اعداد وشمار
مادہ
اگر موقوفات حجت نہیں تو صحابہ کی کیا خصوصیت رہی؟
سوال
اگر صحابہ اکرام کی اتباع کا مطلب انکی وہ بات قبول کرنا جو سنت کے مطابق ہے اور وہ بات چھوڑدینا جو جسکی کتاب وسنت میں دلیل نہیں تو ایسا طریقہ ہر عالم کے ساتھ ہوتا ہے ۔کہ عالم کی مدلل بات تسلیم اور غیر مدلل غیر تسلیم سمجھی جاتی ہے۔ اسکا مطلب پھر عالم کی بھی اتباع ہورہی ہے؟؟ پھر صحابہ کی اتباع کا کیا مطلب؟؟ صحابہ کی خصوصیت کی کیا حثیت؟؟ اگر کوئی موقوف روایت پر عمل کرے تو گناہگار ہوگا یا ماجور؟؟
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
1- صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بھی اس امت کے سب سے بڑے اور پہلے علماء ہی ہیں، انبیاء نہیں!
2- صحابہ کی اتباع کا مطلب ایمان لانے میں انکی اتباع ہے۔
 وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ قُرُبَاتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ أَلَا إِنَّهَا قُرْبَةٌ لَهُمْ سَيُدْخِلُهُمُ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (99) وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (100)
سورة التوبة: 99،100
دونوں آیات سامنے رکھ کر سمجھیں، اسی مفہوم کو اللہ نے یوں بھی بیان فرمایا ہے:
 فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
[سُورَةُ البَقَرَةِ: ١٣٧]
3- صحابہ کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے نزول قرآن کا زمانہ پایا، اور براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسکا بیان سیکھا۔ 
اسکی مثال یوں سمجھیں کہ اسکول کا ہیڈ ماسٹر مڈل کے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ "ریاضی جیسے مشکل اسباق اپنے اساتذہ اور میڑک کے ذہین لڑکوں سے سمجھا کرو"
اب آپ اپنا سوال ماسٹر صاحب کے اس قول پہ فٹ کریں، کہ اگر بڑی کلاس کے لڑکوں اور استادوں نے بھی وہ سوال ویسے ہی حل کرنا ہے جیسے انکے کلاس فیلوز نے، تو انکی خصوصیت کیا رہ گئی؟ 
خود ہی آپ کو جواب مل جائے گا، کہ انکی مہارت اور تجربہ انہیں متفوق کرتا ہے۔ 
بعینہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی علوم وحی میں مہارت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل شدہ تجربہ انہیں ممتاز وخاص کر دیتا ہے۔ 
اور جس طرح استادوں کا ریاضی کے سبق میں سائنس کا سوال حل کرنا ریاضی نہیں بن جاتا، اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا کوئی ذاتی عمل دین نہیں بن جاتا۔ 
ہاں وحی الہی کی جو توضيح وتبیین وہ کریں گے، وہ یقیناً بعد والوں کی تشریح وتفسير سے اولی ہوگی۔ اور وحی سے ہٹ کر اگر وہ کوئی کام یا بات کریں گے، تو اسے وحی الہی کے میزان میں تولا جائے گا۔ 
یہی وجہ ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے تیسرے خلیفہ راشد سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی تجویز کردہ جمعے کی زوراء والی اذان کو بدعت کہہ کر رد فرما دیا تھا، اور اپنے والد گرامی سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے حج تمتع سے روکنے کی مخالفت کی تھی، جبک وہ دوسرے خلیفہ راشد تھے۔
4- اس وقعہ پہ غور فرمائیں:
عَنْ هُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيلَ قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إِلَى أَبِي مُوسَى، وَسَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ، فَسَأَلَهُمَا عَنْ الِابْنَةِ وَابْنَةِ الِابْنِ، وَأُخْتٍ لِأَبٍ وَأُمٍّ ؟ فَقَالَا : لِلِابْنَةِ النِّصْفُ، وَلِلْأُخْتِ مِنَ الْأَبِ وَالْأُمِّ مَا بَقِيَ۔ وَقَالَا لَهُ : انْطَلِقْ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ فَاسْأَلْهُ ؛ فَإِنَّهُ سَيُتَابِعُنَا۔ فَأَتَى عَبْدَ اللَّهِ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، وَأَخْبَرَهُ بِمَا قَالَا، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ : قَدْ ضَلَلْتُ إِذَنْ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ، وَلَكِنِّي أَقْضِي فِيهِمَا كَمَا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ لِلِابْنَةِ النِّصْفُ، وَلِابْنَةِ الِابْنِ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ، وَلِلْأُخْتِ مَا بَقِيَ۔
جامع الترمذی: 2093
انکے قَدْ ضَلَلْتُ إِذَنْ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ کہنے کا سبب یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دے رکھا تھا:
لَا طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوف
سنن أبي داود: 2625
اسی طرح یہ حکم بھی عام ہیں:
مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ
صحيح البخاري: 2697
مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ
صحيح مسلم: 1718
وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ ؛ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ
سنن أبي داود: 4607
اور یہ اسی حدیث کے آخری الفاظ ہیں جس میں خلفائے راشدین کی مشروط اتباع کا حکم دیا گیا ہے:
أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ، وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا، فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ، تَمَسَّكُوا بِهَا، وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ ؛ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ
سنن أبي داود: 4607
اس سے بات کتنی واضح ہو جاتی ہے کہ خلفائے راشدین جو المھدیین ہیں انکی سنت کی اتباع کا حکم، جب بدعت کی پیروی سے منع کیا جا رہا ہے! اور اسے گمراہی سے تعبیر کیا گیا ہے۔
پھر یہ فرامین نبویہ اور احکام الہیہ جن میں سابقون الاولون کی اتباع کا حکم جاری ہوا، انہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے ہم سے بہتر سمجھا تھا، اور انکا طرز عمل بتاتا ہے کہ صحابی، بلکہ خلیفہ راشد صحابی کا عمل بھی بدعت ہو سکتا ہے، اسے بھی رد کیا جا سکتا ہے۔ جمعے کی اذان دلوانے والے خلیفہ راشد صحابی تھے اور اسے بدعت کہنے والے فقیہ ومحدث جلیل القدر صحابی ہی تھے۔
گویا وہ یہ جانتے تھے کہ کسی بھی امتی کی غیر مشروط اتباع جائز نہیں ہے۔ یہ حیثیت صرف نبی کی ہے کہ انکی غیر مشروط اتباع کی جائے، انکے بعد کسی کی بھی اتباع غیر مشروط نہیں، بلکہ وحی الہی کی مواقفت سے مشروط ہے
نبی کے سوا کسی بھی اور کی غیر مشروط اتباع شرک فی الرسالۃ ہے! کہ اس نے نبی کا خاص مقام امتی کو دے دیا ہے۔
یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہر لحاظ سے باقی امت سے متفوق نہیں، بلکہ کچھ اعتبارات سے انہیں فضیلت حاصل ہے تو کچھ معاملات میں وہ ہم جیسے ہی ہیں۔ جس طرح خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو بشریت میں تمام انسانوں کے مثل قرار دیا اور نبوت کی وجہ سے حامل فضیلت۔
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-     
الثلاثاء PM  04:26   
 2022-01-18
- 1308





