تازہ ترین
شوال کے چھے روزے => خطبات روزہ و رمضان سال بھر کے روزے => خطبات روزہ و رمضان یوم عاشوراء کا روزہ => خطبات روزہ و رمضان یوم عرفہ کا روزہ => خطبات روزہ و رمضان داوودی روزہ => خطبات روزہ و رمضان نفل روزہ توڑنا => خطبات روزہ و رمضان روزے کی فرضیت => خطبات روزہ و رمضان دوسرا پارہ => دورہ ترجمۃ القرآن 1444 تیسرا پارہ => دورہ ترجمۃ القرآن 1444 چوتھا پارہ => دورہ ترجمۃ القرآن 1444

میلنگ لسٹ

بريديك

موجودہ زائرین

باقاعدہ وزٹرز : 30940
موجود زائرین : 37

اعداد وشمار

31
قرآن
15
تعارف
14
کتب
261
فتاوى
54
مقالات
187
خطبات

تلاش کریں

البحث

مادہ

تراویح کی اصلاح

درس کا خلاصہ

نماز تراویح ادا کرتے ہوئے کی جانے والی عام غلطیوں کی اصلاح



  آڈیو فائل ڈاؤنلوڈ کریں


الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على سيد الأنبياء والمرسلين، أما بعد!

تراویح کی اصلاح

محمد رفیق طاہر عفا اللہ عنہ

عام طور پرتراویح میں  قرآن مجید کے اختتام پر  قرآن  مجید کی  فضیلت اور  اس  کے آداب وغیرہ اس طرح کی باتیں بیان ہوتی ہیں، لیکن یہاں کچھ  اہم باتیں آپ کے سامنے رکھی جارہی ہیں جو سمجھنا ضروری ہیں۔طبیب اور ڈاکٹر کاکام یہ ہوتا ہے کہ اس کے سامنے جس طرح کا  مریض  ہو اور  جو بیماری اس کے اندر ہے، اس  کے مطابق تشخیص کرے۔ قرآن مجید کی شان و عظمت تو آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔

پہلی بات یہ سمجھ لیں کہ جس طرح  نبی کریم ﷺ کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اہل ایمان کے لیے تمام تر معاملات میں اسوہ حسنہ بنایا ہے ، ویسے ہی  قرآن پڑھنے  میں بھی اسوہ حسنہ ہیں ۔ قرآن مجید کی تلاوت عبادت ہے اور عبادت قبول ہونے کےلیےیہ ضروری ہے کہ بندہ مؤمن ہو، عبادت من گھڑت نہ ہو اور اس   عبادت کےسرانجام دینےکا طریقہ رسول اللہ ﷺ والاہو ۔چونکہ تلاوت بھی عبادت ہے اس لیے ضروری ہے کہ طریقہ بھی رسول اللہﷺ والاہو ۔

ام المومنین ام سلمہ﷞سے کسی نے پوچھا کہ نبی کریم ﷺ  قرآن کی تلاوت کیسے کرتے تھے؟ تو  فرماتی ہیں  کہ نبی کریم ﷺ کی تلاوت اس طرح ہوتی تھی کہ ہر ہر آیت  پر وقف کرکے  ہر آیت کو الگ  الگ کرکے پڑھتے  تھے۔ بطور مثال انہوں نے سورہ فاتحہ کی چند آیات پڑھ کر سنائیں۔فرمایا: ‹الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ› [الفاتحة: 2] پڑھتے، اور وقف کرتے۔ پھر ‹الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ› [الفاتحة: 3] پڑھتے اور وقف کرتے۔ پھر  ‹مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ›[الفاتحة: 4]پڑھتے اور وقف کرتے ۔ اسی طرح نبی ﷺ کی ساری قراءت تھی۔([1])

یہ نبیﷺ کی تلاوت کا طریقہ کار تھا کہ آپﷺ دو، تین آیات ملا کر نہیں پڑھتےتھے، بلکہ ہر آیت پر وقف کرتے تھے۔ آیات  چھوٹی ہوں یا بڑی، ہر آیت پر رکتے تھے ۔ کوئی بھی دو آیات کو اکٹھا پڑھنا نبیﷺ سے ثابت نہیں ہے ۔کچھ لوگ لمبا لمبا سانس کھینچ کر ایک سانس میں پوری سورت پڑھنے  کی کوشش کرتے ہیں، لیکن یہ نبی ﷺ کا طریقہ نہیں ہے، کیونکہ ان کو اللہ کا حکم تھا: ‹وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا› [المزمل: 4]

