اعداد وشمار
مادہ
صحابی کا ایسا عمل جس پہ کسی دوسرے صحابی سے انکار ثابت نہ ہو
سوال
اس بات میں شک نہیں کہ کتاب وسنت کے مخالفت میں کسی کی بات حجت نہیں چاہئے صحابی یا غیر صحابی ہو لیکن اگر صحابی کا ایسا قول وفعل ہو جسکی کتاب وسنت میں دلیل نہیں ہے۔صحابی کا اپنا عمل ہے اور اس پر عمل صحابی پر دوسرے صحابہ کا نکیر بھی نہیں تو اسکی شرعی حثیت کیا ہوگی؟؟؟ جیسا عمرو بن العاص رض کی اونٹ کے ذبح تک دعا والی وصیت ہے۔ اگر یہ برا عمل تھا تو صحابہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے پابند تھے کیسے برداشت کیا ؟؟ کیونکہ کسی سے اس پہ نکییر کرنا ثابت نہیں ہے!
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
1- جس کی کتاب وسنت میں دلیل نہ ہو اس پہ من عمل عملا لیس علیه أمرنا فهو رد میں نبوی فیصلہ موجود ہے.
2- انکار کا نقل نہ ہونا، انکار موجود نہ ہونے کی دلیل نہیں ہوتا۔ إن عدم الذكر لا يستلزم عدم الثبوت
پھر عدم العدم وجود ہوتا ہے جبکہ عدم عدم العدم، عدم ہوتا ہے، اسی طرح عدم عدم عدم العدم بھی ثبوت ہوتا ہے۔ تو یوں تسلسل لازم آتا ہے، لہذا نفی اور اثبات دونوں دلیل کے محتاج ہوتے ہیں، اور جب کسی بھی طرف دلیل موجود نہ ہو تو دونوں کا احتمال ہوتا ہے، اور إذا جاء الاحتمال، بطل الاستدلال لہذا یہ دعوی بھی محتاج دلیل کہ کسی نے انکار نہیں کیا جبکہ عدم انکار بھی نقل ہوتا ہے، مثلا
وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِمِنًى إِلَى غَيْرِ جِدَارٍ، فَمَرَرْتُ بَيْنَ يَدَيْ بَعْضِ الصَّفِّ وَأَرْسَلْتُ الْأَتَانَ تَرْتَعُ، فَدَخَلْتُ فِي الصَّفِّ فَلَمْ يُنْكَرْ ذَلِكَ عَلَيَّ.
صحيح البخاري: 76
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسًا قَالَ : كُنْتُ قَائِمًا عَلَى الْحَيِّ أَسْقِيهِمْ - عُمُومَتِي، وَأَنَا أَصْغَرُهُمُ - الْفَضِيخَ ، فَقِيلَ : حُرِّمَتِ الْخَمْرُ. فَقَالُوا : أَكْفِئْهَا. فَكَفَأْنَا، قُلْتُ لِأَنَسٍ : مَا شَرَابُهُمْ ؟ قَالَ : رُطَبٌ وَبُسْرٌ . فَقَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ أَنَسٍ : وَكَانَتْ خَمْرَهُمْ، فَلَمْ يُنْكِرْ أَنَسٌ.
صحيح البخاري
بَاعَ شَرِيكٌ لِي وَرِقًا بِنَسِيئَةٍ إِلَى الْمَوْسِمِ، أَوْ إِلَى الْحَجِّ، فَجَاءَ إِلَيَّ، فَأَخْبَرَنِي، فَقُلْتُ : هَذَا أَمْرٌ لَا يَصْلُحُ. قَالَ : قَدْ بِعْتُهُ فِي السُّوقِ، فَلَمْ يُنْكِرْ ذَلِكَ عَلَيَّ أَحَدٌ. فَأَتَيْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ : قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَنَحْنُ نَبِيعُ هَذَا الْبَيْعَ، فَقَالَ : " مَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ فَلَا بَأْسَ بِهِ، وَمَا كَانَ نَسِيئَةً فَهُوَ رِبًا " وَائْتِ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ فَإِنَّهُ أَعْظَمُ تِجَارَةً مِنِّي. فَأَتَيْتُهُ، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ.
