میلنگ لسٹ
موجودہ زائرین
اعداد وشمار
تلاش کریں
مادہ
فہم سلف کی مخالفت
سوال:
آپ کے بعض فتاوى فہم سلف کے مخالف ہوتے ہیں جیسا کہ جنازے میں دو طرف سلام پھیرنے والا فتوى ہے، ایسا کیوں ہے؟ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کو سلف سے زیادہ نصوص کا فہم حاصل ہوگیا ہے یا انہیں یہ مسئلہ سمجھ نہیں آیا تھا؟ سلف کے بغیر اپنی ذاتی فہم کی وجہ سے تو مرزا قادیانی گمراہ ہوا تھا!، یہی من چاہی تفسیر کا نتیجہ ہے!
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
فرعون کو جب موسی علیہ السلام نے دلائل پیش کیے تو اس کے پاس چونکہ دلیل نہ تھی فورا سلف پیش کردیے:
فَمَا بَالُ الْقُرُونِ الْأُولَى
موسی علیہ السلام نے اس کے اس سوال کا جواب نہ دیا بلکہ فرمایا :
عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي فِي كِتَابٍ لَا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنْسَى
سو،ہم بھی آپ کے فرعونی سوالات کہ سلف کو سمجھ نہ آیا... انہیں بتائیں... وغیرہ وغیرہ کا یہی موسوی جواب دیتے ہیں عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي فِي كِتَابٍ لَا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنْسَى
دلیل میں مرفوع روایات کا حوالہ ہم دے چکے، اور آپ کے محبوب اسلاف کے کتاب وسنت کی روشنی میں وضع کردہ اصول فقہ کی روشنی میں مسئلہ کا اثبات کر چکے۔
اب اگر جواب میں کوئی مرفوع روایت ہے تو پیش کریں،محض الفاظ کی گولہ باری سے دلیل کے میدان میں کچھ نہیں ہونے والا...
ویسے آپ جن آئمہ محدثین کا نام لیتے ہیں کبھی انہوں نے بھی اپنے خصم کو دلائل دینے کے بجائے یہ کہا کہ تم پہلوں سے زیادہ سیانے ہو؟ سلف سلف کی رٹ لگانے سے بہتر ہے کہ انکے منہج کو اپنائیں!
وہ تو مخالف کو دلیل دیتے تھے، اگر کبھی سابقین کا موقف پیش بھی کرتے تو بھی دلیل دیتے، محض انکے موقف کو پیش کرکے خصم کو منوانے پہ زور نہیں لگاتے تھے!
اور یہ جتنی گولہ باری آپ نے کی ہے ان کا رخ ہم آپ ہی کی جانب کرتے ہیں کہ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ جنازے میں دو سلام کے قائل تھے، کیا وہ سلف نہیں؟ کیا آپ ان سے زیادہ سمجھدار ہیں... الخ
إبراهيم نخعی کے سوا اور بھی نام ہیں اس نواح میں، لیکن اسی پہ اس لیے اکتفاء کر رہا ہوں کہ آپ کے استاذ گرامی شیخ زبیر رحمہ اللہ کو جب یہ پیش کیا تو وہ اپنی شدت سے رک گئے تھے، شاید آپ بھی ان کے شاگرد رشید ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے معاملے کی نزاکت کو سمجھیں کہ آپ کس کس کو مرزا قادیانی بنا رہے ہیں! اور الفاظ کی گولہ باری کے بجائے علمی گفتگو کریں اور دلیل کے بجائے شخصیتوں کو گھسیڑنے والا فرعونی طرز عمل چھوڑیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین والا طریقہ اپنائیں کہ خوارج کے جواب میں سید الفقھاء نے آیات وأحاديث پیش کی تھیں،محض جِئْتُ أُحَدِّثُكُمْ عَنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ نَزَلَ الْوَحْيُ , وَهُمْ أَعْلَمُ بِتَأْوِيلِهِ کہنے پہ اکتفاء نہیں کیا تھا....! (مصنف عبد الرزاق:18678)
اور پھر یہ بھی سوال بنتا ہے کہ ہر بات کہ جس پہ آپ کو دلیل معلوم نہ ہو سلف اسٹارٹ کر لیتے ہیں، انہی اسلاف کے بنائے ہوئے اصول وقواعد کو کیوں نہیں مانتے؟ مسئلہ پہ بات کیا کریں اصولی انداز میں تکفیر وتفسیق وتبدیع اور علمی گالیوں کا انداز آپکی شان کے خلاف ہے۔
رہی من چاہی تفسیر تو اسی طرح من چاہے سلف بھی ہیں....!، جیسے غامدی پرویز یا دیگر اہل بدعت بھی اپنے اپنے سلف رکھتے ہیں! ، یہ فرق سمجھیں کہ سلف ہر کسی نے اپنے اپنے بنائے ہوئے ہیں! جبکہ دلیل اصلی صرف وحی الہی ہے!
