تازہ ترین
رجوع کیے بغیر طلاق => مسائل طلاق ماہ بہ ماہ طلاق => مسائل طلاق حالت حیض میں طلاق => مسائل طلاق طلاق کی عدت => مسائل طلاق بدعی طلاق => مسائل طلاق حالت نفاس میں طلاق => مسائل طلاق بیک وقت تین طلاقیں => مسائل طلاق مباشرت کے بعد طلاق => مسائل طلاق اللہ تعالیٰ کی معیت => مسائل عقیدہ ایک مجلس کی تین طلاقیں => مسائل طلاق

میلنگ لسٹ

بريديك

موجودہ زائرین

باقاعدہ وزٹرز : 50654
موجود زائرین : 16

اعداد وشمار

47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
272
فتاوى
54
مقالات
187
خطبات

تلاش کریں

البحث

مادہ

قیام اللیل کی فضیلتیں

درس کا خلاصہ

یام اللیل، نما زتراویح یا نما زتہجد کی کل پانچ فضلیتیں ہیں۔ رات کےآخری حصے میں پڑھنا رات کے ابتدائی حصے کی نسبت افضل ہے۔ باجماعت پڑھنا اکیلے نما زپڑھنے سے افضل ہے گھر میں پڑھنا مسجد میں پڑھنے سے بہتر ہے۔ زیادہ تعداد والی جماعت ،کم تعداد والی جماعت کی نسبت افضل ہے۔ زیادہ لمبا قیام چھوٹے اور لمبے قیام سے بہتر اور افضل ہے ۔



  آڈیو فائل ڈاؤنلوڈ کریں


الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على سيد الأنبياء والمرسلين، أما بعد!

تہجد کی فضیلتیں

محمد رفیق طاہر عفا اللہ عنہ

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

‹وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ› [الإسراء: 79]

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن مجید میں پانچوں نمازوں کی فرضیت کاذکر کیا اور سا تھ ہی فرمایا: ’’اور  رات  کے کچھ حصے میں رات کی نیند چھوڑکر نماز ادا کریں، یہ آپﷺ کے لیے نفلی ہے۔‘‘

را ت کی نیند کو ہجو د کہتے ہیں اور رات کی نیند کو چھوڑ کر یہ نماز پڑھی جاتی ہے، اس لیےاس کو تہجد کہتے ہیں۔چونکہ یہ نماز رات کےوقت ہوتی ہے، اس لیے اس کو  قیام اللیل بھی کہتے ہیں۔ رمضان میں وہ  لوگ جو باقی گیارہ مہینے   رات کےقیام کا اہتمام نہیں کرتے، وہ بھی یہ قیام کرتےہیں، اس  لیے اس کو قیام رمضان بھی کہتےہیں ۔ اسی طرح یہ نماز کافی لمبی ہوتی ہےاور اس میں  قیام کرنے والے لوگ کھڑے  کھڑے تھک جاتے ہیں، اس  لیے اس کو  تراویح کہتے  ہیں۔یا دو رکعتوں کے بعد  وقفہ ہوتا ہے  ، یوں چار ترویحات کی وجہ سے بھی اس کو تراویح کہہ دیا جاتا ہے  ۔

لفظ تراویح نبی ﷺ کے دور میں نہیں تھا۔ بعد کےلوگوں نے طویل قیام کی وجہ سے اس  کانام تراویح رکھ دیا ۔ اس نماز کےساتھ نماز وتر ادا کی جاتی ہے،اس لیے اس کو نماز وتر بھی کہا جاتاہے ۔

عام طور پریہ تصور پایاجاتاہےکہ بندہ رات کو سو کر اٹھےاور اس کے بعد جو نماز پڑھے، وہ تہجد ہے۔حالانکہ  ایسی بات نہیں۔ را ت کی نیند کو ہجو د کہتے ہیں اور رات کی نیند کو چھوڑ کر جو نماز پڑھی جاتی ہے، اس کو تہجد کہتے ہیں خواہ  وہ رات کے پہلے حصے کی نیند آپ چھوڑ دیں، یا رات کےآخری حصے والی نیند چھوڑ دیں۔یہ تہجد ہی کہلائے گی  او ر اس کے پانچ مختلف نام الگ الگ وجہ سے ہیں ۔

یہ نفل نماز ہے اور اس  میں پانچ طرح کی فضلیتں ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہےکہ  نفل نما زگھر  میں پڑھنا مسجد کی نسبت افضل ہے اور نمبر دو یہ کہ رات کے آخری حصے میں نما ز ادا کرنا رات کے پہلے حصے میں نماز ادا کرنے سے بہتر ہے، کیونکہ رات کے آخری پہر اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر آتے ہیں اور  لوگوں سے  مخاطب ہوکر کہتے ہیں:’’ہےکوئی مانگنے والا  میں اسے عطا کروں؟ہے کوئی بخشش مانگنے والا، اس کومیں معاف کروں؟ ہے کوئی رزق مانگنےوالا، میں اس کو  رزق دوں؟([1])

