میلنگ لسٹ
موجودہ زائرین
اعداد وشمار
تلاش کریں
مادہ
ایک مجلس میں تینوں طلاقیں دے دیں پھر اگلے دن رجوع کر لیا
سوال
من مسمى محمد عارف نیازی ولد عبدالرزاق نے مؤرخہ 11-02-2015 کو اپنی اہلیہ رضوانہ جلیل ولد غلام جلیل کو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے دی۔ اسکے بعد میں نے جلد ہی اگلے دن اس سے رجوع کیا اور اس دوران 03-10-2017 کو ایک بیٹی بھی پیدا ہوئی لیکن 06 سال بعد اسکے میکے والے چونکہ فقہ حنفی سے تعلق رکھتے ہیں تو انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں اب آپکو رجوع کا کوئی اختیار نہیں رہا۔ اور وہ میری اہلیہ کو 18-01-2021 لے کر چلے گئے۔میں نے صلح کے لیے اسکے بعد بھی ان سے رابطہ کیا لیکن وہ نہیں مانے۔ اس حوالہ سے شرعی رہنمائی درکار ہے کہ کیا تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں ہیں، یاگھر بسانے کی کوئی صورت شریعت میں موجود ہے ؟
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
ایک مجلس میں دی گئی ایک سے زائدطلاقیں ایک ہی طلاق کا حکم رکھتی ہیں ۔اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے :
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ
طلاق دو مرتبہ ہے ۔
(البقرۃ:229)
لغت عربی میں لفظ مرۃکا معنی دفعۃ بعد دفعۃ ہے ۔یعنی ایک کام کو کرنے کے بعد وقفہ کرکے پھر اس کام کو دوبارہ سر انجام دینا ۔ یہی مفہوم قرآن حکیم کی اس آیت سے بھی واضح ہوتا ہے :
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِنْ قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُمْ مِنَ الظَّهِيرَةِ وَمِنْ بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَكُمْ
اے اہل ایمان ! تمہارے غلام اور نابالغ بچے بھی تم سے تین دفعہ اجازت طلب کریں ۔ نمازفجر سے قبل ،جب تم ظہر کے وقت اپنا لباس اتارتے ہو، اور نمازعشاء کے بعد ۔ یہ تین اوقات تمہارے پردے کے ہیں۔
(النور :85)
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے لفظ مرات استعمال کیا ہے جوکہ مرۃ کی جمع ہے ۔ اور پھر اللہ تعالی نے خود ہی اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے تین مختلف اوقات بیان کیے ہیں جوکہ ایک دوسرے سے کافی دور ہیں ۔ اور الطلاق مرتان میں لفظ مرتان استعمال ہوا ہے جوکہ مرۃ کی تثنیہ ہے جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ طلاق دومرتبہ وقفہ وقفہ کے ساتھ ہے جس کے بعد مرد کو رجوع کا حق حاصل ہے۔ پھر اگر تیسری دفعہ طلاق دےدے تو عورت اس مرد پر حرام ہو جائے گی ۔ ہاں ایک صورت ہے کہ اس عورت کا نکاح کسی دوسرے شخص کے ساتھ معروف طریقے سے ہوجائے پھر آپس کی ناچاکی کیوجہ سے وہ دوسرا مرد بھی اس کو طلاق دے دیتا ہے یا وہ فوت ہو جاتا ہے تو یہ عورت عدت گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح کروا سکتی ہے۔ (البقرۃ:230)
اگر بیک وقت دی گئی تین طلاقوںکو نافذ کردیا جائے تو دو طلاقوں کے درمیانی وقفہ میں مرد کے لیے سوچ بیچار کی جو مہلت تھی وہ ختم ہو جائے گی ۔ امام الأنبیاء جناب محمد مصطفیﷺایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کرتے تھے جیساکہ اس حدیث سے واضح ہے :
طَلَّقَ رُكَانَةُ بْنُ عَبْدِ يَزِيدَ أَخُو بَنِي الْمُطَّلِبِ امْرَأَتَهُ ثَلاَثًا فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ ، فَحَزِنَ عَلَيْهَا حُزْنًا شَدِيدًا ، قَالَ : فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : كَيْفَ طَلَّقْتَهَا ؟ قَالَ : طَلَّقْتُهَا ثَلاَثًا ، قَالَ : فَقَالَ : فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ ؟ قَالَ : نَعَمْ قَالَ : فَإِنَّمَا تِلْكَ وَاحِدَةٌ فَأَرْجِعْهَا إِنْ شِئْتَ قَالَ : فَرَجَعَهَا
