میلنگ لسٹ

بريديك

موجودہ زائرین

باقاعدہ وزٹرز : 168992
موجود زائرین : 60

اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
278
فتاوى
56
مقالات
188
خطبات

تلاش کریں

البحث

مادہ

ایک طہر میں متعدد طلاقیں

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص نے اپنی اہلیہ کو  یکم مئی 2023ء کو کہا کہ میں تمھیں طلاق دے چکا ہوں لیکن اسے علم نہیں تھا کہ کب طلاق دی ہے۔ پھر 3 مئی کو میسج کرکے  دو بار کہا کہ میں تمھیں طلاق دیتا ہوں۔ پھر تین مئی کو ہی ایک مرتبہ پھر کہا کہ میں نے تمھیں طلاق دے دی ہے  اپنے گھر جاؤ۔ پھر 6 مئی کو کال کرکے کہا کہ میں تمھیں طلاق دے رہا ہوں۔ پھر 12مئی کو کہا طلاق نہیں دیتا مگر انتظار کرو۔  اور پھر 19مئی کو یہ کہہ کرکہ’’ میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں جو بولا تھا غصے میں بولا تھا‘‘ رجوع کر لیا۔

الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب

 

صورت مسئولہ میں صرف ایک طلاق رجعی واقع ہوئی ہے جس کے بعد خاوند نے دوران عدت رجوع کر لیا ہے، بشرطیکہ یہ طلاق ایام حیض میں یا طہر میں قبل از مباشرت دی گئی ہو۔ اگر طہر میں بعد از مباشرت طلاق دی گئی ہے تو ایک بھی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُمْسِكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضَ ثُمَّ تَطْهُرَ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ بَعْدُ، وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ، فَتِلْكَ العِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ»

انہوں نے  دونبوی میں اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی ، توسیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں دریافت کیا۔ تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے حکم دے کہ وہ اس سے رجوع کرے، پھر اسے روکے رکھے حتى کہ وہ (حیض سے) پاک ہو جائے، پھر اسے حیض آئے، پھر پاک ہو، پھر اگر وہ چاہے تو اس کے بعد روکے رکھے اور اگر چاہے تو اسے مباشرت سے قبل طلاق دے دے۔ یہ وہ مقررہ وقت ہے کہ اللہ نے جس وقت میں عورتوں کو طلاق دینے کی اجازت دی ہے۔

صحیح البخاری: 5251

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ:

  • حالت حیض میں طلاق دینا منع ہے! البتہ اگر کوئی اس حالت میں طلاق دے دے تو واقع ہو جاتی ہے کیونکہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اس طلاق کو شمار فرمایا تھا۔ ( سنن الدارقطنی 3912)
  • عورتوں کو طلاق دینے کے لیے اللہ تعالى نے ایک وقت مقرر کیا ہے، سو اسی وقت میں طلاق دی جائے(سورۃ الطلاق: 1)۔ اس وقت کے علاوہ دی گئی طلاق واقع نہیں ہوگی ما سوا طلاق حیض کہ اس کے استثناء کی دلیل موجود ہے (کما تقدم) اور ایک مجلس میں ایک سے زائد طلاق  کہ ان میں سے ایک کے واقع ہونے پہ بھی دلیل موجود ہے۔ ( صحيح مسلم: 1472)
  • ایک طلاق دینے کے بعد دوسری طلاق دینے کے لیے رجوع ضروری ہے، کیونکہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کو بھی سنت کے مطابق طلاق دینے کے لیے رجوع کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
  • ایک طلاق سے رجوع کرنے کے بعد بھی دوسری طلاق تب دے سکتے ہیں جب رجوع کے بعد عورت کو ایک حیض آئے اور پھر اسکے بعد طہر آئے تو اس اگلےطہر میں طلاق دی جا سکتی ہے۔
  • طلاق دینے کےلیے ضروری ہے کہ جس طہر میں طلاق دی جا رہی ہے اس طہر میں مباشرت نہ کی گئی ہو، کیونکہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو یہی طریقہ بتا کر نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے اسے اللہ کا مقرر کردہ طریقہ قرار دیا ہے۔

تنبیہ:

 جس  طہر میں جماع کیا گیا ہو، اگر اس میں حمل ٹھہر جائے تو حالت حمل میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ 

( سورۃ الطلاق: 4)

تنبیہ ثانی:

الگ الگ مجالس میں دی گئی طلاقوں کو الگ الگ شمار کرنے کے لیے عموما حدیث رکانہ رضی اللہ عنہ پیش کی جاتی ہے۔ لیکن وہ داود بن الحصین عن عکرمہ کی وجہ سے مضطرب ضعیف ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں  بہر دو صورت شیر محمد زمان اور سارہ میاں بیوی ہیں۔ انکا نکاح قائم ہے۔

 

هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم

  • الثلاثاء PM 02:46
    2023-06-06
  • 923

تعلیقات

    = 3 + 8

    /500
    Powered by: GateGold