اس لیے رات کے آخری پہر یہ نماز ادا کرنا ،عشاء کےفوراً بعد ادا کرنے  سے  زیادہ درجہ والی ہے۔ اسی طرح باجماعت ادا کرنا،اکیلےادا کرنےکی نسبت بہتر ہے  ۔کیونکہ نبیﷺ کا فرمان ہے:

«صَلاَةُ الجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلاَةَ الفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِينَ دَرَجَةً» ([2])

’’ایک آدمی کی جماعت کے ساتھ نماز اکیلےپڑھنےکی نسبت  ستائیس گنا زیادہ فضلیت رکھتی ہے۔‘‘

اس لیے اگر یہ نماز باجماعت اداکی جائے تو اس کا اجر اکیلےپڑھنےسے زیادہ ہے اور پھر  جماعت میں جتنے زیادہ افراد ہوں گے، اس کی فضلیت اتنی ہی زیادہ ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:

«إِنَّ صَلَاةَ الرَّجُلِ مَعَ الرَّجُلِ أَزْكَى مِنْ صَلَاتِهِ وَحْدَهُ، وَصَلَاتُهُ مَعَ الرَّجُلَيْنِ أَزْكَى مِنْ صَلَاتِهِ مَعَ الرَّجُلِ، وَمَا كَثُرَ فَهُوَ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى» ([3])

’’ایک آدمی کا ایک آدمی کے ساتھ نما زپڑھنا، اکیلے نماز پڑھنےکی نسبت  بہتر ہے ۔ ایک  آدمی کا دو آدمیوں کے ساتھ نما ز پڑھنا ، تین افراد کےساتھ نما زپڑھنے سے درجہ میں کم ہے اورجو اس سے زیادہ  ہوگا اور جتنا زیادہ ہو گا، اتنا زیادہ  اللہ رب العالمین کے  ہاں محبوب ہے ۔‘‘

یعنی نماز یوں کی کثرت نماز کے فضل کو بڑھا دیتی ہے۔

پانچویں چیز  یہ ہے کہ نبی کریم  ﷺ سے سوال کیا گیا کہ کون سی نما ز افضل ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:

«طُولُ الْقُنُوتِ» ([4])

’’وہ نما زجس میں قیام لمبا ہو ۔‘‘

اس طرح قیام اللیل، نما زتراویح یا نما زتہجد کی  کل پانچ فضلیتیں ہیں۔

  1. رات کےآخری حصے میں پڑھنا رات کے ابتدائی حصے کی نسبت افضل ہے۔
  2. باجماعت پڑھنا اکیلے نما زپڑھنے سے افضل ہے
  3. گھر میں پڑھنا مسجد میں پڑھنے سے بہتر ہے۔
  4. زیادہ تعداد  والی جماعت ،کم تعداد والی جماعت کی  نسبت افضل ہے۔
  5. زیادہ لمبا قیام چھوٹے اور لمبے قیام سے بہتر اور افضل ہے ۔

اس لیے اگر کوئی آدمی  رات کےآخری پہر میں اپنے گھر میں  باجماعت  زیادہ سے زیادہ افراد کے ساتھ  لمبا قیام کرکے یہ نما ز ادا کرے، تو  وہ  پانچوں فضائل کو جمع کرلےگا ۔

اب ہمارے ہاں جو موجودہ  صورت حال ہے کہ مساجد میں  باجماعت  نمازیں عشاء کے فوراً بعد ہوتی ہیں۔رات کے آخری حصے کاجو فضل  اوراہمیت  ہے، وہ رہ جاتی ہے۔لیکن  جماعت  کی فضیلت ، لمبے قیام کی فضلیت اور زیادہ لوگوں  کی فضلیت حاصل ہوجاتی ہے۔

جو لوگ  گھروں میں پڑھتے ہیں، وہ عام طور پراکیلے اکیلے پڑھتے ہیں۔ یوں گھر میں پڑھنے والا اجر وہ پا لیتے ہیں، لیکن  باقی فضائل رہ جاتے ہیں۔

اگر کوئی رات کے آخری پہر پڑھتا ہےتو وہ  دو فضلیتیں جمع کرلیتا ہے اور اس کی باقی فضیلتیں رہ  جاتی ہیں ۔

