت کا یہ عقیدہ تھا۔ سیدنا عثمان وعلی رضی اللہ عنہما میں سے ہر ایک نمایاں خوبیوں کا مالک اور مجاہد ہے۔ اور وہ علم اور جلالت قدر میں قریب قریب ہیں، اور شاید کہ آخرت میں وہ درجے کے اعتبار سے بھی برابر ہوں، اور وہ دونوں ہی شہداء میں سے ہیں- رضی اللہ عنہما- ، لیکن جمہور امت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو علی رضی اللہ عنہ پہ ترجیح دینے کی قائل ہے اور ہمارا بھی یہی موقف ہے۔ اور اس میں اہل السنہ کے اعتقاد سے فرق تھوڑا ہی ہے۔ اور بلا شک وشبہ ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما ان دونوں سے افضل ہیں،جو اس کی مخالفت کرے وہ کٹر شیعہ ہے، اور جو شیخین (ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما) سے بغض رکھے لیکن انکی امامت کو صحیح سمجھے تو وہ رافضی ہے،اور جو ان دنوں کو برا کہے اور یہ اعتقاد رکھے کہ یہ دونوں ائمہ ہدایت نہیں تھے تو وہ غالی رافضیوں میں سے ہے۔ اللہ انہیں غارت کرے۔
سير أعلام النبلاء 16/458
مزید فرماتے ہیں:
إن البدعة على ضربين: فبدعة صغرى كغلو التشيع، أو كالتشيع بلا غلو ولا تحرُّق، فهذا كثير في التابعين وتابعيهم مع الدين والورع والصدق.
ثم بدعة كبرى، كالرفض الكامل والغلو فيه، والحط على أبي بكر وعمر رضى الله عنهما، والدعاء إلى ذلك، فهذا النوع لا يحتج بهم ولا كرامة. وأيضا فما أستحضر الآن في هذا الضرب رجلا صادقا ولا مأمونا، بل الكذب شعارهم، والتقية والنفاق دثارهم، فكيف يقبل نقل من هذا حاله ! حاشا وكلا.
فالشيعي الغالي في زمان السلف وعرفهم هو من تكلم في عثمان والزبير وطلحة ومعاوية وطائفة ممن حارب عليا رضى الله عنه، وتعرض لسبهم.
والغالي في زماننا وعرفنا هو الذي يكفر هؤلاء السادة، ويتبرأ من الشيخين أيضا، فهذا ضال معثر.
بدعت کی دو قسمیں ہیں : ایک ہے بدعت صغرى جیسا کہ تشیع میں غلو کرنا ہے، یا مثلا غلو اور تعصب کے بغیر تشیع، سو یہ تو تابعین اور تبع تابعین میں انکے تدین وتقوى وصدق کے باوجود بکثرت تھا۔
پھر (دوسری قسم) بدعت کبرى ہے، جیسا کہ کامل رافضیت اور اس میں غلو، اور ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما پہ زبان درازی کرنا اور اس (بدعت) کی دعوت دینا، تو اس قسم (کے لوگوں) کا اعتبار کسی طور پہ بھی نہیں کیا جاتا۔ اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ابھی تک اس قسم کا کوئی آدمی میں نے سچا اور امانت دار نہیں پایا! بلکہ جھوٹ ہی انکا اوڑھنا اور تقیہ و نفاق انکا بچھونا ہے۔ تو جس کی یہ حالت ہو اسکی روایت کیسے قبول ہوگی۔ حاشا وکلا....
تو سلف کے زمانے اور عرف میں غالی شیعہ اسے کہا جاتا تھا جو سیدنا عثمان، زبیر، طلحہ، معاویہ، رضی اللہ عنہم اجمعین اور جو لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف برسرپیکار رہے انکے بارے میں نکتہ چینی کرتا اورانہیں برا کہتا تھا۔
اور ہمارے زمانے میں غالی وہ ہے جو ان سادات کو کافر قرار دیتا ہے اور ساتھ شیخین (ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما) سے بیزاری ظاہر کرتا ہے، تو یہ گمراہ راہ ست سے بھٹکا ہوا ہے۔
میزان الاعتدال: 1/49(بتصرف یسیر)
حافظین (ابن حجر وذہبی) رحمہما اللہ کے اس کلام سے روافض کے بارے میں سلف کا اعتقاد واضح ہے، ہمیں بھی یہی عقیدہ رکھنا چاہیے۔ البتہ یہ بات ذہن نشیں رہے کہ آج روافض خود کو اہل تشیع باور کراتے ہیں۔
08/02/1443
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-     
الثلاثاء PM  01:53   
 2022-01-18
- 1412