رکانہ بن عبدیزید جوکہ مطلب کے بھائی ہیں انہوں نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں پھر اس پر شدید غمگین ہوئے تو رسول اللہﷺنے پوچھا تونے کیسے طلاق دی تھی اس نے کہا میں نے تین طلاقیں دی ہیں آپ ؐنے پوچھا ایک ہی مجلس میں ؟ اس نے کہا جی ہاں آپﷺنے فرمایا بےشک یہ تو صرف ایک ہی ہے اگر تو چاہتا ہے تو رجوع کر لے (راوی حدیث حضرت عبد اللہ بن عباسؓ)فرماتے ہیں انہوں نے رجوع کر لیا
[مسند أحمد ومن مسند بني هاشم، مسند عبد الله بن عباس(2383)أبوداود کتاب الطلاق باب في البتة (2208،2206)]
اس حدیث کے بارے میں حافظ ابن حجرؒفتح الباری شرح صحیح بخاری میں کتاب الطلاق باب من أجاز طلاق الثلاث کے تحت رقمطراز ہیں کہ :
وَهَذَا الْحَدِيثُ نَصٌّ فِي الْمَسْأَلَةِ لَا يَقْبَلُ التَّأْوِيلَ الَّذِي فِي غَيْرِهِ مِنَ الرِّوَايَاتِ
اس حدیث نے مسئلہ کی ایسی وضاحت کی ہے کہ جس میں اس تاویل کی گنجائش باقی نہیں ہے جوکہ دوسری روایات میں کی جاتی ہے۔
ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک شمار کرنا رسول اللہﷺ، ابوبکر ؓ ، اورعمر فاروق ؓ کی خلافت کے ابتدائی دوسالوں تک چلتا رہا پھر جناب عمرؓ نے ایک مجلس کی تین طلاقوں پر تین کا حکم لگا دیا تھا جیساکہ عبد اللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ:
كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ، فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ، فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ
رسول اللہﷺ،ابوبکر ؓ اور عمرفاروقؓ کی خلافت کے ابتدئی دوسالوں میں اکٹھی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا پھر سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا جس کام میں لوگوں کے لیے سوچ بیچار کا موقع تھا اس میں انہوں نے جلدی شروع کردی ہے تو ہم ان پر تینوں ہی لازم کردیتے ہیں لہذا انہوں نے تینوں ہی لازم کردیں۔
[مسلم کتاب الطلاق باب طلاق الثلاث (1472)]
یادرہے کہ سیدنا عمر فاروق ؓ کا یہ فیصلہ سیاسی اور تہدیدی تھا جیساکہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار 6/511،جامع الرموز1/506،مجمع الأنہر شرح ملتقی الأبحر میں بھی لکھا ہے:
وَاعْلَمْ أَنَّ فِي صَدْرِ الْأَوَّلِ إذَا أَرْسَلَ الثَّلَاثَ جُمْلَةً لَمْ يُحْكَمْ إلَّا بِوُقُوعِ وَاحِدَةٍ إلَى زَمَنِ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ -، ثُمَّ حَكَمَ بِوُقُوعِ الثَّلَاثِ لِكَثْرَتِهِ بَيْنَ النَّاسِ تَهْدِيدًا
اسلام کے ابتدائی دور سے لیکر عمر ؓ دور خلافت تک جب اکٹھی تین طلاقیں بھیجی جاتیں تو ان پر ایک طلاق کا حکم لگایا جاتا پھر جب یہ عادت لوگوں میں زیادہ ہوگئی تو پھر تہدیدی طور پر تین طلاقوں کا حکم لگا دیا گیا ۔
فقہ حنفی کی محولہ کتب کی اس صراحت سے یہ بات ظاہر ہو گئی ہے کہ سیدنا عمر ؓ کا فیصلہ سیاسی اور تہدیدی تھا ۔جبکہ رسول اللہﷺکا فیصلہ شرعی اور حتمی ہے ۔لہذا ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی طلاق کا حکم رکھتی ہیں جسکے بعد خاوند کو رجوع کرنے کا حق حاصل ہے ۔