صحيح مسلم: 1589
عَنْ أَبِي طَلْحَةَ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ وَلَا تِمْثَالٌ ". وَقَالَ : انْطَلِقْ بِنَا إِلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ نَسْأَلْهَا عَنْ ذَلِكَ. فَانْطَلَقْنَا فَقُلْنَا : يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، إِنَّ أَبَا طَلْحَةَ حَدَّثَنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَذَا وَكَذَا، فَهَلْ سَمِعْتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ ذَلِكِ ؟ قَالَتْ : لَا، وَلَكِنْ سَأُحَدِّثُكُمْ بِمَا رَأَيْتُهُ فَعَلَ ؛ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ، وَكُنْتُ أَتَحَيَّنُ قُفُولَهُ، فَأَخَذْتُ نَمَطًا كَانَ لَنَا فَسَتَرْتُهُ عَلَى الْعَرْضِ، فَلَمَّا جَاءَ اسْتَقْبَلْتُهُ فَقُلْتُ : السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَعَزَّكَ وَأَكْرَمَكَ. فَنَظَرَ إِلَى الْبَيْتِ فَرَأَى النَّمَطَ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ شَيْئًا، وَرَأَيْتُ الْكَرَاهِيَةَ فِي وَجْهِهِ، فَأَتَى النَّمَطَ حَتَّى هَتَكَهُ، ثُمَّ قَالَ : " إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَأْمُرْنَا فِيمَا رَزَقَنَا أَنْ نَكْسُوَ الْحِجَارَةَ وَاللَّبِنَ ". قَالَتْ : فَقَطَعْتُهُ وَجَعَلْتُهُ وِسَادَتَيْنِ وَحَشَوْتُهُمَا لِيفًا، فَلَمْ يُنْكِرْ ذَلِكَ عَلَيَّ.
سنن أبي داود: 4153
ولدينا مزيد....
تنبیہ بلیغ:
کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سےایسے اعمال واقوال بھی ثابت ہیں جن کو کوئی بھی حجت نہیں سمجھتا، حالانکہ کسی بھی صحابی سے ان پہ نکیر ثابت نہیں ہے ۔ مثلا:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
مُطِرْنَا بَرَدًا وَأَبُو طَلْحَةَ صَائِمٌ ، فَجَعَلَ يَأْكُلُ مِنْهُ ، قِيلَ لَهُ : أَتَأْكُلُ وَأَنْتَ صَائِمٌ ؟ قَالَ : إِنَّمَا هَذَا بَرَكَةٌ.
پہ ژالہ باری ہوئی (اولے پڑے) تو سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے انہیں کھانا شروع کر دیا حالانکہ وہ روزے سے تھے۔ کسی نے کہا کہ آپ روزے کی حالت میں کھا رہے ہیں تو فرمانے لگے یہ تو برکت ہے۔
مسند أحمد: 13791 ط الرسالۃ،14003 ط قرطبۃ، 14187 ط مکنز، 279/3 ط میمنیۃ
امام طحاوی نے شرح مشکل الآثار میں یہی روایت بطریق خالد بن قیس از قتادۃ از انس نقل کی ہے، اس میں سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول بھی موجود ہے:
لَيْسَ هُوَ بِطَعَامٍ وَلَا بِشَرَابٍ
نہ تو یہ کھانا ہے اور نہ ہی مشروب!
شرح مشکل الآثار: 1864
سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا یہ عمل سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں تھا، جبکہ نہ ہی سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے اور نہ ہی کسی اور صحابی سے انکے اس عمل پہ انکار کہیں بھی ذکر ہوا ہے۔ تو کیا سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے اس ایسے عمل کی وجہ سے جس پہ کسی صحابی سے نکیر ثابت نہیں ، روزہ دار کو برف کھانے کی اجازت دینا درست ہوگا؟
فتدبر!
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-     
الثلاثاء PM  04:40   
 2022-01-18
- 1095





