اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
280
فتاوى
58
مقالات
188
خطبات

مادہ

ابواب السماء سے کیا مراد ہے؟

سوال

آیت لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ کے بارہ میں کچھ لوگ کہتے ہیں ان دروازوں سے مراد جنت کے دروازے ہیں کیونکہ جنت کے دروازوں کے لئے فُتِّحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ آیا ہے اس سے پچھلی حدیث میں  فُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ کے الفاظ جنت کے دروازوں کے لئے استعمال ہوئے ہیں تو اس آیت کے ان الفاظ کا مطلب بھی جنت کے دروازے ہیں جہنم کے دروازے یا آسمان کے دروازے مراد نہیں ہیں۔

الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب

اولا: اللہ تعالى نے جنت آسمانوں میں عرش سے نیچے بنائی ہے۔ لہذا جنت میں داخلہ کے آسمانوں میں چڑھنا ضروری ہے۔  یعنی جنت میں داخلہ اسے ہی ملے گا جس کے لیے آسمان کے دروازے بھی کھلیں اور جنت کے دروازے بھی۔ سو ان احادیث میں ابواب السماء اور ابواب الجنہ کے الفاظ دونوں وارد ہوئے ہیں۔

ثانیا: سماء کا حقیقی معنى آسمان ہے۔ اور علم اصول میں یہ بات مسلمہ ہے کہ کسی بھی لفظ کو اسکے حقیقی معنى پہ محمول کیا جاتا ہے۔ الا کہ کوئی قرینہ موجود ہو۔ حدیث میں سماء کا لفظ استعمال ہوا ہے تو اس کی جگہ دوسرے مقام پہ جنت کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔ جو کہ واضح قرینہ ہے کہ یہاں سماء سے مراد جنت ہے۔

جبکہ آیت میں سماء کا لفظ استعمال ہوا ہے مگر وہاں اس لفظ کے لیے کوئی قرینہ موجود نہیں ہے۔ بلکہ اسکے برخلاف سماء سے آسمان ہی مراد ہونے پر مسند احمد روایت دلالت کرتی ہے۔

رسول الله ﷺ کافر کا انجام ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

حَتَّى يُنْتَهَى بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيُسْتَفْتَحُ لَهُ، فَلَا يُفْتَحُ لَهُ "، ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: {لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ} [الأعراف: 40] فَيَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: " اكْتُبُوا كِتَابَهُ فِي سِجِّينٍ فِي الْأَرْضِ السُّفْلَى، فَتُطْرَحُ رُوحُهُ طَرْحًا ". ثُمَّ قَرَأَ: {وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللهِ، فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ} [الحج: 31] " فَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ

حتى کہ اسے آسمان دنیا تک لیجایا جاتا ہے , اسکے لیے دروازہ کھلوایا جاتا ہے تو کھولا نہیں جاتا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : {لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ} انکے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے اور نہ وہ جنت میں داخل ہونگے حتى اونٹ سوئی کے سوراخ میں داخل ہو جائے۔[الأعراف: 40] اللہ﷯ فرماتے ہیں اسکا اندارج سجین میں کردو نچلی زمین میں, تو اسکی روح کو زور سے پھینک دیا جاتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: {وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللهِ، فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ} اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے تو گویا وہ آسمان سے گرا , تو اسے پرندوں نے اُچک لیا یا اسے ہوا ہی کسی دور جگہ لے گری۔[الحج: 31] پھر اسکی روح اسکے بدن میں  لوٹا دی جاتی ہے۔

مسند احمد:18534

اس حدیث میں السَّمَاءِ الدُّنْيَا  واضح الفاظ ہیں۔ جسکا ترجمہ ہے آسمان دنیا۔ اور پھر اس مذکورہ آیت کو نبی مکرم ﷺ نے بطور دلیل تلاوت فرمایا ہے ۔ جو کہ اس بات کی بین دلیل ہے کہ اس آیت میں آسمان سے مراد آسمان دنیا ہے۔ نہ کہ کچھ اور۔

ثالثا:  جو لوگ یہ اعتراض اٹھاتے ہیں‘ انکا مدعا اس باطل تأویل سے بھی ثابت نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ لوگ یہ تأویل کرکے  اعادہ روح کا انکار کرتے ہیں۔ جبکہ روح کا لوٹنا قرآن وحدیث دونوں سے ثابت شدہ ہے۔

 

هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم

  • الاثنين AM 10:05
    2022-01-10
  • 1119

تعلیقات

    = 4 + 9

    /500
    Powered by: GateGold