طلاق رجعی کے بعد رجوع کا مکمل اختیار مرد کے پاس ہوتا ہے۔ جس طرح مرد طلاق دے دے تو اسکی طلاق کو کوئی رد نہیں کرسکتا ، طلاق واقع ہو جاتی ہے۔اسی طرح اگر مرد طلاق رجعی کے بعد دوران عدت رجوع کرتا ہے تو شرعی طور پہ رجوع ہو جاتا ہے، مطلقہ عورت یا اسکے خاندان والے اس میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔
اللہ سبحانہ وتعالى کا فرمان ہے:
وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا
اور انکے شوہر اس دوران انہیں لوٹانے (یعنی ان سے رجوع کرنے ) کا زیادہ حق رکھتے ہیں۔ اگر وہ اصلاح کا ارادہ کریں۔
(البقرة: 228)
یاد رہے کہ جس طرح مرد کے لفظ طلاق بولنے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے اسی طرح اسکے صلح کی کوشش کرنے، یا محض یہ کہہ دینے سےکہ ’’میں نے رجوع کیا‘‘ رجوع ہو جاتا ہے۔ خواہ صلح کی کوشش کامیاب ہو یا ناکام رہے۔ اگر عورت یا اسکے اولیاء عورت کو اس کے خاوند کے ساتھ نہیں رہنے دینا چاہتے تو شریعت نے انکے لیے خلع کا راستہ مہیا کیا ہے۔ مرد کے رجوع کی راہ میں یہ حائل نہیں ہوسکتے۔
عدت ختم ہو جانے کے بعد بھی اگر میاں بیوی راضی ہوں تو انہیں تجدید نکاح کے ذریعہ گھر بسانے کی شریعت میں مکمل اجازت ہے بلکہ عورت کے اولیاء کو رکاوٹ ڈالنے سے منع کیا گیا ہے۔
ارشاد باری تعالى ہے:
وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ ذَلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكُمْ أَزْكَى لَكُمْ وَأَطْهَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی مدت کو پہنچ جائیں (یعنی انکی عدت ختم ہو جائے) تو انہیں انکے (سابقہ) خاوندوں سے نکاح کرنے سےمنع نہ کرو، جبکہ وہ آپس میں اچھے طریقے سے رضامند ہوں۔ اس بات کی نصیحت ہر اس شخص کو کی جاتی ہے جو تم میں سے اللہ تعالى اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے۔ یہ تمہارے لیے زیادہ ستھرا اور زیادہ پاکیزہ ہےاور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
(البقرة: 232)
سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اپنی بہن کا نکا ح ایک شخص سے کیا ، اس نے اسے طلاق دے دی ، جب عدت گزر گئی تو وہ دوبارہ نکاح کا پیغام لے کر آیا۔میں نے اس سے کہا میں نے تمہارا نکاح کیا ، اسے تمھاری بیوی بنایا اور تمھاری عزت افزائی کی، مگر تم نے اسے طلاق دے دی، اب پھر تم اس سے نکاح کا پیغام لے کر آگئے ہو، اللہ کی قسم وہ تمہارے پاس کبھی نہیں آسکتی۔ اس شخص میں کوئی برائی نہیں تھی اور میری بہن بھی اسکے پاس جانا چاہتی تھی۔ تو اللہ تعالى نے یہ آیت نازل فرمائی ’’ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ‘‘ تو میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم اب میں نکاح کر دوں گا۔ الغرض انہوں نے اپنی بہن کا نکاح اس شخص سے کر دیا۔
(صحیح البخاری: 5130)
اس آیت اور حدیث سے واضح ہوا کہ اگر طلاق رجعی ( یعنی پہلی یا دوسری طلاق ) کے بعد عدت گزر جائے اور میاں بیوی اچھے طریقے سے رضامند ہوں تو عورت کے اولیاء کو رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے بلکہ خوشدلی سے انکا نکاح کر دینا چاہیے۔
بشرط صحت سوال، درج بالا دلائل کی رو سے صورت مسؤلہ میں عارف نیازی ولد عبد الرزاق نے اپنی زوجہ کو ایک مجلس میں تین طلاق دی جو کہ شرعی طور پہ ایک ہی طلاق ہے۔ پھر اس نے جلد ہی دوران عدت اگلے دن ہی رجوع بھی کر لیا۔ لہذا ایک طلاق ہو چکی ہے اور خاوند کے رجوع کرنے کی وجہ سے اب وہ شرعا عارف نیازی کی بیوی ہی ہے، خواہ وہ اپنے میکے میں رہے یا خاوند کے پاس۔
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-
الثلاثاء PM 02:40
2022-01-18 - 860