’’قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھیے۔‘‘

اس لیے نبی ﷺ نے ٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھا۔آپﷺ ہر ہر آیت پر رکتے  تھے۔

سیدنا انس﷜سے کسی نےپوچھا کہ نبیﷺ  قرآن کیسے پڑھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ الفاظ کو لمبا کھینچتےتھے۔‘‘ پھر بطور مثال انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تلاوت کی ۔اور ہر ہر لفظ کو کھینچ کھینچ کر پڑھا۔([2])

ام  المؤمنین سیدہ حفصہ﷞ فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ ٹھہر ٹھہر کر اطمینان کےساتھ الفاظ کو کھینچ کر پڑھتے تھے کہ ایک چھوٹی سورت اپنے سے لمبی سورت سے زیادہ لمبی ہوجاتی۔([3])

عام طور پرہم لوگ بڑی سورت پڑھنےکےلیے اتنا وقت  نہیں لگاتے تھے، جتنا وقت  نبیﷺ ایک چھوٹی سورت پڑھنےپر لگا دیتے تھے۔

ہمارا ایک طرہ امتیاز ہے کہ نماز میں اطمینان اور سکون ہوتا ہے۔ باقی تمام مکاتب فکر نماز میں تیزی اور جلد بازی کرتے ہیں ۔

ایک آدمی آیا اور اس نے  نماز پڑھی  اور اس کی نماز میں قدرے تیزی اور جلدی تھی تو آپﷺ نے فرمایا:

«ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ» ([4])

’’جاکر نماز پڑھ، تونے نماز نہیں پڑھی۔‘‘ اس نے پھر نما زپڑھی۔ پھر آیا۔ آپ ﷺ نے پھر یہی فرمایا۔تیسری مرتبہ پھر آیا۔ آپﷺ نے پھر یہی فرمایا۔اس نے کہا کہ میں اس  سے بہتر نہیں پڑھ سکتا۔ تو آپﷺ نے اس کو نماز میں اطمینان سکھایا۔

اس کی بنیادی غلطی یہ تھی کہ نمازمیں اطمینان نہیں تھا۔ نبیﷺ کے صحابی تھاے۔ آپ ﷺ سے اس نے نماز  سیکھی ہوگی، لیکن کوتاہی ہوگئی۔

نماز میں بہت سے کام فرض نہیں ہوتے لیکن ہم کرتے ہیں، کیونکہ وہ نبیﷺ کی سنت ہیں۔ نبیﷺ کافرمان ہے:

«صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي»

’’ایسے نما زپڑھو جیسے مجھے پڑھتےدیکھتے ہو ۔‘‘

نبیﷺ نما ز کے لیے تکبیر تحر یمہ کہتے، رفع الیدین کرتے، اس کے بعد ثناء پڑھتے، اس کے بعد تعوذ پڑھتے، اس کے بعد آپﷺ سورہ فاتحہ  کی قراءت کا آغاز کرتے تھے ۔

ہمارے ہاں سارا سال یہ کام  ایسے ہی چلتاہے لیکن تر اویح میں آکر سب خراب ہوجاتاہے۔ امام صاحب کھڑے ہوتے ہیں۔ اللہ اکبر  کہتے ہیں اور ساتھ ہی سورہ فاتحہ شروع کردیتے ہیں،اور ثناء پتہ نہیں کہاں کردیتے ہیں؟یہ ایک مصیبت ہے جو دیکھا دیکھی ہم نے اپنے گلے میں ڈال لی ہے۔ نبیﷺ کی سنت  تو یہ نہیں ہے۔