یہ سلف سلف کھیلنے سے بہتر منہج سلف ہے کہ اسے اپنایا جائے اور جس طرح وہ مخالف کو قرآن کی آیات یا حدیث پیش کرکے اسکے غلط استدلال واستنباط کا رد کیا کرتے تھے ویسے کیا جائے۔ اگر کسی کو یہ کام نہیں کرنا آتا تو میدان اس کے لیے چھوڑ دے جسے یہ کرنا آتا ہے!، پدر من سلطان بود کہنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا کرتا...!
سلف کا نام لینے سے اور انہیں بطور مؤید پیش کرنے سے کوئی حرج نہیں، جب بات دلیل سے کی جائے اور اپنے استدلال پہ سلف کے اقوال پیش کیے جائیں، کام تب خراب ہوتا ہے جب سوائے نام سلف کے کچھ پلے نہ ہو۔ سلف کو بطور حجت نہیں بطور مؤید پیش کرنا چاہیے، سلف کے اصول ومنہج معتبر ہے، افراد نہیں!
کمال یہ ہے کہ سلف کے دور میں ہی کوئی مخالف مل جائے تو چپ سادھ لیتے ہیں، معاصر مخالف ہو تو اس پہ چڑھ دوڑتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف الفاظ نہیں، فہم بھی دے گئے ہیں! قرآن وسنت کی تفہیم میں وہ مفہوم معتبر ہوگا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دے کر گئے ہیں! بس یہی بات ہے کہ پیغمبر کے مخاطبین کو جیسے فورا بات سمجھ آ گئی ویسے ہی آج بھی سمجھنے کی کوشش کریں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا طریقہ کار کیا تھا؟، ان سے افضل واعلی واعلم سلف کوئی بھی نہیں تھا..!
ستم یہ ہے کہ جب ان اصحاب میں دوسری رائے سامنے آتی ہے پھر یہ سارا پراسس مکمل کرکے ایک کو ترجیح دی جاتی ہے اور دوسرے کو جینے کا پورا حق دیا جاتا ہے. تو یہی عمل اکلوتی رائے پہ کیوں نہیں کیا جاتا...دو آراء ہوں تو آج کا محقق العصر ان آراء میں قاضی بن بیٹھتا ہے اور ایک کی بات کو زیر اور دوسرے کی کو زبر کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتا ہے۔ لیکن جب ایک رائے قول رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف ہو تو اس رائے کو قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فہم قرار دے کے وحی پہ قاضی ہونے کا فیصلہ صادر کر دیتا ہے۔ یا للعجب ...!کہ آراء برابر کی ہوں تو تولی جائیں اور اگر ایک رائے وزنی ہو تو اسے ترجیح دے کر دوسری کو چھوڑنے کی بجائے وزنی رائے کا ہی وزن کم کر دیا جائے.... فاللہ المستعان وعلیہ التکلان.
اسکی مثال سیاہ خضاب سے ممانعت والی روایت لے لیں، حکم ہے جنبوه السواد، مخاطبین میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ اس کا معنی یہ ہے کہ کالا کرنا صرف فلاں کے لیے منع ہے، بس بعض سلف کی طرف سے عمل ملا کالا کرنے کا تو کہہ دیا گیا کہ واجتننوا السود کا معنی سلف نے کالا کرنا سمجھا ہے لہذا جائز ہے!
یا مشت داڑھی کی مثال لے لیں کہ راوی نے واعفوا کا معنی زائد از مشت چھوڑنا نہیں بتایا، بس عمل کر لیا کٹوانے کا تو اس عمل کو قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہ قاضی بنا کر رکھ دیا...
ولدینا مزید
پھر غور فرمائیں کہ ان اصحاب ذی شان نے جو بات کہی اگر وہ دین کا حصہ ہے تو کیا کسی دلیل کے بغیر کہی یا دلیل کی بنا پر؟
اگر تو بلا دلیل کہی تو بدعت ہے، اور اگر دلیل سے کہی تو اصل دلیل ہے، انکی بات نہیں! سو وہ دلیل تلاش کرنی چاہیے جس کی بنیاد پر وہ بات کہی گئی۔پھر دلیل سے استدلال میں ان سے بھی سہو ہو جاتا تھا، جیسا کہ دور نبوی میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں، سو اس جہت پہ بھی غور کرنا چاہیے!
هذا، والله تعالى أعلم،وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم،والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وأصحابه وأتباعه، وبارك وسلم
وکتبہ
ابو عبد الرحمن محمد رفیق طاہر عفا اللہ عنہ
-
الخميس AM 07:49
2022-12-08 - 621