میلنگ لسٹ
موجودہ زائرین
اعداد وشمار
تلاش کریں
مادہ
ایک مجلس کی تین طلاقیں
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ منکہ مسمیٰ عرفان سیف ولد سیف اللہ قوم راجپوت موڑ کھنڈا کا رہائشی ہوں ۔میں حلفابیان کرتاہوں کہ میں نے اپنی بیوی مسماۃ عالیہ حبیب دختر حبیب الرحمن کو مورخہ 2023-10-23ایک ہی مجلس میں تین مرتبہ زبانی طلاق کہہ دی، لیکن اب میں اپنے اس عمل سے بہت شرمندہ ہوں اب ہم آپس میں صلح کرنا چاہتے ہیں تو شرع محمدی میں اس حوالے سے کیا راہ نمائی ملتی ہے کہ ہم اپنا گھر دوبارہ کیسے بسا سکتے ہیں؟قرآ ن و سنت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں۔ ہمارے خاندان والے بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے دلیل اور حوالہ ضرور بتائیں۔
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
اکٹھی تین طلاقیں دینے سےطلاق واقع ہونے پر سب کا اتفاق ہے لیکن ایک ہوتی ہے یا تین اس میں اختلاف ہے اور صحیح بات یہی ہے کہ ایک طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ
” طلاق (رجعی)دو مرتبہ ہے پھر یا تو(عورت کو) دستور کے مطابق روک لیا جائے یااحسن طریقہ کے ساتھ چھوڑ دیا جائے۔“
[ سورة البقرة:228-229]
ایک ہی دفعہ دو یا تین طلاقیں دینا طلاق بدعی کہلاتا ہے جو کہ صرف ایک رجعی طلاق واقع ہوتی ہے اس کی دلیل مسلم شریف کی یہ حدیث ہے ۔سيدناابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”کَانَ الطَّلاقُ عَلٰی عَهْدِ رَسُوْلِ اللّٰهِ ﷺ وَأَبِیْ بَکْرٍ وَسَنَتَیْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلاَقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوْا فِی أَمْرٍ قَدْ کَانَتْ لَهُمْ فِیْهِ أَنَاةٌ فَلَوْ أَمْضَیْنَاهُ عَلَیْهِمْ فَأَمْضَاهُ عَلَیْهِمْ“
’’رسول اللہ ﷺ، سيدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سيدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں اکٹھی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔“
[صحيح مسلم: حدیث نمبر:3673 ]
يادرہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ سیاسی اور تہدیدی تھا جیساکہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار 6/511،جامع الرموز1/506،مجمع الأنہر شرح ملتقی الأبحر میں بھی لکھا ہے:
وَاعْلَمْ أَنَّ فِي صَدْرِ الْأَوَّلِ إذَا أَرْسَلَ الثَّلَاثَ جُمْلَةً لَمْ يُحْكَمْ إلَّا بِوُقُوعِ وَاحِدَةٍ إلَى زَمَنِ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ -، ثُمَّ حَكَمَ بِوُقُوعِ الثَّلَاثِ لِكَثْرَتِهِ بَيْنَ النَّاسِ تَهْدِيدًا
اسلام کے ابتدائی دور سے لیکر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ كےدور خلافت تک جب اکٹھی تین طلاقیں بھیجی جاتیں تو ان پر ایک طلاق کا حکم لگایا جاتا پھر جب یہ عادت لوگوں میں زیادہ ہوگئی تو پھر تہدیدی طور پر تین طلاقوں کا حکم لگا دیا گیا ۔
فقہ حنفی کی محولہ کتب کی اس صراحت سے یہ بات ظاہر ہو گئی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ سیاسی اور تہدیدی تھا ۔جبکہ رسول اللہﷺکا فیصلہ شرعی اور حتمی ہے ۔
اس حوالے سے بریلوی مکتبہ فکر کے معروف عالم سابق چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت پیر کرم شاہ الازہری فرماتے ہیں :
’’لیکن ایک خلجان ابھی تک موجود ہے جس کا ازالہ از حد اہم ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب طلاق ثلاث ایک طلاق شمار کی جاتی تھی تو الناطق بالصدق والصواب الفاروق بین الحق والباطل حضرت امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے برعکس حکم کیوں دیا۔تو اس کے متعلق گزارش یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہ ملاحظہ فرمایا کہ لوگ طلاق ثلاث کی حرمت کو جانتے ہوئے اب اس کے عادی ہوتے چلے جا رہے ہیں توآپ کی سیاست حکیمانہ نے ان کو اس امر حرام سے باز رکھنے کے لیے بطور سزا حرمت کا حکم صادر فرمایا۔ اور خلیفہ وقت کو اجازت ہے کہ جس وقت وہ دیکھے کہ لوگ اللہ کی دی ہوئی سہولتوں اور رخصتوں کی قدر نہیں کر رہے اور ان سے استفادہ کرنے سے رک گئے ہیں اور اپنے لیے عسر و شدت پسند کر رہے ہیں تو بطورتعزیر انہیں ان رخصتوں اور سہولتوں سے محروم کرنے کے بعد وہ اس سے باز آ جائیں۔حضرت امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ نے یہ حکم نافذ کرتے ہوئے یہ نہیں فرمایا کہ حضور نبی کریم ﷺ کا یوں ارشاد گرامی ہے بلکہ کہا :فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ (’’کاش ہم اس کو ان پر جاری کر دیں۔‘‘)ان الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ یہ آپ کی رائے تھی اور امت کو اس فعل سے باز رکھنے کے لیے یہ تعزیری قدم اٹھایا گیا تھا۔ اس تعزیری حکم کو صحابہ کرام نے پسند فرمایا اور اسی کے مطابق فتوے دیے۔لیکن حدود کے علاوہ تعزیرات اور سزائیں زمانہ کے بدلنے سے بدل جایا کرتی ہیں۔ اگر کسی وقت کوئی مقررہ تعزیر سے بجائے فائدہ کے الٹا نقصان ہو اور مصلحت کی جگہ فساد روپذیر ہونے لگے تو اس وقت تعزیر کا بدلنا از حد ضروری ہو جاتا ہے۔‘‘ انتہی۔