اسی طرح ہم سارا سال نماز اطمینان سے پڑھتےہیں۔پہلی رکعت میں دوسجدوں کے بعد امام جلسہ استراحت میں بیٹھتاہے۔ مقتدی سجدے سے سر اٹھا کربیٹھتے ہیں تو امام اوپراٹھ کر کھڑا ہوتا ہے۔یہی رسول اللہﷺ کا طریقہ کار تھا کہ جب دوسرے سجدے سے سر اٹھاتے تو اللہ اکبر کہتے۔([5]) کھڑے ہوتے ہوئے اللہ اکبر نہیں کہتے تھے۔ لیکن یہ جلسۂ استراحت نماز تراویح میں ختم ہو جاتا ہے ۔

نبی ﷺ نفل نماز کو فرض نمازسےزیادہ لمبا کرکے  پڑھتے تھے اور زیادہ اطمینان  سے پڑھتے تھے ۔نبیﷺ کا قیام اتنا لمبا ہوتاکہ آپ ﷺ کے پاؤں  سوج جاتے تھے۔([6])

سیدنا حذیفہ﷜  کہتے ہیں کہ ایک رات میں نے نبی ﷺ کے قیام کی اقتداء کی۔یعنی آپ ﷺ   کے ساتھ  کھڑاہوگیا۔ آپﷺ نے سورہ بقرہ پڑھنا شروع کردی۔میں نے سوچا: آپﷺ  سو آیات پڑھ کر رکوع کریں گے۔لیکن آپﷺ  پڑھتے گئے۔ میں نے دل میں سوچا: چلو دو سو آیات پڑھ  کر رکوع کریں  گے۔لیکن آپﷺ پھر بھی پڑھتے گئے، یہاں تک کہ آپﷺ نے   سورہ بقر ہ   مکمل کی۔اس کے بعد  آپ ﷺ نے سورہ نساء پڑھی۔ا س کے بعد  آپ ﷺ نے سورہ آل عمران مکمل پڑھی۔اس کےبعد آپﷺ نےرکوع کیا۔([7])

یہ آپﷺ کے قیام کی ایک رکعت ہے ۔اتنا لمبا قیام ہوتا تھا، تبھی تو پاؤں سوجتے تھے۔

اسی طرح نماز کی آخری رکعت میں  تورک کرنا نبیﷺ کا طریقہ ہے۔

نبیﷺ دو رکعتوں میں بیٹھتے تھے تو بایاں پاؤں لٹا دیتے ،دائیں کو کھڑا کرتے اور دایاں  ہاتھ دائیں ران پر رکھتے اور اپنی شہادت والی انگلی کو  دعا کے لیے کھڑاکرتے اور بایاں ہاتھ بائیں ران پر رکھتے ۔ ([8])

سیدہ عائشہ صدیقہ ﷞سے روایت ہےکہ آپﷺ دو رکعتوں کے بعد التحیات پڑھتے تھے۔ بایاں پاؤں پھیلاتے اور دایاں پاؤں کھڑا  رکھتے تھے۔([9])

ابو حمید ساعدی﷜ کہتے ہیں: دس صحابہ کرام  جمع  تھے یہ کھڑے   ہوئے اور کہنے لگے: میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز پڑھ کے دکھاتا ہوں۔ انہوں نے نماز پڑھ کے دکھا ئی،یہاں تک کہ  جب وہ رکعت آئی جس میں سلام پھیرا جاتا ہے توانہوں نے اپنا ایک پاؤں آگے بڑھایا  ، ٹانگ کے نیچے سے اور بائیں جانب اپنی ران کو لگا کر بیٹھے۔([10])

یہ آخری رکعت میں بیٹھنے کا طریقہ کا ر ہے۔ 

کچھ  لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر چار رکعت والی نماز ہو تو اس میں تورک  کرنا ہے، لیکن اگر دو رکعتوں والی نماز ہو تو  اس میں ایسا نہیں کرنا۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔یہ غلط سوچ ہے۔ جس رکعت میں سلام پھیرنا ہے، اس میں تورک کرنا ہے۔چاہے ایک رکعت کا وتر ہے، چاہے دو رکعت ہے، چاہے تین یا چار رکعت ہے۔اس لیے اگر پہلا تشہدہی آخری تشہد ہے تو اس میں تورک کریں  گے۔ اصول یہ ہے کہ جس تشہد میں سلام ہے اس میں تورک ہے۔