سیدنا سائب بن یزید ﷜ کہتے ہیں کہ عمر ابن خطاب﷜ نے ابی ابن کعب﷜ اورتمیم داری﷜ کو حکم دیا کہ لوگوں  کو گیارہ رکعات پڑھائیں۔ ابی ابن کعب اور تمیم داری﷠ یہ مئین پڑھتے تھے۔ (مئین ان سورتوں کو کہتےہیں   جن کی آیات  سو سے زائد ہیں۔)قیام اتنا لمبا ہوتا  کہ ہم قیام میں سہارا لیا کرتےتھے۔ جب ہم  قیام کرکے (گیارہ  رکعتیں پڑھ کر) فارغ ہوتے   تو صبح ہونے کے قریب ہوتی تھی ۔([5])

عبد الرحمن ابن عبدالقاری کہتےہیں کہ میں سیدناعمر ابن الخطاب﷜ کے ساتھ ایک رمضان کی رات میں  مسجد میں گیا۔لوگ الگ الگ ٹولیوں میں تھے۔ کوئی بندہ اکیلا ہی اپنی تراویح  پڑھ رہا تھا۔کہیں ایک آدمی نماز پڑھا رہا تھا اور اس کے پیچھے چند لوگ جماعت کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے۔ اسی طرح  مختلف ٹولیوں  میں لوگ بٹے ہوئے تھے۔سیدنا  عمر فاروق ﷜ نے انہیں دیکھا اور فرمانےلگے: ’’میرا خیال ہے کہ ان کو ایک ہی قاری کے پیچھے  جمع کردیں تو یہ زیادہ بہتر ہوگا۔‘‘ چنانچہ انہوں نے ابی ابن کعب﷜ کو حکم دیا اور انہوں نےلوگوں کی امامت کروانا شروع کردی اور سارے  انہی کے پیچھے نماز ادا کرتے تھے۔ کہتےہیں کہ پھر ایک اور رات میں سیدنا عمر ﷜ کےساتھ نکلا   اور مسجد میں گیا تو لوگ اپنےقاری کی اقتداء میں  باجماعت  نما ز تراویح ادا  کررہےتھے۔ سیدنا عمر ﷜ نے  انہیں دیکھا تو فرمایا: ’’یہ جو نیا کام ہم نےکیا ہے، یہ بہت ہی عمدہ ہے  اور رات کےجس پہر میں یہ سو جاتے ہیں   وہ پہر زیادہ بہتر ہے اس سے جس میں یہ قیام کرتےہیں۔‘‘ ([6])

یعنی رات کا آخری پہر زیادہ بہتر ہے۔

اور اسی طرح نبی ﷺ کے دور میں گھر میں نما زباجماعت کاسلسلہ بھی تھا ۔سیدنا عبداللہ ابن جابر  ﷜ کہتے ہیں کہ ابی ابن کعب نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے:’’رمضان کی رات میں میرے ساتھ عجیب معاملہ ہواہے۔‘‘ آپﷺ نے پوچھا: ’’اے ابی! وہ کیا تھا؟‘‘ کہنے لگے: ’’میرے گھر میں عورتیں جمع تھیں، انہوں نے کہا کہ ہم قرآن اچھی طرح نہیں  پڑھ سکتیں، (زیادہ قرآن یاد نہیں ہے ) تو  آپ  ہمیں قیام کروا دو۔ میں نے انہیں آٹھ  رکعتیں پڑھائی اور وتر پڑھائے۔‘‘  نبیﷺ نے اس پرخاموشی اختیار کی اور کچھ نہیں کہا۔([7])

یعنی نبی ﷺ کے زمانے میں بھی گھروں میں باجماعت تراویح کا اہتمام ہوتا تھا۔ صحابہ کرام اس کااہتمام کیا کرتےتھے۔ اب جس طرح حفاظ کی تعداد بہت زیادہ ہے، تو  اگر گھروں  میں  بھی اس چیز کا اہتمام کرلیا جائے ،اور  مساجد کو بھی آباد رکھا جائے، یعنی کچھ نماز مسجد میں اداکرلی جائے اور کچھ گھر میں اداکی جائے ، تو بہتر ہے۔ کیونکہ گھر میں نما زاداکرنے سے نبی ﷺ کی سنت کا احیاء بھی ہوجاتا ہےاور ساتھ ساتھ یہ مسئلہ بھی  حل ہوجاتا ہے کہ  جو حفاظ کہتے ہیں کہ ہم نے قرآن نہیں سنایا، تو قرآن سنا کر ان کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا ۔

___________________________

([1])           البخاري (1145)، ومسلم (758)

([2])           البخاري (645)، ومسلم (650)

([3])           أبو داود (554)

([4])           مسلم (756)

([5])           مؤطا مالك (379) ت: الأعظمي

([6])           البخاري (2010)

([7])           ابن حبان (2549)

  • الخميس PM 03:02
    2023-02-09
  • 286

تعلیقات

    = 6 + 7

    /500
    Powered by: GateGold