[دعوت فکر و نظر: صفحہ 27،28]
بریلوی مکتبہ فکر کے پیر صاحب کی اس صراحت سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فیصلہ تعزیری اور سیاسی فیصلہ تھا، کوئی شرعی فیصلہ نہ تھا۔ اور یہ بھی واضح ہوا کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کے حکم کی مخالفت نہیں کی کیونکہ آپ ﷺ کا حکم شرعی تھا جبکہ امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کا حکم سیاسی و تعزیری تھا۔ اور نہ ہی امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ نے دور صدیقی اور اپنے دور، دور فاروقی کے آغاز میں موجود مسلمانوں کے اجماع کی مخالفت کی کیونکہ مسلمانوں کا اجماع و اتفاق شرعی مسئلہ پہ تھا کہ شریعت کی رو سے بلا رجوع تین طلاقیں ایک شمار ہونگی جبکہ امیر المؤمنین نے انہیں تین قرار دینا کا حکم بطور سزا نافذ فرمایا تھا۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اس فیصلے سے رجوع بھی کر لیا تھا ۔
خالد بن یزید بن ابو مالک اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
مَا ندمتُ عَلى شيءٍ ندامتِي عَلى ثلاثٍ : أَنْ لَا أَكُونَ حرمتُ الطَّلاقَ وعَلى أَنْ لَا أَكونَ أَنكحت المَوَالِي وَعَلى أَن لَا أَكُون قتلتُ النَّوائِح
مجھے تین چیزوں پر ندامت ہے :1۔میں نے طلاق کو حرام نہ کیا ہوتا۔2۔آزاد کردہ عورتوں سے نکاح نہ کرایا ہوتا۔3۔اور کاش نوحہ کرنے والیوں کو میں نے قتل کرنے کا حکم جاری نہ کیا ہوتا۔
[اغاثة اللفهان:1/336]
لہذا ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی طلاق کا حکم رکھتی ہیں جسکے بعد خاوند کو رجوع کرنے کا حق حاصل ہے ۔
اسی طرح سيدنا رکانہ بن عبدیزید رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کے دورمیں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی تھیں۔ پھر وہ شرمسار ہوئے اور اپنے فعل پر سخت نادم ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے اکٹھی تین طلاقوں کو ایک شمار کر کے انہیں رجوع کا حق دے دیا۔
”عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: طَلَّقَ رُکَانَةُ بِنْتَ عَبْدِ یَزِیْدَ أَخُو بَنِیْ عَبْدِ الْمُطَّلَبِ۔ فِی مَجْلِسٍ ثَلَاثًا فَحَزِنَ عَلَیْهَا حُزْنًا شَدِیْدًا فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اللّٰهِ ﷺ: کَمْ طَلَّقْتَهَا یَا رُکَانَةَ فَقَالَ ثَلَاثًا فِیْ مَجْلِسٍ وَاحِدٍ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ ﷺ فَإِنَّهَا وَاحِدَةٌ“۔
’’رکانہ بن عبدیزید جوکہ مطلب کے بھائی ہیں انہوں نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں پھر اس پر شدید غمگین ہوئے تو رسول اللہﷺنے پوچھا تونے کیسے طلاق دی تھی اس نے کہا میں نے تین طلاقیں دی ہیں آپ ﷺنے پوچھا ایک ہی مجلس میں ؟ اس نے کہا جی ہاں آپﷺنے فرمایا بےشک یہ تو صرف ایک ہی ہے اگر تو چاہتا ہے تو رجوع کر لے (راوی حدیث حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ )فرماتے ہیں انہوں نے رجوع کر لیا‘‘
[مسند أحمد (2383)أبوداود کتاب الطلاق باب في البتة (2208،2206)]
اس کی یہ تین یکبارگی طلاقیں ایک رجعی طلاق شمار ہوگی۔
یاد رہےموجودہ طریقہ مروجہ جو کہ حلالہ کی شکل میں ہے سخت مذموم اور حقیر فعل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص پر جو حلالہ کرتا ہے، یا کرواتا ہے لعنت فرمائی ہے۔
حدیث مبارکہ میں ہے:
لَعَنَ اللّٰهُ الْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَه
’’حلالہ کرنے اور کروانے والے پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔‘‘
[سنن الترمذی: 1120، سنن النسائی: 6/149 ]
مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں عرفان سیف اپنی اہلیہ عالیہ حبیب سے دوران عدت رجوع اور بعد از عدت تجدید نکاح کا حق رکھتا ہے ۔
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-
الثلاثاء AM 08:53
2023-10-31 - 2360