اسی طرح نما زتراویح میں یہ مسئلہ  بھی پیش آتاہےکہ کچھ لوگ لیٹ ہوجاتےہیں اور نما زتراویح  میں فرض پڑھنےکے لیے شامل ہوتے ہیں   تو وہ امام کے سلام پھیرنےکے بعد اپنی باقی دو  رکعت مکمل  کرتےہیں۔ امام اگلی دو رکعت پڑھانا شروع کرددیتا ہے اور یہ عشاء کی نما زپڑھنے والا مقتدی نماز مکمل کرکےصف  کے درمیان سے نکل جاتا ہے، جس سے صف  میں خلا پیداہوجاتا ہے۔اس خلا کو پر کرنا اور صف کو جوڑنا صف والوں پر  لازم ہے کہ امام کی جانب مل جائیں اور صف کو پورا کریں یا پچھلی صف سے بندہ نکل کر اگلی صف میں آجائے۔

 کچھ لوگ فرض نما زکے فوراً بعد نماز تراویح کے ساتھ مل جاتے  ہیں  اور   کہتے ہیں کہ سنتیں بعد میں ادا کریں گے۔یہ کام غلط ہے۔ نبی ﷺ  کا فرمان ہے :

«اجْعَلُوا آخِرَ صَلَاتِكُمْ بِاللَّيْلِ وِتْرًا» ([11])

’’ اپنی رات کی آخری نماز، نماز وتر کو بناؤ۔‘‘

ایک تو نماز وتر اس کو کہتےہیں کہ جس میں قنوت وتر کی جائے اور دوسرا پوری قیام اللیل یا تراویح کو بھی نما زوتر کہتے ہیں۔

 ہمارےہاں چونکہ  جلدی ہوتی ہے، اورکوشش ہوتی ہےکہ لوگ جلدی جلدی فارغ ہوں اور  گھر کو جائیں۔اس لیے  مام صاحب سلام پھیرنےکےبعد فوراً کھڑے ہوتے ہیں اور اللہ اکبر کہہ دیتے ہیں۔ پیچھےکا خیا ل نہیں ہوتا کہ کوئی بندہ کھڑا ہوا کہ نہیں ہوا ۔ یہ امام صاحب کی ذمہ داری ہےکہ صف کو درست  کروائے، پھر نماز کاآغاز کیاجائے۔

ہم نما زادا کرنےکےلیےآتےہیں تو ہمارےلباس  بہت عجیب ہوتے ہیں۔ نبیﷺ نے دو کاموں سےمنع کیا، ان میں سے ایک تھا کہ تونےشلوار پہنی ہوئی ہو، اس پر کوئی چادر نہ ہو یا لمبی قمیص نہ پہنی ہوتو اس حال میں نما زنہ پڑھ۔([12])

اس حدیث میں نبیﷺ نےپینٹ ٹراؤزر کی بات نہیں کی، شلوار کاکہاہےکہ اوپر کوئی کپڑا ہو، ردا ہو  تو نما زپڑھ ، ورنہ نہیں۔ کیونکہ بندہ جب رکوع یا سجدےمیں جاتاہے تو  چادر نہ ہو یا لمبی قمیض نہ ہو تو  نتیجہ یہ ہوتا ہےکہ اس کےستر اورپردے کے اعضاء نمایاں ہوجاتے ہیں جبکہ نبی ﷺنےستر کی پابندی کرنےکا کہا ہے ۔

________________________

([1])           مسند أحمد (26583)، والترمذي (2927)

([2])           البخاري (5046)

([3])           مسلم (733)

([4])           البخاري (757)، مسلم (397)

([5])           البخاري (825)

([6])           البخاري (1130)

([7])           مسلم (772)

([8])           النسائي (1159)

([9])           مسلم (498)

([10])          البخاري (828)، أبو داود (730)

([11])          البخاري (998)، ومسلم (751) (151)

([12])          أبو داود (636)

  • الخميس PM 02:44
    2023-02-09
  • 73

تعلیقات

    = 8 + 1

    /500
    Powered by: GateGold