اعداد وشمار
مادہ
اجماع کی کیا حیثیت ہے یہ دلیل بن سکتا ہے یا نہیں؟
سوال
اجماع کی کیا حیثیت ہے یہ دلیل بن سکتا ہے یا نہیں؟
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
اجماع کی کی گئی مختلف تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ:
کتاب وسنت کے سے مستنبط کسی مسئلہ پر نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کسی دور کے تمام تر مجتہدین اتفاق کر لیں تو اسے اجماع کہا جاتا ہے۔
مگر اجماع کا دعوى کرنے والے والے اکثر اختلاف معلوم نہ ہونے پر اجماع کا دعوى کرتے ہیں۔ یعنی لا أعلم خلافا کہنے کے بجائے اجماع کہہ دیتے ہیں۔
کیونکہ آج کے جدید کیمونیکیشن دور میں بھی عصر حاضر کے تمام تر مجتہدین کی آراء کسی ایک مسئلہ پر معلوم کرنا ناممکن ہے۔ تو سابقہ ادوار میں جبکہ ایسے جدید مواصلاتی نظام بھی موجود نہ تھے تو کیسے ممکن ہوگیا کہ دنیا بھر کے تمام تر مجتہدین کے سے انکی آراء معلوم کر لی گئیں؟
اور پھر بہت سے ایسے مسائل جن پہ کتاب وسنت کی واضح نصوص دلالت کرتی ہیں ان پر اتفاق نہیں ہوسکا تو مجتہد فیہ مسائل میں علماء امت کا اتفاق کیسے ممکن ہے؟ جبکہ مجتہدین میں تفاوت علم اور تفاوت ملکہ استنباط سے کسی کو انکار کی مجال نہیں۔
رہی بات اجماع کے حجت ہونے کی، تو یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لیں کہ اجماع بذات خود مأخذ شریعت نہیں ہے۔ بلکہ مأخذ شریعت صرف اور صرف وحی الہی ہے جو کہ قرآن وحدیث میں محصور ومقصور ہے۔ اور اجماع خود اس وحی الہی کا محتاج ہے۔ یعنی کسی مسئلہ پر اگر اتفاق ہو بھی جائے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسئلہ کتاب وسنت کی کسی دلیل سے اخذ کردہ ہو۔ گویا اجماع کو بھی اصل کی ضرورت ہے اور وہی اصل ماخذ شریعت ہے۔ یعنی اجماع خود بذاتہ حجت نہیں بلکہ اجماع کی صورت میں بھی حجت وہ آیت یا حدیث ہوتی ہے جسے بنیاد بنا کر مسئلہ اخذ کیا گیا ہے۔
لہذا اجماع دلیل نہیں بنتا بلکہ دلیل وحی الہی ہی ہوتی ہے۔ خوب سمجھ لیں۔
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-     
الاربعاء PM  04:50   
 2022-01-19
- 1000





